0
Friday 28 Jun 2019 15:31

فلسطینیوں کی "آتشیں پتنگیں اور غبارے" اسرائیل کیلئے "جلا دینے والا دردِسر" بن گیا، اسرائیلی میڈیا

فلسطینیوں کی "آتشیں پتنگیں اور غبارے" اسرائیل کیلئے "جلا دینے والا دردِسر" بن گیا، اسرائیلی میڈیا
اسلام ٹائمز۔ جمعرات کے روز اسرائیلی میڈیا نے اعلان کیا کہ غزہ کے اردگرد تعمیر کردہ یہودی بستیوں میں ایک مرتبہ پھر کئی ایک مقامات پر آگ بھڑک اٹھی، جس کی وجہ فلسطینی "آتشگیں پتنگیں" ہیں۔ اسی طرح گذشتہ سال اگست 2018ء میں اسرائیلی میڈیا نے اعلان کیا تھا کہ فلسطینی جوانوں کی طرف سے بھیجی گئی "آتشگیں پتنگوں" اور "آتشگیں غباروں" کی وجہ سے 30 کروڑ شِکِل (اسرائیلی کرنسی) کے لگ بھگ نقصان ہوا ہے، جو تقریباً 84 لاکھ 61 ہزار ڈالرز کے برابر ہے۔ ان اعداد و شمار کی عظمت کا اندازہ تب لگایا جا سکتا ہے، جب ان کا پورے سال میں ہونے والے طبیعی نقصانات کے ساتھ موازنہ کیا جائے۔ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل میں شدید سردی، بارش اور طوفان وغیرہ سے ہر سال تقریباً 15 کروڑ 50 لاکھ شِکِل کا نقصان پہنچتا ہے، یعنی فلسطینی نوجوانوں کی گرائی گئی آتشگیں پتنگوں اور غباروں کے نقصان سے غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کو پہنچنے والے نقصان کا تقریباً آدھا۔

ایک ای نیوز پیپر "انڈیپنڈنٹ عربی" نے اس حوالے سے لکھا ہے کہ آتشگیں پتنگیں اور غبارے غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے خلاف فلسطینی عوامی ہتھیاروں میں سے ایک ہیں، جن کے ساتھ مقابلے کا طریقہ کار ڈھونڈنے کے لئے اسرائیل انتہائی سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر کر رہا ہے، کیونکہ یہ سیدھے سادے عوامی فلسطینی ہتھیار غزہ کی پٹی کے ساتھ ساتھ واقع غاصب اسرائیلی بستیوں کو وسیع پیمانے پر اقتصادی اور سیاحتی میدانوں میں نقصان پہنچا چکے اور پہنچا رہے ہیں۔ یہ اخبار مزید لکھتا ہے کہ آتشیں غباروں کا خیال شروع میں آتشیں پتنگوں سے حاصل ہوا، جب فلسطینی نوجوانوں نے سادہ سی پتنگیں بنا کر ان کے ساتھ آتشیں فیتے لگائے اور انہیں اڑانے کے بعد غاصب یہودیوں کی بستیوں کی طرف چھوڑ دیا۔

پھر ایک عرصے کے بعد فلسطینی نوجوانوں نے ان پتنگوں کے بجائے سادہ غباروں کو استعمال کرنا شروع کیا۔ آغاز میں تو غاصب یہودی بستیوں پر ان غباروں کے پھینکنے کا عمل نامنظم تھا جبکہ ان غباروں پر ماحولیاتی اثرات وغیرہ کو زیادہ جانچا نہیں جاتا، لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد فلسطینی نوجوانوں نے اپنے اس کام کو منظم کر لیا اور حتی علاقے کی آب و ہوا، آتشیں پتنگ یا غبارے کے گرنے کے مقام اور آگ لگنے کے مقصد کو بھی مدنظر رکھنا شروع کر دیا اور یوں انہوں نے حساب لگایا کہ کس وقت اور کس زاویے پر آتشیں پتنگ یا غبارے کو چھوڑا جائے تو وہ اپنے ہدف پر جا گرے اور زیادہ سے زیادہ نقصاندہ ثابت ہو۔ دوسری طرف غاصب اسرائیلی بھی اس سادہ سے اسلحے کے سنگین اثرات کا بارہا اعتراف کرچکے ہیں جبکہ اسرائیلی فوجی اوزار بنانے والے ادارے کو بھی سفارش دی گئی ہے کہ ایک ایسا اسلحہ بنائے جو ان آتشیں غباروں جیسے اڑنے والے اجسام کا مقابلہ کرسکے۔

غاصب اسرائیل کی معروف اسلحہ ساز کمپنی "رافائل" نے بھی اس سلسلے میں ایک ایسی "لیزر والی توپ" پر بہت سے تجربات انجام دیئے ہیں، جس کو ڈرونز اور دوسری اڑنے والی اشیاء کے خلاف استعمال کیا جا سکے۔ غاصب صیہونی بستی نشین اس جدید اسلحے کے ذریعے فلسطینی نوجوانوں کی طرف سے گرائے گئے آتشیں غباروں اور پتنگوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں، کیونکہ کہا یہ جا رہا ہے کہ یہ اسلحہ اڑنے والی اشیاء کو 3 کلومیٹر کے فاصلے پر ہوا میں جلا کر ختم کر دینے کی صلاحیت رکھتا ہے، لیکن کئی ایک وجوہات کی بناء پر غاصب اسرائیلیوں کا یہ جدید ترین اسلحہ بھی فلسطینی نوجوانوں کی سیدھی سادی آتشیں پتنگوں کے سامنے بیکار ہے۔

فلسطینی سکیورٹی کے ماہر "یوسف الشرقاوی" کا کہنا ہے کہ غاصب اسرائیلیوں کا لیزر والا جدید ترین اسلحہ بھی فلسطینی نوجوانوں کی طرف سے گرائی جانے والی سادہ سی آتشیں پتنگوں اور غباروں کا مقابلہ نہیں کرسکتا، کیونکہ ان آتشیں پتنگوں اور غباروں میں کوئی جدید ٹیکنالوجی استعمال نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ کسی قسم کے دھاتی پرزوں یا الیکٹرانک ڈیوائسز پر مشتمل ہوتے ہیں۔ یوسف الشرقاوی نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ فلسطینی نوجوانوں کی طرف سے گرائی جانے والی یہ آتشیں پتنگیں اور غبارے انتہائی ابتدائی ساخت کے حامل ہوتے ہیں، جن کی نشاندہی کرنے سے انتہائی جدید ٹیکنالوجی پر مشتمل سکیورٹی سسٹمز بھی عاجز ہیں۔ گو کہ اسرائیلیوں نے کئی ایک مرتبہ اپنے لیزر والے اسلحے بھی استعمال کئے ہیں، لیکن پھر بھی وہ ان آتشیں پتنگوں اور غباروں کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔


اسی طرح ایک فلسطینی فوجی امور کے ماہر بریگیڈیر خضر عباس غاصب اسرائیلیوں کے لیزر والے اسلحے کے بےتحاشہ خرچے کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ تل ابیب کے پاس غزہ کے راکٹس کا مقابلہ کرنے کے لئے تین قسم کا اسلحہ موجود ہے، جن کے اخراجات بھی جدا جدا ہیں۔ ان میں کم رینج والے راکٹس کے لئے "آئرن ڈوم"، زیادہ رینج والے راکٹس کے لئے "فلاخن داؤد" اور ان دونوں کے علاوہ لیزر والا اسلحہ شامل ہے، جس نے آج تک اسرائیلیوں کو کسی شے سے نہیں بچایا۔ دوسری طرف ہر مرتبہ لیزر والے اس اسلحے کو چلانے کا خرچ تقریباً 1000 ڈالر کے قریب ہے، وہ بھی تب جب اس کے ذریعے کسی آتشیں غبارے کو گرانا ہو، جو کسی قسم کا اسلحہ بھی شمار نہیں کیا جاتا۔ یہ آتشیں پتنگیں اور غبارے عوامی قسم کی چیزیں ہیں، جنہیں فوجی اعتبار سے کوئی توجہ بھی نہیں دی جاتی اور نہ ہی فلسطینی نوجوانوں کے لئے انہیں بنانے پر کوئی خاص لاگت آتی ہے۔


اسی طرح "دویچہ ولہ عربی" نامی ایک ویب سائٹ نے 2018ء میں "آتشیں غبارے؛ اسرائیل کے خلاف غزہ کے کمزور لوگوں کا (طاقتور) اسلحہ" کے عنوان سے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا تھا کہ کئی ایک مہینوں سے غزہ میں موجود فلسطینیوں نے اسرائیل پر آتشیں غبارے اور پتنگیں گرانا شروع کر رکھی ہیں،جنہوں نے تاحال اسرائیل کو بھاری مالی نقصان پہنچایا ہے، جبکہ تل ابیب کے سیاست دان اور اسرائیلی فوجی اس مشکل میں پھنسے ہوئے ہیں کہ وہ فلسطینی نوجوانوں کے اس اقدام کا مقابلہ کیسے کریں۔ ویب سائٹ "دویچہ ولہ عربی" مغربی کنارے کی اخبار "القدس" سے نقل کرتے ہوئے لکھتی ہے کہ فلسطینی اپنے اس کام کو ایک موثر اقدام اور کامیاب حکمت عملی قرار دیتے ہیں، جبکہ اس اقدام کو موخر کرنے کا آسان ترین حل یہی ہے کہ فلسطینی عوام کو ان کے حقوق دے دیئے جائیں۔ فلسطینی عوام کا سب سے بڑا حق ان کے بےگھر لوگوں کی اپنی سرزمینوں پر واپسی، اپنے سرانجام کے بارے اپنا حق خود ارادیت استعمال کرنا اور قدس کو دارالحکومت قرار دے کر اپنی آزاد حکومت قائم کرنا ہے۔

واضح رہے کہ فلسطین میں ایک عرصے سے مسلسل منعقد ہونے والے "اپنی سرزمینوں پر واپسی" نامی عظیم احتجاجات کے دوران بھی غاصب صیہونی ریاست اسرائیل پر بڑی مقدار میں آتشیں پتنگیں اور غبارے گرائے جاتے تھے، حتی ان احتجاجات کے شروع کے تین مہینوں یعنی اپریل، مئی اور جون 2018ء میں غاصب صیہونی ریاست اسرائیل پر گرائی گئی آتشیں پتنگوں اور غباروں نے اپنی سادگی کے برخلاف غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کو شدید مشکلات میں گرفتار کر دیا تھا۔ ایک عرصے کے بعد اسرائیلی وزارتِ جنگ نے اپنے ایک تخمینے کا اعلان کیا تھا، جس کے مطابق غزہ کی پٹی سے کم از کم 600 آتشیں پتنگیں اور غبارے اسرائیل پر پھینکے گئے، جن میں سے بمشکل آدھی پتنگوں اور غباروں کو ہی اسرائیلی فورسز اپنے ہدف سے دور گرانے میں کامیاب ہوسکیں۔

اسی طرح اسرائیلی اخبار "اسرائیل ٹائمز" نے بھی 2018ء میں یہ رپورٹ پیش کی تھی کہ آتشیں پتنگوں کے چند ہفتے بعد ہی فلسطینی نوجوانوں نے ان کی جگہ ہیلیم گیس سے بھرے غبارے استعمال کرنا شروع کر دیئے ہیں۔ یہ اخبار آتشیں پتنگوں اور غباروں کو "کاغذ کے بنے اڑنے والے دہشتگردی کے آلات" کے نام سے یاد کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ کاغذ کے بنے اڑنے والے دہشتگردی کے ان آلات کی نقصان پہنچانے کی صلاحیت انتہائی زیادہ ہے۔


اسرائیل ٹائمز لکھتا ہے کہ گو کہ اسرائیل "جلا دینے والے اس دردِسر" کا مقابلہ اب ڈرون طیاروں سے کرنے کی کوشش میں ہے، لیکن جیسا کہ پہلے آتشیں پتنگوں کو روکنے میں بری طرح ناکام رہا ہے، اسی طرح اب ان آتشیں غباروں کو روکنے میں بھی کامیاب نہیں ہوسکے گا۔
خبر کا کوڈ : 802013
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش