1
Thursday 3 Sep 2020 18:31
اسرائیل-امارات دوستی معاہدہ

اسرائیل و امارات جزائر سُقطریٰ پر پاکستان، ایران و چین کیخلاف جاسوس اڈہ بنا رہے ہیں، تُرک میڈیا

اسرائیل و امارات جزائر سُقطریٰ پر پاکستان، ایران و چین کیخلاف جاسوس اڈہ بنا رہے ہیں، تُرک میڈیا
اسلام ٹائمز۔ اسرائیل-امارات دوستانہ تعلقات کو آگے بڑھانے کی خاطر غاصب صیہونی رژیم اسرائیل اور امریکہ کے 2 اعلی سطحی وفود کی طرف سے انجام پانے والے دورۂ ابوظہبی کے بعد اب یہ بات منظر عام پر آ رہی ہے کہ تل ابیب اور ابوظہبی درحقیقت امریکی شہ پر ایران، پاکستان اور چین کے خلاف باہمی تزویراتی تعاون کو وسیع کرنا چاہتے ہیں۔ ترک خبررساں ایجنسی ایناڈولو نے سیاسی و بین الاقوامی ماہر تجزیہ نگاروں سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ متحدہ عرب امارات اور غاصب صیہونی رژیم بحیرۂ عرب میں واقع یمنی جزائر "سُقطُریٰ" (Socotra) میں ایک جاسوس کیمپ تشکیل دینے کے درپے ہیں جس کا پہلا مقصد خلیج عدن میں ایرانی سرگرمیوں پر نظر رکھ کر صنعاء-تہران روابط کو محدود بنانا ہے۔

  ترک خبررساں ایجنسی نے معروف قطری تجزیہ نگار ابراہیم فریحات سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یمنی جزائر میں جاسوس اڈے کی تشکیل اس بات کا ایک اور ثبوت ہے کہ اسرائیل-امارات دوستی معاہدے کا مقصد صرف دوستانہ تعلقات کی استواری ہی نہیں بلکہ دونوں ممالک کے درمیان مضبوط، گہرے اور ہمہ گیر و اسٹریٹیجک روابط کا قیام ہے۔ ابراہیم فریحات کا کہنا ہے کہ جزائر سقطری میں قائم کئے جانے والے جاسوس اڈے کا دوسرا مقصد چین کی اقتصادی سرگرمیوں پر نظر رکھنا بھی ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ جاسوسی کا یہ اڈہ چین کی تجارتی سرگرمیوں، بالخصوص یورپ کے ساتھ اس کے تجارتی لین دین کے خلاف امریکہ کو انتہائی اہم سکیورٹی سہولیات بھی فراہم کر سکتا ہے کیونکہ (ڈونلڈ) ٹرمپ چین کے ساتھ تجارتی جنگ میں الجھ چکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اُسے چین کی اقتصادی سرگرمیوں پر زیادہ سے زیادہ نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

  تہران یونیورسٹی کے پروفیسر سید محمد مرندی نے اس حوالے سے ایناڈولو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل ایران کے خلاف، جو اس وقت خطے کے اندر موجود متعدد امریکی فوجی اڈوں کے درمیان گھرا ہوا ہے، حملہ کرنے کی ذرہ برابر صلاحیت بھی نہیں رکھتا۔ انہوں نے کہا کہ اگر اسرائیل متحدہ عرب امارات کے ساتھ مل کر یمن کے اندر بھی کوئی نیا فوجی یا جاسوس اڈہ قائم کر لے، تب بھی ایران کے خلاف اُسے کوئی خاص برتری حاصل نہیں ہو گی۔ سید محمد مرندی نے اسرائیل-امارات دوستی معاہدے کے منظر عام پر آنے سے کئی سال قبل سے تل ابیب ابوظہبی کے درمیان موجود تزویراتی تعاون کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ متحدہ عرب امارات یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ اس کا دوستی معاہدہ، خطے کے اندر اس کے مقام کو شدید نقصان پہنچا رہا ہے لیکن (ڈونلڈ) ٹرمپ نے یہ کام انجام دینے پر اُسے مجبور کر رکھا ہے تاکہ نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کا پلہ بھاری رہے۔ 

  ترک خبررساں ایجنسی نے اس حوالے سے پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں واقع قائداعظم یونیورسٹی کے استاد پروفیسر سید قندیل عباس کی تحریر سے اقتباس کرتے ہوئے لکھا کہ اگر بھارت-امارات-اسرائیل پر مبنی (منحوس) مثلث تشکیل پا گئی تو جنوبی ایشیاء کی صورتحال بھی تیزی کے ساتھ بدل جائے گی۔ سید قندیل عباس نے لکھا کہ تب خطے کے اندر ایران کے ساتھ مقابلہ اس مثلث کا پہلا اور سب سے بڑا مقصد قرار پائے گا۔ انہوں نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ بھارت اور اسرائیل کے باہمی گٹھ جوڑ سے پاکستان کو ہمیشہ نقصان پہنچا ہے، لکھا کہ اسرائیلی اسلحہ اور صیہونی کمانڈو اس وقت بھی مقبوضہ کمشیر کے اندر موجود ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ اگر اسرائیل-امارات دوستی معاہدے میں بھارت بھی شامل ہو گیا تو ان تینوں ممالک سے وجود میں آنے والی مثلث "عالم اسلام کی تنہاء جوہری طاقت پاکستان" کے لئے سنگین خطرہ واقع ہو سکتی ہے۔

واضح رہے کہ متحدہ عرب امارات کے زیرکنٹرول یمنی علاقوں، بالخصوص جزائر سقطری میں امارات و اسرائیل کی مشکوک فوجی نقل و حرکت کے حوالے سے عالمی میڈیا میں بارہا رپورٹس چھپ چکی ہیں۔ قبل ازیں فرانس میں مقیم یہودیوں کے ای مجلے "جے فورم" (jforum) نے اس حوالے سے انکشاف کرتے ہوئے لکھا تھا کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل جزائر سقطری کے اندر ایک جاسوسی اڈہ بنانے میں مصروف ہیں جبکہ یمنی ای مجلے "الخبر الیمنی" نے بھی اس حوالے سے رپورٹ دیتے ہوئے لکھا تھا کہ یمن کے 2 جزیروں میں مستعفی یمنی حکومت اور سعودی-اماراتی فوجی اتحاد کے باہمی تعاون سے ایک وسیع فوجی اڈہ بنایا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ 13 اگست 2020ء کے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی پر متحدہ عرب امارات کے ولی عہد محمد بن زائد نے غاصب و بچوں کی قاتل صیہونی رژیم اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی استواری کا اعلان کر دیا تھا جس کے خلاف فلسطین سمیت پورے عالم اسلام سے اکابر مسلم شخصیات کے مذمتی بیانات تاحال سامنے آ رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 884084
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش