0
Friday 4 Dec 2020 18:50

تنقید آزادی اظہار کا اہم جزو ہے حکومت اس کی حوصلہ افزائی کرے، جسٹس اطہر من اللہ

تنقید آزادی اظہار کا اہم جزو ہے حکومت اس کی حوصلہ افزائی کرے، جسٹس اطہر من اللہ
اسلام ٹائمز۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو سوشل میڈیا رولز پر اٹھائے گئے اعتراضات کو مدنظر رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ تنقید آزادی اظہار کا اہم جزو ہے اس لیے اس کی حوصلہ افزائی کریں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے حکومت کے بنائے گئے سوشل میڈیا رولز سے متعلق درخواست پر سماعت کی اور سوالات اٹھاتے ہوئے پی ٹی اے کو پاکستان بار کونسل کے اعتراضات کو مدنظر رکھنے کی ہدایت کردی۔ پی ٹی اے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے چیف جسسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کے دوران پی ٹی اے کو وکیل کو بھارت کی مثال دینے سے روک دیا اور کہا کہ یہاں بھارت کا ذکر نہ کریں کیونک ہم اس حوالے سے بڑے واضح ہیں کہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہو۔
 
انہوں نے کہا کہ اگر بھارت غلط کر رہا ہے تو ہم بھی غلط کرنا شروع کریں، ایسے رُولز بنانے کی تجویز کس نے دی اور کس اتھارٹی نے انہیں منظور کیا۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اگر سوشل میڈیا رُولز سے تنقید کی حوصلہ شکنی ہو گی تو یہ احتساب کی حوصلہ شکنی ہو گی۔ پی ٹی اے کو مخطاب کرکے انہوں نے کہا کہ تنقید کی حوصلہ افزائی کریں نہ کہ حوصلہ شکنی، حکومت ہو یا کوئی اور قانون اور تنقید سے بالاتر نہیں۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ پی ٹی اے تنقید کی حوصلہ افزائی کرے کیونکہ یہ اظہار رائے کا اہم ترین جزو ہے۔ انہوں نے کہا کہ تنقید سے کوئی کیوں خوف زدہ ہو، ہر ایک کو تنقید کا سامنا کرنا چاہیے یہاں تک کہ عدالتی فیصلوں پر بھی تنقید ہو سکتی ہے صرف شفاف ٹرائل متاثر نہیں ہونا چاہیے۔

پاکستان بار کونسل کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ رولز کی کچھ شقوں سے تاثر ملتا ہے کہ وہ آئین سے متصادم ہیں، جس پر عدالت نے کہا کہ شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ پاکستان بارکونسل کا کام ہے اوروکلا کی نمائندہ تنظیم ہے۔ پی ٹی اے حکام کا کہنا تھا کہ پاکستان بار کونسل اور اسلام آباد بار کونسل سمیت سب کو تجاویز کے لیے خطوط لکھے گئے تھے جبکہ عدالت نے وکیل کو ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ سماعت میں مطمئن کریں کہ مذکورہ رولز آئین کے آرٹیکل 19 اور 19 اے سے متصادم نہیں ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ عدالت احتساب سے کیوں ڈرے، نہ تو کوئی قانون سے بالاتر اور نہ ہی تنقید سے بالاتر ہے لیکن جب آپ سقم چھوڑیں گے تو مسائل بھی ہوں گے اور پاکستان بار کونسل کے اعتراضات مناسب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ رولز بھی مائنڈ سیٹ کی نشاندہی کر رہے ہیں، جب عدالتی فیصلے پبلک ہو جائیں تو اس پر تنقید سے توہین عدالت بھی نہیں ہوتی۔
خبر کا کوڈ : 901629
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش