0
Monday 25 Oct 2021 11:03

فیس بک بھارت میں مسلم مخالف، نفرت آمیز مواد کو شفافیت سے نہیں ہٹاتی

فیس بک بھارت میں مسلم مخالف، نفرت آمیز مواد کو شفافیت سے نہیں ہٹاتی
اسلام ٹائمز۔ فیس بک کی کچھ لیک ہونے والی دستاویزات میں یہ انکشاف سامنے آیا ہے کہ سوشل میڈیا کی معروف وہب سائٹ بھارت میں نفرت انگیز تقاریر، غلط معلومات اور اشتعال انگیز پوسٹس، خاص طور پر مسلم مخالف مواد کو شفافیت سے نہیں روکتی۔ یہاں تک کہ انٹرنیٹ کمپنی کے اپنے ملازمین کو اس کے محرکات اور مفادات پر شبہ ہے۔ امریکی خبر رساں ادارے اے پی کی رپورٹ کے مطابق رواں برس میں مارچ میں کی گئی تحقیق، کمپنی کے میموز پر مبنی ہے جو 2019ء کے ہیں۔ کمپنی کے یہ داخلی دستاویزات فیس بک کی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور کمپنی کی سب سے بڑی مارکیٹ میں اس کے پلیٹ فارم پر گستاخانہ مواد کو ختم کرنے کی مسلسل جدوجہد کو اجاگر کرتی ہیں۔ خیال رہے کہ میں بھارت میں فرقہ وارانہ اور مذہبی کشیدگی کی ایک تاریخ موجود ہے جو سوشل میڈیا پر بھی نفرت انگیز پوسٹس اور تشدد کو بڑھاوا دیتی ہے۔ دستاویزات یہ بھی ظاہر کرتی ہیں کہ کمپنی کئی سالوں سے ان مسائل سے آگاہ ہے، جس پر سوالات بھی اٹھائے گئے ہیں کہ کمپنی نے ان مسائل کے حل کے کام کیا بھی ہے یا نہیں۔

کئی ناقدین اور ڈیجیٹل ماہرین کا کہنا ہے کہ فیس بک کا ادارہ اس حوالے سے کچھ بھی کرنے میں ناکام رہا، خاص طور پر جہاں معاملہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ارکان کا ہو۔ دنیا بھر میں فیس بک سیاست کا اہم حصہ بن چکی ہے اور بھارت کی صورت حال اس حوالے سے مختلف نہیں۔ یہ تاثر عام ہے کہ نریندر مودی نے اس پلیٹ فارم کو انتخابات کے دوران اپنی پارٹی کو فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال کیا۔ گزشتہ برس وال اسٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ میں شبہ ظاہر کیا گیا تھا کہ فیس بک کی جانب سے دانستہ طور پر بھارت میں اپنے پلیٹ فارم سے نفرت آمیز مواد کو نہیں ہٹایا جاتا تاکہ بی جے پی اس سے ناراض نہ ہو۔ مودی اور فیس بک کے چیئرمین و چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) مارک زکربرگ نے بونہومی کو آویزاں کیا ہے، 2015ء میں فیس بک ہیڈکوارٹر میں دونوں کے گلے لگنے کی تصویر کی یادگار ہے۔ لیک ہونے والی دستاویزات میں بھارت میں نفرت انگیز تقاریر اور غلط معلومات کے بارے میں اندرونی کمپنیوں کی رپورٹس کا ایک ذخیرہ شامل ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بعض اوقات نفرت آمیز مواد فیس بک کے اپنے ایلگورتھمز کے باعث زیادہ لوگوں تک پہنچتا تھا۔

ان میں کمپنی کے عملے کے ان مسائل سے درست طریقے سے نہ نمٹننے پر اور پلیٹ فارم پر وائرل ہونے والے ایسے مواد سے متعلق ان کی عدم اطمینان کا اظہار بھی شامل ہے۔ دستاویزات کے مطابق فیس بک نے بھارت کو دنیا کے سب سے زیادہ خطرے والے ممالک میں سے ایک کے طور پر دیکھا اور ہندی اور بنگالی دونوں زبانوں کو نفرت انگیز تقاریر کی خلاف ورزی پر آٹومیشن کی ترجیحات کے طور پر شناخت کیا۔ تاہم اس کے باوجود فیس بک کے پاس کافی مقامی زبان کے ماڈریٹرز یا مواد کی نشاندہی نہیں کی گئی ہیں تاک گمراہ کن معلومات کو روکا جا سکے جو بعض اوقات حقیقی دنیا میں تشدد کا باعث بنتی ہیں۔ ایک بیان میں فیس بک نے کہا کہ اس نے ہندی اور بنگالی سمیت مختلف زبانوں میں نفرت انگیز تقاریر کو تلاش کرنے کے لیے ٹیکنالوجی میں نمایاں سرمایہ کاری کی ہے جس سے 2021ء میں نفرت انگیز تقاریر کی تعداد کم ہو کر نصف رہ گئی ہے۔ کمپنی کے ترجمان نے کہا کہ عالمی سطح پر مسلمانوں سمیت پسماندہ گروہوں کے خلاف نفرت انگیز تقریر بڑھ رہی ہے لہذا ہم پالیسی کے نفاذ کو بہتر بنا رہے ہیں اور اپنی پالیسیوں کو اپ ڈیٹ کرنے کے لیے پرعزم ہیں کیونکہ نفرت انگیز تقریر آن لائن سامنے آتی ہے۔

نیوز ایجنسی اے پی کو یہ معلومات سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کی جانب سے کیے گئے انکشافات سے ملیں۔ ان انکشافات کو ایڈیٹ کر کے فیس بک کی سابقہ ملازمہ فرانسس ہوگن کے وکیل کی جانب سے امریکی کانگریس کو دیا گیا تھا۔ یہ رپورٹ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کو دیئے گئے انکشافات پر مبنی ہے اور کانگریس کو سابقہ فیس بک ملازم و وسل بلور فرانسس ہوگن کے قانونی وکیل کی طرف سے اصلاح شدہ صورت میں فراہم کی گئی تھی۔ یہ ورژن نیوز آرگنائزیشنز کے کنسورشیم نے حاصل کیے تھے۔ اس سے قبل فروری 2019ء میں اور بھارت کے عام انتخابات سے قبل جب گمراہ کن معلومات کے خدشات میں اضافہ ہو رہا تھا تو فیس بک کا ایک ملازم یہ سمجھنا چاہتا تھا کہ بھارت میں ایک نیا صارف اپنی نیوزفیڈ پر کیا دیکھتا ہے اگر وہ صرف پلیٹ فارم کے ذریعے تجویز کردہ صفحات اور گروپس کو فالو کرتا ہے۔ اس ضمن میں اس ملازم نے ایک ٹیسٹ یوزر اکاؤنٹ بنایا تھا اور اسے تین ہفتوں تک لائیو رکھا تھا، اس دوران ایک غیر معمولی واقعے نے بھارت کو ہلا کر رکھ دیا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں ایک حملے میں 40 سے زائد بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے تھے جس سے پاکستان کے ساتھ کشیدگی بڑھ گئی تھی۔
خبر کا کوڈ : 960361
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش