0
Monday 14 Mar 2011 09:56

امریکا 2022ء تک افغانستان میں اپنی فوجی موجودگی کی منصوبہ بندی کر چکا ہے

امریکا 2022ء تک افغانستان میں اپنی فوجی موجودگی کی منصوبہ بندی کر چکا ہے
کابل:اسلام ٹائمز۔ جنگ نیوز کی رپورٹ کے مطابق کابل میں سفارتی حلقوں کو یقین ہے کہ امریکا آئندہ 12 برس کیلئے 2022ء تک افغانستان میں اپنی خاطر خواہ فوجی موجودگی کی پہلے ہی منصوبہ بندی کرچکا ہے۔ ان اشاروں کی اس وقت مزید تصدیق ہو گئی جب صدر کرزئی نے ایک نیوز کانفرنس میں انکشاف کیا کہ امریکی حکام ”دونوں ممالک کے درمیان اسٹریٹجک تعلقات کے تناظر میں“ افغانستان میں مستقل فوجی اڈوں کی اجازت مانگ رہے ہیں۔ صدر کرزئی کے دعوے پر امریکی حکام کے ردعمل نے جولائی 2011ء کے امریکی فوجی دستوں کی واپسی کے پلان کو مزید مشکوک کر دیا ہے۔ ہلیری کلنٹن نے کہا کہ امریکا اپنے مفادات اور عوام کے تحفظ کی صلاحیت ہمیشہ برقرار رکھے گا۔ افغانستان میں امریکی سفیر نے کابل میں پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ اگر افغان حکومت چاہتی ہے کہ امریکا یہاں رہے تو ”یقیناً ہماری فوجوں کو اپنی کارروائیوں کیلئے جگہ چاہئے ہو گی۔“
امریکیوں کی افغانستان میں مزید موجودگی کی خواہش کی کرزئی کی تصدیق کے علاوہ یہ رپورٹس ہیں کہ امریکی بیسز میں مزید تعمیرات کیلئے 2018ء تک کے ٹھیکے ایوارڈ کئے گئے ہیں۔ شمالی افغانستان کے شہر مزار شریف میں ایک نیا بیس پہلے ہی زیر تعمیر ہے جبکہ سکیورٹی کی ذمہ داری افغان فورسز کو منتقل کرنے کے منصوبہ بھی موجود ہے۔ ایسی سرگرمیاں صدر اوبامہ کی طرف سے لزین کانفرنس کے دوران اعلان کردہ منصوبے کو افغان پارلیمنٹرینز اور حکومتی عہدیداروں میں مبہم بنا رہی ہیں۔ سب ایک ہی سوال کرتے ہیں کہ امریکا 3 برسوں میں معاملات سمیٹ رہا ہے تو نئے منصوبوں میں کیوں ملوث ہے۔ تین برسوں (2011ء سے 2014ء) میں پچھلے عبوری عمل کا مطلب یہ ہے کہ امریکا مرحلہ وار کمی کرے گا جو بظاہر نہیں لگتا۔
 افغانستان میں سفارتکاروں جنہیں امریکی اتھارٹیز کی طرف سے اپنی طویل المدتی فوجی موجودگی سے آگاہ کیا گیا ہے کے مطابق واپسی کے بعد بھی امریکا افغانستان میں اسٹریٹجک اہمیت کے حامل 4 بیسز پر فوجیوں کی خاطر خواہ تعداد برقرار رکھے گا۔ 4 مستقل بیس کابل کے شمال میں بگرام، جنوبی بارڈر پر پاکستان کے ساتھ قندھار، مغربی سرحد پر ایران کے ساتھ شین ڈنڈ، ناردرن سپلائی روٹ کیلئے شمالی سرحد پر وسطی ایشیاء کے ساتھ مزار شریف شامل ہیں۔ قندھار اور شین ڈنڈ بیسز میں توسیع پہلے ہی شروع ہو چکی ہے اور اربوں ڈالر انہیں اپ گریڈ کرنے کیلئے خرچ کئے جا رہے ہیں، جہاں سے گلیکسی جیسے بڑے ایئر کرافٹس آپریٹ کرسکیں گے۔ امریکی اڈوں کی پہلے ہی بڑے علاقے میں توسیع کی جا چکی ہے، مگر گلیکسی ملٹری ایئر کرافٹ کی لینڈنگ اور ٹیک آف کیلئے 2 ہزار میٹر طویل رن وے کی ضرورت ہوتی ہے۔ گلیکسی ویت نام جنگ کے زمانے سے زیر استعمال ہے اور بہت زیادہ کارگو طویل فاصلوں تک منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ افغان جنگ میں امریکا سے ٹینکوں سے لے کر چھوٹے طیاروں تک کی فوجی ٹرانسپورٹیشن کیلئے مفید ثابت ہوا۔ یہ 1,29,000 کلوگرام (129 ٹن) وزن اٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ 
سوویت حملے کے دوران تعمیر کیا جانے والا بگرام ایئر بیس سب سے پرانا اور بڑا ہونے کے باعث پہلے ہی تمام قسم کی جنگی اور کارگو ضروریات پوری کرنے میں مشہور ہے۔ بگرام ہی سے فوجی سامان اور کارگو افغانستان بھر میں دیگر فوجی تنصیبات پر پہنچایا جاتا ہے۔ مزید قیام کی امریکی نیت پینٹاگان کی رواں مالی سال 2012ء کی بجٹ دستاویزات (اکتوبر 2011 ء ستمبر 2012ء) سے بھی واضح ہے۔ لگتا نہیں کہ 4 ہزار سے زائد فوجی ستمبر 2012ء تک واپس بلائے جائیں۔ پینٹاگان نے خاص طور پر افغان جنگ کیلئے 107.3 ارب ڈالر کے بجٹ کی درخواست کی ہے جبکہ مالی سال 2011ء کے 1,02,000 فوجیوں کو کم کرکے گراؤنڈ پر آئندہ سال 98,250 فوجیوں کو مخصوص کیا گیا ہے۔
افغان صدر امریکی فوجی موجودگی کو کھلے عام ”مداخلت“ قرار دیکر اس پر تنقید کر چکے ہیں اور کہا کہ غیرملکی فوجیوں کی بڑی تعداد میں طویل عرصہ موجودگی افغان جنگ کی صورتحال کو مزید خراب ہی کرے گی۔ افغانستان میں امریکی قیام کی توسیع ہمسایہ ممالک اور روس و چین میں بھی عدم تحفظ اور افغان جنگ میں بتائے گئے امریکی مقاصد پر ان کے شبہات کو مزید گہرا کرے گی۔ اس سے طالبان کے ساتھ مفاہمت کا عمل بھی سبوتاژ ہو گا۔
خبر کا کوڈ : 59389
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش