0
Wednesday 1 Feb 2017 21:09

نئی امریکی حکومت شدت پسند ہے اور نئے قوانین کے ذریعے شدت پسندی کو مزید فروغ دے رہی ہے، امریکی سیاسی ماہر

نئی امریکی حکومت شدت پسند ہے اور نئے قوانین کے ذریعے شدت پسندی کو مزید فروغ دے رہی ہے، امریکی سیاسی ماہر
اسلام ٹائمز۔ معروف امریکی سیاسی ماہر اور تجزیہ کار ڈاکٹر جمیز پیٹراس نے فارس نیوز ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سات اسلامی ممالک کے شہریوں کو امریکی ویزا نہ دینے کا حکم صادر کئے جانے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ نئی امریکی حکومت شدت پسند ہے اور اپنے نئے قوانین کے ذریعے شدت پسندی اور نفرت کو مزید فروغ دے رہی ہے۔ یاد رہے نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عہدہ صدارت سنبھالنے کے چند دن بعد ہی ایک صدارتی حکم جاری کیا ہے جس کے تحت سات اسلامی ممالک یعنی عراق، ایران، شام، یمن، لیبیا، سوڈان اور صومالیہ کے شہریوں کو امریکی ویزا دینے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ ان کے اس اقدام کے خلاف امریکہ اور دنیا کے مختلف ممالک میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ ان کا یہ فیصلہ شدت پسندی اور نسلی تعصب پر مبنی قرار دیا جا رہا ہے۔

امریکہ اسلامی ممالک میں جاری ویران کن جنگوں کا حقیقی ذمہ دار ہے
پروفیسر جیمز پیٹراس نے مسلمانوں سے متعلق امریکی حکومت کی کلی پالیسیوں اور ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصی پالیسیوں کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا: "امریکی حکومت مسلمانوں کے خلاف متعدد جنگوں میں شریک رہی ہے جس کے نتیجے میں عراق، شام اور یمن جیسے اسلامی ممالک میں وسیع پیمانے پر تباہی و بربادی پیدا ہوئی ہے۔ دوسری طرف امریکی حکومت اور ڈونلڈ ٹرمپ مسلمانوں کے خلاف اپنے جنگی جرائم کا اعتراف کرنے کی بجائے خود مسلمانوں پر ہی شدت پسندی اور دہشت گردی کا الزام عائد کرتے آئے ہیں"۔ انہوں نے مزید کہا: "میری نظر میں ٹرمپ سوچتے ہیں کہ اسلامی ممالک میں امریکی حکومت کے شدت پسندانہ اقدامات کے باعث تمام مسلمان تمام امریکی عوام کے شدید دشمن بن چکے ہیں اور یہ انتہائی غلط سوچ ہے"۔

امریکی سیاسی ماہر ڈاکٹر جیمز پیٹراس نے امریکی حکومت کے اس فیصلے کے ممکنہ نتائج کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا: "مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اسلامی دنیا سے ٹکراو کی پالیسی اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے جس کے نتیجے میں خود امریکہ کے اندر ان کی شدید مخالفت شروع ہو گئی ہے۔ یہ فیصلہ ایسے شخص کی جانب سے اختیار کیا گیا ہے جو خود اور اس کی کابینہ کے تمام افراد اسلام کے دشمن ہیں اور شدت پسند افکار کے حامل ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹرمپ کی یہ پالیسی خود امریکہ میں ہی شدید مخالفت سے دوچار ہو گی"۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کے اس اقدام کے بعد امریکی کانگریس میں بھی دو دھڑے بن گئے ہیں اور ڈیموکریٹس مہاجرین سے امتیازی رویئے کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

امریکہ سراپا احتجاج بن چکا ہے
ڈاکٹر جیمز پیٹراس نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مسلمان مہاجرین کے خلاف جاری شدہ حالیہ صدارتی حکم عملی جامہ نہیں پہن سکے گا کیونکہ ابھی سے ہی امریکہ کے بڑے بڑے شہروں میں اس کے خلاف وسیع پیمانے پر احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔ انہوں نے ان احتجاجی مظاہروں کو بے سابقہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے ابھی تک اتنے بڑے پیمانے پر احتجاج کا مشاہدہ نہیں کیا تھا۔ انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے اس صدارتی حکم کو ملک کیلئے بڑی مشکل قرار دیا اور کہا کہ امریکی کانگریس میں اس کے حامیوں کی تعداد بہت کم ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس حکم کا عملی طور پر لاگو کیا جانا ممکن نہیں۔

جیمز پیٹراس نے عالمی سطح، اسلامی دنیا اور ایران میں امریکی صدر کے اس اقدام کے ممکنہ اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے کہا: "اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ اقدام اسلامی ممالک سمیت دنیا بھر میں امریکہ کے خلاف نفرت کا باعث بنے گا۔ جب امریکہ نے ایرانی شہریوں کے خلاف ایسا اقدام انجام دیا ہے تو یقینا ایران بھی امریکہ کے خلاف مشابہہ قدم اٹھائے گا۔ جرمنی اور برطانیہ سمیت تمام یورپی ممالک نے ٹرمپ کے اس فیصلے کی مذمت کی ہے۔ کینیڈا کی حکومت نے بھی امریکی صدر کے اس حکم کی کھلی مخالفت کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وہ تمام مسلمان مہاجرین کو اپنے ملک آنے کی اجازت دیتی ہے۔ سب اس اقدام کے مخالف ہیں"۔ امریکی سیاسی ماہر نے کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ یہ خیال کر رہے ہیں کہ ان کا یہ اقدام شدت پسندی میں کمی لائے گا لیکن دراصل اس کا الٹا نتیجہ نکلے گا اور دنیا میں شدت پسندی اور دشمنی کم ہونے کی بجائے مزید بڑھے گی۔

ڈونلڈ ٹرمپ دہشت گردی کے اصلی حامی سعودی عرب سے دوستی کی پینگیں بڑھا رہے ہیں
پروفیسر جیمز پیٹراس نے اس سوال کے جواب میں کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے مہاجرین پر پابندی لگانے میں دوغلے معیاروں کی پیروی کی ہے اور سعودی عرب کے شہریوں پر پابندی نہیں لگائی جبکہ نائن الیون حادثے میں ملوث دہشت گردوں کی اکثریت سعودی شہریت کے حامل تھے، کہا: "بعض مسلم ممالک کے شہریوں کو ویزا دینے پر پابندی پر مبنی امریکی پالیسی تعصب آمیز ہے کیونکہ سعودی عرب کا نام اس لسٹ میں نہیں جبکہ یہ ایسا ملک ہے جو تمام مسلمانوں کا دشمن ہے اور ہمیشہ سے داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کی مالی اور سیاسی مدد کرتا آیا ہے"۔ انہوں نے مزید کہا: "میری نظر میں ڈونلڈ ٹرمپ کا دوغلا پن اور منافقت یہیں سے ظاہر ہو جاتی ہے کہ اس نے ایران کا نام اس لسٹ میں شامل کیا ہے لیکن سعودی عرب کا نام اس میں شامل نہیں کیا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب پورے مشرق وسطی اور دنیا کے دیگر حصوں میں سرگرم دہشت گرد گروہوں کا حامی ہے"۔

امریکی سیاسی ماہر جیمز پیٹراس نے کہا کہ سعودی عرب سے امریکہ کے مفادات وابستہ ہیں جن کی وجہ سے امریکی حکومت سعودی رژیم کی جانب سے دہشت گردوں کو کی جانے والی مدد پر آنکھیں بند کئے ہوئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ خام تیل کی تجارت، سعودی عرب کے خام تیل کی صنعت میں امریکی سرمایہ کاری اور دیگر مفادات کی خاطر امریکہ سعودی عرب کی دہشت گردانہ پالیسیوں سے چشم پوشی کر رہا ہے۔ لہذا امریکی حکومت اس بارے میں شدید دوغلے پن اور منافقت کا شکار ہے اور ایسے ملک سے دوستی بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے جس نے اب تک سب سے زیادہ دہشت گردی کی حمایت کی ہے۔
خبر کا کوڈ : 605635
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش