0
Monday 26 Apr 2021 09:04
شہریوں کی غیرقانونی حراست اور تشدد کیخلاف لاہور ہائیکورٹ کا بڑا فیصلہ

لاہور ہائیکورٹ نے دورانِ حراست ملزمان پر تشدد غیر قانونی قرار دیدیا

پولیس کے بُرے اعمال نے کریمنل جسٹس سسٹم کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے،عدالت
لاہور ہائیکورٹ نے دورانِ حراست ملزمان پر تشدد غیر قانونی قرار دیدیا
اسلام ٹائمز۔ شہریوں کو غیرقانونی حراست میں رکھنے اور تشدد کرنے کیخلاف لاہور ہائیکورٹ نے بڑا فیصلہ جاری کر دیا۔ ناجائز حراست میں رہنے والے متاثرہ شہریوں کو پولیس افسران کی جیب سے معاوضہ ملے گا۔ اقوام متحدہ کے چارٹرڈ کے مطابق عدالت نے گرفتار ملزمان پر تشدد نہ کرنے کا بھی حکم دیدیا۔ جسٹس چودھری عبدالعزیز نے 15 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا۔ تحریری فیصلے میں پولیس میں تشدد کا رویہ ختم کرنے کیلئے اہلکاروں اور افسروں کی تربیت اور مقدمات میں گرفتاری کے وقت فوری طور پر ملزموں کو گرفتاری کی وجوہات بھی فراہم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ عدالت نے پنجاب کے تمام تھانوں میں پولیس رولز اور پولیس آرڈر کے تحت روزنامچہ رجسٹر مرتب کرنے اور تمام تھانوں کی پولیس رولز کے مطابق انسپکشنز کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔
 
جسٹس چودھری عبدالعزیز نے عملدرآمد کیلئے فیصلے کی کاپی آئی جی پنجاب کو بھی بھجوانے کا حکم دیا ہے۔ تحریری فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ پنجاب کے اکثر تھانوں میں روزنامچہ رجسٹر مرتب ہی نہیں کیا جاتا۔ پولیس کا روزنامچہ رجسٹر ترتیب نہ دینے کا مقصد تھانوں میں ہونیوالی لاقانونیت کو چھپانا ہوتا ہے۔ تھانوں میں روزنامچہ رجسٹر مرتب نہ کرنا اعلی پولیس افسروں کی لاپرواہی کو ظاہر کرتا ہے۔ جسٹس چودھری عبدالعزیز نے تحریری فیصلہ میں مزید کہا ہے کہ پولیس کے بُرے اعمال نے کریمنل جسٹس سسٹم کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے، عام طور پر پولیس ملزموں کو زیادہ عرصہ حراست میں رکھنے کیلئے ان کی گرفتاری روزنامچہ رجسٹر میں درج ہی نہیں کرتی۔ تھانوں میں روزنامچہ رجسٹر ترتیب نہ دینا افسوسناک اور آئین میں دیئے فیئر ٹرائل کے آرٹیکلز کی بھی خلاف ورزی  ہے۔ آئین کا آرٹیکل 9 شہریوں کی آزادی اور زندگی کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ آئین کا آرٹیکل 10 ہر گرفتار شہری کو اس کی وجوہات سے آگاہ کرنے پر زور دیتا ہے۔
 
جسٹس چودھری عبدالعزیز نے فیصلے میں مزید کہا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 10 گرفتار شہری کو اس کی مرضی کے وکیل سے مشاورت کرنے کا حق دینے کی بھی ضمانت دیتا ہے۔ تھانوں میں شہریوں کی غیرقانونی حراست ان کے بنیادی حقوق کی نفی ہے۔ عدالتیں غیر قانونی طور پر حراست میں رکھے گئے شہریوں کے معاملے کو معمولی نہیں سمجھ سکتیں۔ ریاست کے ہر ادارے پر آئین کے آرٹیکل 14 کے تحت ہر شہری کی تکریم لازم ہے، آئین کا آرٹیکل 14 شہری سے ثبوت کی غرض سے اس پر تشدد کرنے سے روکتا ہے۔ آئین اس ملک کا مقدس ترین قانونی دستاویز ہے۔ ریاستی اداروں کو شہریوں کے بنیادی آئینی حقوق پامال کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ پولیس کی غیر قانونی حراست میں شہریوں پر تشدد اور بے حرمتی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ پولیس کے غیر آئینی رویے سے نمٹنے کیلئے عدالتوں کو عملی طور پر آگے آنا پڑے گا، حالیہ برسوں میں پولیس نے اپنے کام میں زوال پیدا کر لیا ہے، پولیس قوانین اور رولز کے تحت گزیٹڈ آفیسر پر لازم ہے کہ وہ سال میں 2 بار تھانوں کی انسپکشن کرے، بد قسمتی سے پولیس تھانوں کی انسپکشنز اور دیگر لازم شرائط ختم ہو چکی ہیں، شہریوں کے آئینی حقوق کو پامال کرنیوالے پولیس افسروں کیخلاف مقدمات درج کرنے اور محکمانہ کارروائیوں کا حکم دیا جائے۔
 
جسٹس چودھری عبدالعزیز نے اپنے فیصلے میں مزید کہا ہے کہ عدالتیں شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے موجود ہیں، شہریوں کے بنیادی حقوق پامال کرنیوالے سرکاری ملازم کو چھوڑنا آئین کے بنیادی حقوق کے آرٹیکلز کالعدم کرنے کے مترادف ہے۔ عدالت امن و امان کیلئے جانیں دینے والے پولیس افسروں اور اہلکاروں کی قربانیوں سے غافل نہیں، پولیس کی جانب سے شہریوں کے حقوق کی پامالی کے کیسز بڑھتے جا رہے ہیں، جنہیں روکنے کی ضرورت ہے۔ بنیادی حقوق پامال کرنیوالے پولیس افسروں سے متاثرہ شہریوں کو معاوضے دلوا کر ایسے رویے کو روکا جا سکتا ہے۔ ہائیکورٹ کے جسٹس چودھری عبدالعزیز نے خاتون بی بی کی درخواست پر تحریری فیصلہ جاری کیا۔ خاتون نے عدالت میں محمد ظفر، عابد حسین اور غلام اکبر کی بازیابی کیلئے درخواست دائر کی تھی۔ عدالت نے متعلقہ افراد کوبازیاب کرواتے ہوئے تینوں متاثرین کو گرفتار کرنیوالے کانسٹیبل کے اثاثوں کی چھان بین اور کانسٹیبل اکرم کی جیب سے تینوں متاثرین کو 40 ہزار روپے اور ایس ایچ او کی جیب سے متاثرین کو 20 ہزار روپے معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیا۔
خبر کا کوڈ : 929269
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش