0
Monday 12 Sep 2011 20:08

آئین کا تحفظ حلف میں شامل ہے جسے پورا کریں گے، ریٹائرڈ جج 2 سال تک ملازمت نہیں کر سکتے، چیف جسٹس

آئین کا تحفظ حلف میں شامل ہے جسے پورا کریں گے، ریٹائرڈ جج 2 سال تک ملازمت نہیں کر سکتے، چیف جسٹس
اسلام آباد:اسلام ٹائمز۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو ریٹائرمنٹ پر انتہائی مناسب مراعات حاصل ہوتی ہیں، اس لئے ان کو ریٹائرمنٹ کے بعد نئی ملازمت کے حصول کے لئے کوشش نہیں کرنا چا ہیئے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ عدلیہ نے اپنی غلطیوں سے سیکھ لیا ہے، آئین کا تحفظ کرنا ججوں کے حلف میں شامل ہے جسے پورا کریں گے۔ آئین کی بار بار کی خلاف ورزیوں سے ترقی کا پہیہ رک گیا۔ سپریم کورٹ میں نئے عدالتی سال کے آغاز کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ ایٹمی طاقت کے باوجود ملک کو سیاسی افراتفری اور دہشت گردی کا سامنا ہے۔ قوم کی نجات آئینی اصولوں اور قانون کی حکمرانی میں مضمر ہے، عدلیہ اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ وہ ہمیشہ آئین پر کاربند رہے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ججوں کی تقرری کا عمل آئین کے مطابق ہو رہا ہے۔ پنشن اتنی ہے کہ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کو دوبارہ ملازمت کی ضرورت نہیں۔ توقع ہے کہ ریٹائرڈ ججز اپنے مرتبے سے کم تر کوئی منصب قبول نہیں کریں گے، جو ریٹائرڈ ججز کم تر عہدوں پر فائز ہیں ان سے دستبردار ہونے کی توقع ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت جوڈیشل کمیشن بنایا گیا جس نے اپنے تئیس اجلاسوں میں سو ججز کی تقرری کی سفارش کی۔ گزشتہ عدالتی سال کے دوران سپریم کورٹ میں پندرہ ہزار ستائیس نئے کیس آئے جبکہ اس دوران سپریم کورٹ نے پندرہ ہزار دو سو باسٹھ کیسز نمٹائے، اس وقت بھی عدالت میں انیس ہزار تین سو تئیس کیسز زیر التوا ہیں۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی صدر عاصمہ جہانگیر نے تقریب سے خطاب میں کہا کہ پی سی او ججز کی برخاستگی کے فیصلے کی حمایت کرتے ہیں، بطور وکیل انتقام کی بجائے انصاف پر یقین رکھنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ازخود نوٹس کی اہمیت کے باوجود اس کے استعمال پر ہمارے تحفظات برقرار ہیں۔ عدالت نے متعدد ازخود نوٹسز کی شفاف سماعت نہیں کی۔ ازخود نوٹسز میں بیشتر درخواست گزار پیشہ ور مقدمہ باز ہیں۔ عدالت کا زیادہ زور انصاف کی بجائے مقدمہ نمٹانے پر دکھائی دیتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ججوں کی تقرری کا طریقہ کار درست نہیں ہے، ہائیکورٹ کا جج بنانے کے لیے وکلاء کی بجائے ماتحت عدلیہ کے ججوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اٹارنی جنرل مولوی انوار الحق نے اپنے خطاب میں کہا کہ عدلیہ کی آزادی کا استعمال آئینی حدود کے اندر ہونا چاہیے، حج کرپشن کیس میں خود عدالت نے انتظامیہ اور مقننہ کی حدود کا تعین کیا۔
خبر کا کوڈ : 98268
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش