0
Saturday 27 Oct 2018 10:18

حکومتی بےتوجہی، وائلنس اگینسٹ وومن سینٹر بند ہونےکے قریب

حکومتی بےتوجہی، وائلنس اگینسٹ وومن سینٹر بند ہونےکے قریب
اسلام ٹائمز۔ پاکستان میں خواتین پر تشددکے خلاف ان کی معاونت کے لئے قائم واحد ادارہ "وائلنس اگینسٹ وومن سینٹر ملتان" حکومت کی بے توجہی کے باعث بند ہونےکے قریب ہے۔ اس ادارے کے بند ہونے سے ملتان میں متاثرہ خواتین کا واحد سہارا ختم ہونے کے ساتھ خواتین پر تشدد کے واقعات میں اضافے کا خدشہ ہے۔ ذرائع کے مطابق ادارے کے ملازمین کو جولائی میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد سے تنخواہیں نہیں دی گئیں، جب کہ عمارت کے بجلی اور فون کے بل بھی ادا نہیں کئے گئے۔ ادارے کے ایک سینئر اہلکار نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ ہمارے فون بل کی ادائیگی نہ ہونے سے منقطع کر دیئے گئے ہیں اور اگر بجلی کی فراہمی بھی معطل کر دی گئی تو ہمیں مجبورا کام بند کرنا پڑے گا۔ اہلکار کا کہنا تھا کہ فنڈ جاری نہ ہونے کے باوجود سینٹر کے ملازمین متاثرہ خواتین کو قانونی معاونت، رہائش اور رہنمائی فراہم کر رہے ہیں۔
 
حاصل شدہ معلومات کے مطابق گذشتہ سات ماہ کے دوران ادارے نے 2588 کیسز میں مدد فراہم کی، جس میں 1600 گھریلو تشدد کے واقعات، 234 ہراساں کرنے، 65 زناء بالجبر اور 147 جان سے مارنے کی دھمکیوں کے کیسز تھے۔ اکتوبر 2017ء میں پنجاب وومن پروٹیکشن اتھارٹی ایکٹ کے تحت قائم کئے جانے والے سینٹر کا مقصد تشدد کا شکار خواتین کو ہفتے کے ساتوں دن اور 24 گھنٹے مدد فراہم کرنا ہے۔ خاص طور پر یہ ادارہ گھریلو مار پیٹ، زناء بالجبر اور جنسی تشدد کی ماری خواتین کو مدد فراہم کرتا ہے۔ دوسرے مرحلے میں لاہور، فیصل آباد اور راولپنڈی میں بھی اسی نوعیت کے سینٹرز کے قیام کا منصوبہ تھا۔ ملک میں صنف کی بنیاد پر ہونے والے تشدد کے واقعات سے نمٹنے کے لئے جدوجہد جاری ہے۔ لاہور میں قائم پاکستان انسانی حقوق کمیشن کے مطابق گذشتہ سال پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کی 100 سے زائد وارداتیں رپورٹ ہوئیں، جبکہ جنسی زیادتی کے 344 اور گھریلو بدسلوکی کے 53 واقعات رپورٹ ہوئے۔

سینٹر کے بقایا جات میں 55 ملازمین اور 15وکلاء کی چار ماہ کی تنخواہ کے علاوہ بجلی اور فون کے بلز ہیں جن کی مجموعی مالیت تقریباً 78 لاکھ روپے بنتی ہے لیکن ابھی تک ادارے میں کام کرنے والے افراد خواتین کو بلا تعطل ہر ممکن معاونت فراہم کر رہے ہیں جس کا مطلب ہے کہ وہ چار ماہ سے بغیر تنخواہ اپنے فرائض پوری تندہی سے انجام دے رہے ہیں۔ تاہم ملازمین کا کہنا ہے کہ حالات میں بہتری نہیں آئی تو اس کا خمیازہ تشدد کی ماری خواتین کو بھگتنا ہو گا۔ سینٹر کے ایک اہلکار نے کہا کہ ہم اب اس قابل نہیں رہےکہ جیسی سہولیات ہم ماضی میں فراہم کر رہے تھے اسے جاری رکھ سکیں۔ وکلاء کو بھی چار ماہ سے تنخواہیں نہیں ملیں جس کی وجہ سے ہم متاثرہ خواتین کی جانب سے دائر مقدمات کی عدالت میں پیروی جاری رکھ سکیں۔ اس سلسلے میں جب میڈیا نے صوبائی وزیر اطلاعات اور حکومتی ترجمان فیاض الحسن چوہان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ تاہم جیسے ہی صوبائی حکومت اپنا موقف دے گی اسے شائع کر دیا جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 758018
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش