0
Wednesday 29 Jan 2020 11:52

جامعہ پشاور شدید مالی بحران کی زد میں، فروری کی تنخواہ دینے سے قاصر ہیں، وائس چانسلر

جامعہ پشاور شدید مالی بحران کی زد میں، فروری کی تنخواہ دینے سے قاصر ہیں، وائس چانسلر
اسلام ٹائمز۔ خیبر پختونخوا کی سب سے بڑی سرکاری درسگاہ ”یونیورسٹی آف پشاور” نے صوبائی حکومت کو خط ارسال کیا ہے کہ یونیورسٹی شدید مالی بحران کی وجہ سے فروری کے مہینے سے اپنے ملازمین کو تنخواہیں اور پنشن نہیں دے پائے گی، اس لئے یونیورسٹی کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے گرانٹ کی منظوری دی جائے۔ پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر آصف خان کی جانب سے وزیراعلٰی محمود خان کو لکھے گئے خط میں لکھا گیا ہے کہ یونیورسٹی نے گذشتہ کئی مہینوں سے صوبائی حکومت اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کو متعدد بار کہا ہے کہ یونیورسٹی شدید مالی بحران کا شکار ہے اور ان کیلئے بیل آؤٹ پیکیج دیا جائے لیکن حکومت کی جانب سے یونیورسٹی کو کوئی جواب نہیں دیا گیا ہے۔ خط میں لکھا گیا ہے کہ یونیورسٹی کے اکاؤنٹس میں صرف 6 کروڑ روپے رہ گئے ہیں، جبکہ ایچ ای سی کی جانب سے گرانٹ کی مد میں 13 کروڑ باقی ہیں تو یونیورسٹی کے پاس ٹوٹل 19 کروڑ تک موجود ہیں، جبکہ یونیورسٹی کو مزید 20 کروڑ روپے درکار ہیں جس سے وہ ملازمین کی تنخواہیں اور پنشن ادا کرسکے۔

خط میں تفصیلات دیتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ سال 2006ء سے 2019ٰء تک یونیورسٹی کی گرانٹ میں 113 فیصد اضافہ ہوا ہے، جبکہ ملازمین کی تنخواہوں میں 270 فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ اسی طرح پنشن کی مد میں رقم کی ادائیگی میں سال 2006ء کے مقابلے میں 2019ء تک 979 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پشاور یونیورسٹی کے ترجمان علی عمران بنگش کے مطابق سال 2006ء میں یونیورسٹی کو 72 کروڑ روپے دیئے گئے تھے، جبکہ 2019ء میں یہ رقم ایک ارب 54 کروڑ روپے سے زیادہ ہوگئی، تاہم دوسری جانب ملازمین کی تنخواہیں ایک ارب 73 کروڑ روپے، جبکہ پنشن کی رقم سال 2006ء میں 8 کروڑ سے بڑھ کر 2019ء میں 90 کروڑ روپے تک پہنچ گئی ہے جس کی وجہ سے یونیورسٹی مالی بحران کا شکار ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سال 2006ء کے مقابلے میں 2019ء میں تنخواہوں اور پنشن کی مد میں اضافہ دو ارب روپے سے زائد ہے لیکن یونیورسٹی کی گرانٹ میں 82 کروڑ تک اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے یونیورسٹی معاشی بحران کا شکار ہے۔

ان سے جب پوچھا گیا کہ طلبہ کی فیسیں بھی تو ہر سال بڑھتی ہیں تو اس سے جو پیسے آتے ہے اس سے اخراجات پورے نہیں ہوتے؟ اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی قوانین کے مطابق نئے داخل شدہ طلبہ کی فیس میں ہر سال 10 فیصد کا اضافہ ضرور ہوتا ہے لیکن جب کوئی طالبعلم داخل ہو جائے تو بی ایس ڈگری میں 4 سال تک اور 2 سالہ ڈگری میں 2 سال تک ان کی فیس میں کوئی اضافہ نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے اخراجات فیسوں سے پورے نہیں کئے جاتے۔ یونیورسٹی کے اندر پولیس سٹیشن کے بارے میں علی عمران نے بتایا کہ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ یونیورسٹی کے اندر تھانے کے اخراجات یعنی بجلی، گیس وغیرہ کے بل یونیورسٹی ادا کرتی ہے جن پر سالانہ 10 کروڑ تک کا خرچہ آتا ہے تو اگر حکومت اسی تھانے کے اخراجات پولیس ڈپارٹمنٹ کے ذریعے ادا کروائے تو 10 کروڑ یونیورسٹی کو بچت ہوگی۔
خبر کا کوڈ : 841320
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش