0
Saturday 21 Jan 2017 19:06

تنازعات، الزامات اور ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکہ(2)

تنازعات، الزامات اور ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکہ(2)
ترتیب و تنظیم: ٹی ایچ بلوچ

تقریبِ حلف برداری کی تیاریوں پر 20 کروڑ ڈالر کے اخراجات:

امریکی میڈیا کے مطابق صدر کی تقریبِ حلف برداری کوئی سستا کام نہیں، بلکہ اس پر کروڑوں ڈالر خرچ آتا ہے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق آج ہونے والی ڈونالڈ ٹرمپ کی تقریبِ حلف برداری کی تیاریوں اور آئندہ پورا ہفتہ جاری رہنے والی تقریبات پر لگ بھگ 20 کروڑ ڈالر اخراجات کا تخمینہ ہے۔ اس میں سے آدھی رقم ڈونالڈ ٹرمپ کے حامیوں سے جمع کئے جانے والے عطیات اور باقی آدھی سرکاری خزانے سے ادا کی جائے گی۔ اخبار کے مطابق سب سے زیادہ خرچ تقریبات کی سکیورٹی پر آئے، جس پر ایک اندازے کے مطابق 10 کروڑ ڈالر خرچ ہوئے۔ نومنتخب امریکی صدر کی تقریبِ حلف برداری کی سکیورٹی کے لئے لگ بھگ تین درجن ریاستی، مقامی اور فیڈرل اداروں کے 28 ہزار سے زائد اہلکاروں نے ڈیوٹی دی۔ ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے تقریبِ حلف برداری کے انتظامات کی نگرانی کے لئے بنائی جانے والی کمیٹی نے مہینوں کی محنت کے بعد کارپوریشنوں، کاروباری شخصیات اور نومنتخب صدر کے حامی عام شہریوں سے 10 کروڑ ڈالر جمع کئے ہیں، جو ایک ریکارڈ ہے۔ اس سے قبل کسی امریکی صدر کی اِن آگریشن کے لئے سب سے زیادہ عطیات اکٹھے کرنے کا ریکارڈ صدر اوباما کی ٹیم نے قائم کیا تھا، جس نے 2009ء میں ان کی حلف برداری کی تقریبات کے لئے لگ بھگ ساڑھے پانچ کروڑ ڈالر جمع کئے تھے۔

ٹرمپ اور اوباما کا الوداعی پیغام:

امریکہ کے سبکدوش ہونے والے سیاہ فام صدر براک اوباما نے وائیٹ ہاؤس میں اپنی الوداعی پریس کانفرنس کے دوران ہلکے پھلکے انداز میں اپنے جانشین کو کئی اہم مشورے دینے کے ساتھ اپنے آٹھ سالہ دور حکومت کے اہم اقدامات کا بھی تذکرہ کیا۔ انہوں نے اپنے ساتھ کام کرنے والوں کا شکریہ ادا کیا اور انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے امور کی انجام دہی میں میری مدد کی اور کام آسان کئے، مجھے بہت سے کاموں کے بارے میں سوچنے اور انہیں صائب طریقے سے کرنے کا موقع فراہم کیا۔ انہوں نے صحافیوں کے کردار کو سراہا اور کہا کہ وہ حقیقت کے اظہار اور جمہوریت کے فروغ کے لئے صحافیوں سے اپنے پیشہ وارانہ امور کی انجام دہی کے تسلسل کی توقع رکھتے ہیں۔ وکی لیکس کو اہم فوجی راز مہیا کرنے والے فوجی اور اپنی جنس تبدیل کرنے والے براڈلی مانینگ کی سزا معاف کرنے کے بارے میں کہا کہ براڈ لی مانینگ نے اعتراف جرم کیا اور اس کے بدلے میں کڑی سزا بھگت لی ہے۔ اب تک اس کا جیل میں سزا کاٹنا کافی ہے۔ روس پر حالیہ امریکی پابندیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے صدر اوباما نے کہا کہ ماسکو کے ساتھ دوستانہ اور خوش گوار تعلقات واشنگٹن کے مفاد میں ہیں، مگر امریکہ کے بارے میں روس کا معاندانہ طرز عمل اور عالمی بحرانوں پر امریکا کی مخالفت نے ہمیں ایک دوسرے سے دور کیا۔ انہوں نے کہا کہ روس پر پابندیاں اس کے اعمال کا نتیجہ ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں صدر اوباما نے کہا کہ میں نے اپنے جانشین ڈونلڈ ٹرمپ کو ہر صائب مشورہ دیا ہے۔ مجھے توقع ہے کہ جن اقدار پر عمل درآمد کی اپیل کی گئی ہے، ڈونلڈ ٹرمپ ان پر عمل کریں گے۔ اگرچہ مجھے ٹرمپ کے بعض بیانات سے خوف بھی ہے۔ توقع ہے کہ ٹرمپ معیشت کی بہتری اور نئی ملازمتیں تخلیق کرنے کے لئے کوششیں جاری رکھیں گے۔

امریکہ میں مہاجرین اور غیر قانونی تارکین وطن کے بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی پر بات کرتے ہوئے صدر اوباما نے کہا کہ تارکین وطن کے بچوں کو کسی صورت میں سزا نہیں دی جاسکتی۔ اس ضمن میں ٹرمپ کو بھی کچھ وقت ضرور دیا جانا چاہیے۔ صدارت کے بعد وہ کیا کریں گے؟ کے سوال پر صدر اوباما نے کہا کہ وہ اپنی اہلیہ اور دونوں بیٹیوں کے ہمراہ وقت گذاریں گے۔ انہوں نے کہا کہ میں تصنیف و تالیف کی طرف آؤں گا۔ میں بعض چیزوں پر خاموشی اختیار کروں گا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ رواں سال اپنی شادی کی 25ویں سالگرہ منائیں گے۔ صدر براک اوباما نے کہا کہ فلسطین اور اسرائیل کی موجودہ صورت حال اسرائیل کے لئے خطرہ جبکہ فلسطینیوں کے لئے آزمائش اور مصیبت کی گھڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تنازع فلسطین کا حل اور دو الگ ریاستوں کی شکل میں نہیں ہوتا تو یہ بہت بڑی ناکامی ہوگی۔ صدر براک اوباما نے کہا کہ فلسطین، اسرائیل میں سے کسی ایک پر بھی قیام امن کے لئے طاقت کے استعمال کی راہ اختیار نہیں کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ڈونلڈ ٹرمپ سے کہا ہے کہ ان کی مشرق وسطٰی میں امن کے قیام بارے پالیسیاں مختلف ہیں۔ میں نے ٹرمپ کو بھی فلسطین، اسرائیل تنازع کے باب میں یک طرفہ اقدامات سے گریز کا مشورہ دیا ہے۔ وائٹ ہاؤس میں الوداعی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے براک اوباما نے کہا کہ یہ درست ہے کہ بعض اوقات ہم غصے اور مرضی کے مطابق کام نہ ہونے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہیں، مگر میں مطمئن اور پرامید ہوں کہ ہم سب بخیریت اپنے فرائض انجام دے کر ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ امریکہ میں برائی سے زیادہ اچھائی کا غلبہ ہے، اگر ہم محنت اور اخلاص سے کام کریں گے، جس پر آپ ایمان رکھتے ہیں تو پوری دنیا آپ کے لئے آہستہ آہستہ اچھی ہوتی جائے گی۔ سچ پوچھیں تو میں بھی اسی پر یقین رکھتا ہوں۔

ٹرمپ کا پہلا بیان: ایران اور کوریا کیخلاف دفاعی میزائل نظام بنانا چاہتے ہیں:

ٹرمپ انتظامیہ نے کہا ہے کہ وہ ایران اور شمالی کوریا کی جانب سے حملوں کے تحفظ کے لئے جدید طرز کا میزائل ڈیفنس سسٹم تیار کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ بات وائٹ ہاؤس کی ویب سائٹ پر شائع کئے جانے والے ایک پالیسی بیان میں کہی گئی ہے۔ وائٹ ہاؤس کی ویب سائٹ پر یہ بیان جمعے کے روز صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حلف اٹھانے کے چند ہی منٹوں کے بعد شائع کیا گیا۔ بیان میں میزائل ڈیفنس سسٹم کے متعلق یہ نہیں بتایا گیا کہ آیا نصب کیا جانے والا دفاعی نظام اسی طرح کا ہے جو اس وقت تیاری کے مراحل میں ہیں یا ان سے مختلف ہوگا۔ وہائٹ ہاؤس کے اس بیان میں دفاعی نظام کے بارے میں کسی طرح کی تفصل فراہم نہیں کی گئی اور نہ ہی یہ بتایا گیا کہ اس پر کتنی لاگت آئے گی۔ واضح رہے کہ وائٹ ہاؤس کے آئندہ کے پریس سیکرٹری، شان اسپائسر نے گذشتہ روز کہا تھا کہ ٹرمپ کا خطاب اُن چیلنجوں کی نشاندہی کرے گا، جو ہمیں درپیش ہیں، جس میں فلسفے کی نوعیت کا بیان ہوگا، آیا وہ قومی حکومت کو کس سطح تک اونچا لے جانا چاہتے ہیں۔ تاہم اِس میں قانونی ایجنڈا کا ذکر نہیں ہوگا، آئندہ چند روز کے دوران ٹرمپ انتظامی احکامات پر دستخط کریں گے، جن میں اصل تبدیلی پر مبنی ایجنڈا شامل ہوگا، جبکہ وہ اُن شعبہ جات سے متعلق نکات کو درج کر رہے ہیں کہ اُنھیں کس ترجیح کے ساتھ ضبط تحریر میں لایا جائے۔ عین ممکن ہے کہ ٹرمپ فوری طور پر سبک دوش ہونے والے صدر براک اوباما کے اقدامات کو الٹ دیں، جن سے وہ اتفاق نہیں کرتے۔

نئی انتظامیہ:

نومنتخب نائب صدر مائیک پینس نے کہا ہے کہ وہ اور ٹرمپ پہلے ہی روز امریکی عوام کی خدمت کے لئے تیار ہوں گے۔ اُنھوں نے عبوری دور کے دوران تعاون پر سبک دوش ہونے والے صدر براک اوباما اور نائب صدر جو بائیڈن کا شکریہ ادا کیا ہے۔ پینس نے کہا کہ جارجیا کے سابق گورنر، سونی پرڈو کی بطور وزیر زراعت نامزدگی کے بعد، کابینہ کے تمام 21 عہدوں کے لئے نامزدگی کی جا چکی ہے۔ جبکہ عبوری دور میں مدد کی فراہمی کے لئے مختلف سرکاری اداروں میں 536 اہل کار تعینات کئے جا چکے ہیں، جب نئی انتظامیہ پیر سے اپنا کام شروع کرے گی۔ اسپائسر نے کہا کہ اوباما کی حکومت سے وابستہ 50 اہل کاروں نے نئی انتظامیہ میں کام کی انجام دہی کے لئے رُکنے کے فیصلے سے اتفاق کیا ہے۔ منتخب نائب صدر نے کہا ہے کہ ٹرمپ نے پہلے دِن، 100 دِنوں اور 200 دِنوں کے لئے نتائج برآمد کرنے کے لئے ضروری بندوبست کیا گیا ہے۔ پینس نے کہا کہ نئی انتظامیہ کے کام میں دلچسپی بڑھی ہے، جبکہ عہدوں پر تقرری کے لئے کُل 86000 افراد نے درخواست دی تھی۔
خبر کا کوڈ : 602021
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش