0
Wednesday 18 Dec 2019 10:14

بورس جانسن کی کامیابی کے بعد مسلمانوں کی برطانیہ چھوڑنے کی تیاریاں

بورس جانسن کی کامیابی کے بعد مسلمانوں کی برطانیہ چھوڑنے کی تیاریاں
اسلام ٹائمز۔ برطانیہ میں ایک مرتبہ پھر بورس جانسن کے اقتدار میں آنے کے بعد برطانیہ میں مقیم مسلمان اس ملک کو چھوڑنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ بورس جانسن کی جماعت کنزرویٹو پارٹی کی جانب سے انتخابات میں کامیابی کے بعد نسل پرست لوگوں کی جانب سے طعنہ بازی میں اضافہ ہو گیا ہے اور دائیں بازو کے کارکنان جو اپنا تعلق جانسن کی جماعت سے بتاتے ہیں، اب مسلمانوں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ برطانیہ کو چھوڑ دیں یا پھر نتائج بھگتنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ ایک مقامی اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برطانیہ چھوڑنے کی تیاری کرنے والوں میں منظور علی نامی ایک سماجی کارکن بھی ہیں جو مانچسٹر میں غریب لوگوں کو مفت کھانا کھلاتے ہیں، جو کہتے ہیں کہ انہیں اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر ہے۔ منظور علی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’میں اپنی حفاظت کی وجہ سے خوف زدہ ہوں، میں اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے بھی پریشان ہوں۔‘

نسل پرستی کا خوف اس وقت مزید پروان چڑھا جب بورس جانسن کی کامیابی کے بعد کچھ لوگوں کو آن لائن یہ دھکمیاں ملیں کہ وہ برطانیہ چھوڑ دیں۔ جنہیں ان دھمکیوں کا نشانہ بنایا گیا وہ برطانیہ میں موجود تارکین وطن کے پس منظر سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات ہیں۔

برطانوی وزیراعظم بورس جانسن پر مسلمانوں کے خلاف متنازع بیانات پر ان پر ہمیشہ اسلامو فوبیا اور نسل پرستی کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔ بورس جانسن نے کہا تھا کہ اسلام سے خوفزدہ ہونا لوگوں کے لیے فطری ہے۔ ایک مرتبہ اپنے کالم میں انہوں نے باحجاب مسلمان خواتین کو ڈاک خانہ کہہ ڈالا جبکہ ایک اور مضمون میں انہوں نے اسلام کی تضحیک کی تھی۔

مقامی میڈیا نے 38 سالہ ایڈن نامی خاتون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ بھی انتخابات کے نتائج کے بعد اپنی حفاظت سے متعلق خوفزدہ ہیں۔ ان پر کچھ نسل پرستوں کی جانب سے تشدد کیا گیا تھا، ان کا اسکارف بھی اتار دیا گیا تھا جبکہ انہیں ’دہشت گرد‘ تک کہہ دیا گیا تھا۔ انہیں خدشہ ہے کہ یہ انتخابی نتائج نسل پرستوں اور اسلام مخالفین کی حوصلہ افزائی کرے گا۔ وہ کہتی ہیں کہ اب وہ برطانیہ کے باہر روزگار کی تلاش کے لیے متحرک ہو گئی ہیں۔
خبر کا کوڈ : 833404
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش