0
Friday 20 May 2011 12:10

امریکا کو عرب پالیسی تبدیل کرنا ہو گی،67ء کی سرحدی پوزیشن کے تحت فلسطینی ریاست قائم کی جائے، صدر اوباما

امریکا کو عرب پالیسی تبدیل کرنا ہو گی،67ء کی سرحدی پوزیشن کے تحت فلسطینی ریاست قائم کی جائے، صدر اوباما
واشنگٹن:اسلام ٹائمز۔ امریکی صدر بارک اوباما مشرق وسطٰی کیلئے امریکا کی پالیسی میں تبدیلی لانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کو اپنی عرب پالیسی تبدیل کرنا ہو گی، تیونس سے شروع ہونے والے انقلاب کے بعد ثابت ہو گیا کہ اب زبردستی کی حکومتیں نہیں چل سکتیں، 1967ء کی سرحدی پوزیشن کے تحت آزاد فلسطینی ریاست قائم کی جائے، شامی اور ایرانی رہنما انتقال اقتدار کی حمایت کریں، یمن اور بحرین میں حکومت اپوزیشن سے مذاکرات کریں، شامی صدر بشار الاسد سیاسی اصلاحات کریں یا پھر جمہوریت کیلئے راستہ چھوڑ دیں، معمر قذافی کو لیبیا چھوڑنا ہو گا، امریکی کمانڈوز نے اسامہ کیخلاف کاروائی کر کے القاعدہ تنظیم کو زبردست دھچکا پہنچایا ، وہ شہید نہیں ہلاک ہوا، اسامہ ایک قاتل تھا جس کا پیغام نفرت تھا۔ اس نے جمہوریت کو رد کر کے انسانی حقوق کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا، افغانستان سے جولائی میں انخلا شروع کر دیں گے، افغان طالبان کا اثر و رسوخ کم کر دیا گیا ہے۔ 
ادھر اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نتن یاہو نے امریکی صدر بارک اوباما کی تقریر مسترد کر دی۔ جبکہ فلسطینی صدر محمود عباس نے تمام رہنماوٴں کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا ہے۔ جمعرات کو محکمہ خارجہ میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے صدر بارک اوباما نے کہا کہ مشرق وسطٰی کے انقلاب کی کہانی نئی نہیں گزشتہ چھ ماہ سے مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ میں تبدیلیوں کا سلسلہ جاری ہے، مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ میں عوامی رائے کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ میں طاقت کا توازن چند ہاتھوں میں ہے۔ صدر اوباما نے کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں عدم تشدد کی بنیاد پر جمہوریت، ترقی، آزادی اظہار اور سیاسی اور معاشی تبدیلی کے حصول کے لیے ایک انقلابی لہر پر ہے جس کا سہرا اْن ممالک کے لوگوں کے سر ہے اِس حوالے سے صدر نے تیونس اور مصر میں کامیاب تبدیلی کا ذکر کیا اور کہا کہ معاشی اور سیاسی حالات کی بنا پر لوگ اکٹھے ہونے پر مجبور ہوئے اور پرامن احتجاجی مظاہروں میں شرکت کی اور کر رہے ہیں۔ 
انہوں نے کہا کہ امریکہ تشدد کے استعمال کی مخالفت کرتا ہے، جب کہ وہ آزادی اظہار اور آزادی مذہب ،پرامن سیاسی اور معاشی تبدیلی کی حمایت کرتا ہے۔ صدر نے کہا کہ حالات جوں کا توں رہنا کوئی آپشن نہیں رہا، انقلاب کے حق میں آئی ہوئی لہر ہوا کا ایک تازہ جھونکا ہے۔ صدر اوباما نے کہا کہ عدم تشدد کا مظاہرہ کرتے ہوئے جزیرہ نما عرب میں اِس سطح کی تبدیلی کا حصول کوئی معمولی کامیابی نہیں ہے۔ غربت، بے روزگاری، تعلیم کے کم مواقع وہ دیگر عوامل ہیں جو اِن مظاہروں کے پیچھے کارفرما ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عرب ممالک میں نئی نسل تبدیلی کے نعرے لگار ہی ہے، عرب انقلاب سے ظاہر ہوتا ہے کہ طاقت کا استعمال دیرپا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ لیبیا کو بڑے پیمانے پر تشدد کا سامنا ہے۔ صدر معمر قذافی نے اپنے عوام کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا ہے، لیبیا میں امریکہ اور نیٹو کی کاروائی کی ضرورت ہے۔ قذافی کو لیبیا چھوڑنا ہو گا، امریکہ تشدد کو ہرگز برداشت نہیں کرسکتا۔ 
امریکی صدر نے کہا کہ مشرق وسطٰی کیلئے امریکی پالیسی میں تبدیلی ناگزیر ہے، مشرق وسطٰی میں تجارت اور سرمایہ کاری کی جائے گی۔ امریکی صدر نے کہا کہ امریکہ مذہب اور اظہار رائے کی حمایت کرتا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں خواتین کو مردوں کے مساوی حقوق ملنے چاہئیں۔ ہم نے عراق سے سیکھا ہے کہ کسی ملک میں قیادت بدلنا کتنا مشکل ہے۔؟ انہوں نے کہا کہ اسرائیل فلسطین اپنے مسئلے کا خود حل نکالیں امریکہ یا کوئی اور ملک ان کی مدد نہیں کرسکتا، اسرائیل کو تسلیم کئے بغیر فلسطین امن حاصل نہیں کرسکتا۔ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان بحالی امن کی ضرورت پہلے سے زیادہ ہے۔ صدر اوباما نے الزام لگایا کہ ایران میں خواتین اور مردوں پر ظلم کیا جاتا ہے، ایرانی عوام کے حقوق کیلئے آواز بلند کرتے رہیں گے۔ شام کے عوام نے بھی اصلاحات کیلئے آواز بلند کر رکھی ہے، صدربشارالاسد اپنے لوگوں کے خلاف ایران سے مدد لے رہے ہیں، بحرین میں ایران کی مداخلت  ناقابل قبول ہے۔ مشرق وسطٰی میں ایٹمی دوڑ سے کسی کو فائدہ نہیں۔
محکمہ خارجہ واشنگٹن میں امریکی اور غیرملکی سفارتکاروں سے خطاب میں صدر اوباما نے کہا مستقبل کی فلسطینی ریاست انیس سو سڑسٹھ کی سرحدوں کے مطابق ہونی چاہیئے۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ الفتح اور حماس کے درمیان معاہدہ اسرائیل کیلئے بڑا سوال ہے۔ براک اوباما نے واضح کیا کہ اسرائیل کو اقوام متحدہ میں تنہا کرنے کی کوشش کی صورت میں آزاد فلسطینی ریاست نہیں بن سکتی۔ ادھر اسرائیل نے انیس سو سڑسٹھ کی پوزیشن پر سرحدوں سے متعلق صدر اوباما کی تجویز مسترد کر دی ہے۔ حماس کا کہنا ہے نعروں کے بجائے صدر اوباما فلسطینیوں اور عرب عوام کے حقوق کیلئے عملی اقدامات کریں۔ دوسری جانب عرب ملکوں میں امریکی صدر براک اوباما کے خطاب کو بیان بازی قرار دیا گیا ہے۔ مصری عوام کا کہنا ہے براک اوباما خطے میں امن اور آزاد فلسطینی ریاست کیلئے اسرائیل پر دباوٴ ڈالے۔
خبر کا کوڈ : 73151
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش