0
Wednesday 18 Dec 2019 15:00

قم، طلاب ہندوستان کیجانب متنازعہ ترمیمی بل کیخلاف ہونیوالے احتجاج میں پیش کیا گیا میمورنڈم

قم، طلاب ہندوستان کیجانب متنازعہ ترمیمی بل کیخلاف ہونیوالے احتجاج میں پیش کیا گیا میمورنڈم
رپورٹ: سید نجیب الحسن زیدی

طلاب ہندوستان کی جانب سے متنازعہ ترمیمی بل کے خلاف ہونے والے احتجاج میں پیش کیا گیا میمورنڈم۔
1۔ ہم ہندوستان کے مختلف علاقوں اور مختلف صوبوں سے تعلق رکھنے والے طلاب آج اس لئے جمع ہوئے ہیں کہ وطن عزیز سے محبت کرتے ہیں، اس کے آئین سے ہمیں پیار ہے، اس کی مٹی میں ہمارے بزرگوں کی یادیں وابستہ ہیں، ہم اس سرزمین پر پھلے پھولے اور اسی کی خاک میں سو جائیں گے۔ ہم رہیں نہ رہیں، یہ ملک رہے گا  اور ہمیشہ گنگا جمنی تہذیب سے پہچانا جائے گا۔ افسوس کہ کچھ خاص نظریہ کے حامل افراد مسلسل ملک کی سالمیت کے خلاف سازشیں رچا رہے ہیں اور اس ملک کو ٹکڑے ٹکرے کر دینے کے در پے ہیں، جس کی بقا و سالمیت کے لئے ہمارے بزرگ  پھانسی کے پھندوں میں جھول گئے، لیکن انہوں نے غیروں کی غلامی کو قبول نہیں کیا۔ افسوس آج حالات ایسے ہوگئے ہیں کہ ایک غلامانہ سوچ سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بعد ملک ایک دوسرے طرز کی غلامانہ سوچ کو اختیار کرتا جا رہا ہے  اور واضح طور پر کہا جا رہا ہے کہ جب اسرائیل  اپنے تحفظ کے لئے جو کچھ ضروری ہے، انجام دے سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں، کیا یہ غلامانہ سوچ نہیں ہے۔ ان حالات میں ہم  تمام محبان وطن خاص طور پر ملک کے تمام مستضعفین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے ان تمام افراد کی شدید مذمت کرتے ہیں، جو ملک کو ہوس اقتدار کی آگ میں جلا کر تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ اللہ اکبر

2۔ ہم طلاب ہندوستانی وزیر داخلہ کی جانب سے پیش کئے گئے شہریت کے ترمیمی بل کو ہندوستان کے آئین کی دفعہ  14 اور 15 کے خلاف سمجھتے ہوئے اس قانون کی سخت مذمت کرتے ہیں، جو ہمارے آئین کی روح کی پامالی کا سبب ہے۔ اللہ اکبر
3۔ شہریت کا حالیہ ترمیمی بل نہ صرف واضح طور پر بنیادی آئین کی اس شق کے خلاف ہے، جس میں صراحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ ملک میں کسی بھی شہری کے ساتھ رنگ و نسل اور مذہب کی بنیاد پر کسی طرح کی تفریق نہیں کی جائے گی اور ہر شہری کے ساتھ یکساں سلوک ہوگا جبکہ اس بل کی بنیاد ہی مذہب کے اوپر ہے، لہذا ہم اس بل کی مخالفت اپنا آئینی اور انسانی حق جانتے ہوئے صاحبان اقتدار سے اسے منسوخ  کرنے کی پرزور مانگ کرتے ہیں۔ اللہ اکبر
4۔ ہندوستان کے آئین کی دفعہ 13 میں یہ بات واضح طور پر موجود ہے کہ کہ اگر کوئی قانون بنیادی حقوق سے ٹکراتا ہے تو اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی، یعنی اگر آئین میں کسی طرح کی ترمیم ہوتی ہے یا قانون سازی کی جاتی ہے اور وہ بنیادی حقوق سے متصادم ہوتا ہے تو اس کو تسلیم نہیں کیا جائے گا، جبکہ شہریت ترمیمی بل شہریوں کے بنیادی حقوق پر بھی کاری ضرب لگاتا ہے، اس لحاظ سے یہ قابل قبول نہیں ہے۔

5۔ ہم ہندوستان کے درجہ اول کے شہری صدر جمہویہ مملکت سے درخواست کرتے ہیں کہ جس بل پر انہوں نے دستخط کئے ہیں، وہ ہمیشہ کے لئے تاریخ میں محفوظ ہو جائے گا، اس کے بنیادی آئین کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ مہاتما گاندھی اور امبیڈکر صاحب کے ترسیم کردہ ملکی خطوط کے برخلاف ہونے کے باوجود ہندوستان جیسی عظیم جمہوریت کے صدر کی جانب سے اسے منظوری کا دیا جانا تاریخ کا حصہ بن جائے گا، لہذا وہ خود ذاتی طور پر ملک میں اس بل کے بعد پائی جانے والی بے چینی کو دیکھتے ہوئے اس پر نظرثانی کریں اور اس ملک کو پھر انہیں گاندھی جی کے اصولوں کے دھارے پر گامزن کر دیں، جن پر چل کر دنیا میں اس ملک کو ایک منفرد مقام حاصل ہوا ہے۔ اللہ اکبر
6۔ ہندوستانی عدلیہ سے ہمارا پر زور مطالبہ ہے کہ بنیادی دستور العمل کے خلاف ہونے کی بنیاد پر اس بل پر فوری طور پر روک لگائے، تاکہ ہندوستان کی عدلیہ کی مستقل ساکھ پر کوئی حرف نہ آئے۔

7۔ ہندوستان کی عدلیہ سے ہماری درخواست ہے کہ شہریت بل کی مخالفت میں ہر کھلنے والے زبان کو تحفظ فراہم کیا جائے، اسلئے کہ جو بھی اس کے خلاف بول رہا ہے، وہ اس کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے نہیں بول رہا ہے، بلکہ اس کے آئین ہند کے خلاف ہونے کی بنیاد پر بول رہا ہے اور یہ وہ آزادی ہے، جسے بنیادی دستور میں تسلیم کیا ہے اور ہندوستانی آئین کی دفعہ  19 کے تحت جہاں پر آزادی کی چھ اقسام کو ذکر کیا گیا ہے، وہاں واضح طو پر اظہار رائے کی آزادی اور بغیر اسلحے کے اجتماع کی آزادی کی قانونی حیثیت کو مانا گیا ہے، لیکن افسوس کا مقام ہے کہ لاقانونیت اتنی بڑھ گئی ہے کہ اب ان لوگوں پر حملے کئے جا رہے ہیں، جو اپنی زبان کھول رہے ہیں اور ان لوگوں کو احتجاج کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے، جو  آئین ہند کے تحفظ کی خاطر اپنی آواز لوگوں تک پہنچانا چاہتے ہیں، ایسے میں عدلیہ سے گزارش ہے کہ وہ ہمیشہ کی طرح قانون کی بالا دستی کی خاطر اظہار رائے کے ساتھ بغیر اسلحے کے اجتماع کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ اللہ اکبر

8۔ کل انگریزوں نے اس ملک کے اصلی باشندوں کے ہاتھ اوپر کرا کر ان کی پریڈ کرائی تھی اور آج آزاد ملک کی آزاد پولیس نے وہی کام اپنے ہی مستقبل کے سرمایہ یعنی طلباء کے ساتھ کیا اور ان کے ہاتھ مجرموں کی طرح اوپر کروا دیئے۔ بالکل ویسے ہی جیسے کل انگریزوں نے آزاد ہندوستانیوں کے کرائے تھے، بس فرق اتنا ہے کہ کل انگریز گھروں میں بلا اجازت گھس جاتے تھے، آج کے نام نہاد ہندوستانی قانون کے رکھوالے تعلیمی اداروں میں گھس رہے ہیں۔ دہلی کی جامعہ ملیہ کا واقعہ ایک بار پھر یہ بتا رہا ہے کہ ہندوستان کس سمت جا رہا ہے۔ ہم طلاب ہندوستان دہلی کی جامعہ ملیہ میں ہونے والی پولیس کی بربریت کا شکار ہونے والے طلباء کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہوئے یونیورسٹی کیمپس میں بلا اجازت پولیس کے داخلے کی شدید طور پر مذمت کرتے ہیں اور ہندوستانی عدلیہ سے درخواست کرتے ہیں کہ جلد از جلد بغیر انتطامیہ کی اجازت لئے اندر داخل ہونے والے پولیس اہلکاروں کی تفتیش کی جائے اور قانون کو توڑنے کے جرم میں انہیں سخت سے سخت سزا دی جائے۔

9۔ جامعہ ملیہ یونیورسٹی میں پڑھنے والے طلباء ہندوستان کا مستقبل ہیں اور افسوس کا مقام ہے کہ قانون کے رکھوالوں نے اپنے ہی مستقبل کے سرمایہ کو تاراج کرنے کے لئے وہ سب کچھ کیا، جو وہ کرسکتے ہیں۔ بلا اجازت یونیورسٹی میں در آنا، طلباء کا پیچھا کرتے ہوئے انہیں ہراساں کرنا، ان پر لاٹھی ڈنڈے اور گولیاں برسانا، آنسو گیس کے گولے چھوڑنا، یہ تاناشاہی وطیرہ ہے یا جمہوری ملک کی میراث؟ ہم جامعہ ملیہ دہلی اور علی گڑھ یونیورسٹی و دیگر علمی مراکز  میں پولیس کی جانب سے طاقت کے غلط استعمال پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہیں اور ملک کے مختلف مقامات پر پرامن احتجاج کے خلاف ہونے والے پولیس کے کریک ڈاون کی بے طرفانہ چانج کا مطالبہ کرتے ہوئے مجرموں کو کڑی سے کڑی سزا دیئے جانے کی مانگ کرتے ہیں۔
10۔ ہم مکتب اہلبیت اطہار علیھم السلام سے وابستہ ہونے کے ناطے تمام دوست داران اہلبیت اطہار علیھم السلام سے بالخصوص اور تمام ہی حریت پسندوں سے بالعموم درخواست کرتے ہیں کہ اس بل کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہروں سے ہر ممکنہ تعاون کیا جائے کہ حق کی حمایت، مظلوم کا ساتھ مکتب اہلبیت اطہار علیھم السلام کی تعلیمات کا بنیادی رکن ہے اور اسی بنیاد پر ہم ہندوستان میں اپنی قیادت سے بھی پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے ماضی کو دیکھیں اور اس کے آئینے میں حال کی تصویر کو دیکھیں، ہمارا کل وہ ہے، جہاں ہم نے کربلا رقم کی ہے، کل وہ ہے، جہاں سر کٹا کر بھی ہم سربلند ہوئے ہیں۔ کتنے افسوس کا مقام ہے کہ کربلا جیسا درخشان کل ہونے کے باوجود ہم آج خاموش تماشائی بنے رہیں، ہرگز ایسا نہیں ہوسکتا ہے۔ لہذا ہم اپنے تمام بزرگان ملت، عمائدین قوم اور دانشوران ملت سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ ہرگز حسینیت کی ڈگر سے پیچھے نہ ہٹیں کہ حسینیت کا امتیاز ہی یہی ہے کہ تعداد میں کم ہوتے ہوئے بھی حسینیوں نے ظلم کو برداشت نہیں کیا ہے۔ لہذا اٹھیں ایک بار پھر اٹھیں، عزم زینیبی لیکر اٹھیں، فکر حسینی لے کر اٹھیں اور دنیا کو بتا دیں ہمارا تعلق اس مکتب سے ہے، جہاں سروں کو کاٹا تو جا سکتا ہے، جھکایا نہیں جا سکتا، جہاں سر کٹنے کے بعد بھی نوک نیزہ پر بلند ہو کر ایک ہی نعرہ لگاتا ہے۔ھیات منا الذلہ۔۔۔
خبر کا کوڈ : 833495
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش