0
Tuesday 6 Sep 2011 14:23

کراچی بدامنی کیس، حکومت بچانی ہے یا ملک، سپریم کورٹ سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے، چیف جسٹس

کراچی بدامنی کیس، حکومت بچانی ہے یا ملک، سپریم کورٹ سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے، چیف جسٹس
کراچی:اسلام ٹائمز۔ کراچی بدامنی کیس کی سماعت سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جاری سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اجمل پہاڑی سے متعلق جوائنٹ انٹروگیشن ٹیم کی رپورٹ آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے اس سے ملکی سالمیت سے متعلق سوال پیدا ہوجاتے ہیں۔ چیف جسٹس نے اجمل پہاڑی سے متعلق جوائنٹ انٹروگیشن ٹیم کی رپورٹ پر ایڈوکیٹ جنرل اور آئی جی سندھ سے استفسارکیا کہ آپ نے رپورٹ پڑھی ہے؟ یہ آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے، ملکی سالمیت سے متعلق سوال پیدا ہو جاتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت بچانی ہے یا ملک بچانا ہے؟ چیف جسٹس نے آئی جی سندھ سے استفسار کیا کہ آپ نے اس رپورٹ کے بعد کیا اقدامات کئے ہیں؟ اجمل پہاڑی کی مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ میں اس کی تنظیم سے متعلق معلومات بھی ہیں، کیا اقدامات کئے گئے ہیں؟ چیف جسٹس نے کہا کہ کراچی ملک کا معاشی حب ہے جب ریڑھی والے سے لیکر تاجر تک کو تحفظ حاصل نہیں ہے تو ملک ترقی کیسے کرے گا؟ جسٹس غلام ربانی نے کہا کہ جب جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں کوئی کارروائی نہیں کرنی تو جے آئی ٹی کیوں بنائی جاتی ہے؟
چیف جسٹس نے آئی جی سندھ سے سوال کیا کہ کامران عرف مادھوری چکرا گوٹھ پولیس پر فائرنگ کے الزام میں گرفتار ہے یا چھوڑ دیا؟ جس پر آئی جی سندھ نے کہا کہ کامران عرف مادھوری گرفتار ہے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے سوال کیا کہ کیا ملزم کامران مادھوری کا چالان کورٹ میں پیش کیا گیا؟ آئی جی نے جواب دیاکہ کامران زخمی ہے اور بازو کٹا ہوا ہے، اس لئے پیش نہیں کیا جاسکا، جس پر امیر ہانی مسلم نے کہا کہ میڈیکل سرٹیفکٹ کے ساتھ عدالت میں پیش کریں۔
دیگر ذرائع کے مطابق کراچی میں بدامنی اور ٹارگیٹ کلنگ کے خلاف سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کی سماعت آج بھی جاری ہے۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ کٹی پہاڑی پر چار روز تک گولیوں کی بارش ہوتی رہی مگر حکومت نظر نہیں آئی۔ انہوں نے کہا کہ اسی لئے لوگ فوج بلانے کی باتیں کررہے ہیں۔ عدالت عظمٰی کا پانچ رکنی بنچ چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں سماعت کررہا ہے۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری نے آج اپنے ریمارکس میں کہا کہ اب کوئی چیز عدالت سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ انہون نے سوال کیا کہ وفاقی و صوبائی حکومتوں نے ملک دشمن اداروں کے ساتھ کام کرنے والوں کے خلاف ایکشن کیوں نہیں لیا؟ چیف جسٹس نے نشاندہی کی کہ اس وقت ملک میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوان اور صوبائی اسمبلیاں کام کررہی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کراچی خون میں نہا رہا تھا اور حکومت نے کچھ نہیں کیا۔ چیف جسٹس نے پھر سوال کیا کہ ایک ماہ میں تین سو چھ افراد مارے گئے، قاتل کیوں گرفتار نہیں ہوئے۔ جسٹس غلام ربانی نے ایڈوکیٹ جنرل سے مکالمے میں کہا کہ آپ عدالتوں میں ملزمان کے خلاف ثبوت پیش نہیں کرتے جس کی وجہ سے انہیں سزائین نہیں ہوتیں۔
جسٹس غلام ربانی نے کہا کہ آئی ایس آئی، ایم آئی اور دیگر اداروں کی مشترکہ تفتیشی رپورٹ کے چوتھے صفحے پر اجمل پہاڑی کا اعترافی بیان ہے۔ انہوں نے ایڈوکیٹ جنرل کو یہ بیان پڑھنے کا مشورہ بھی دیا۔ عدالت نے ایڈوکیٹ جنرل سے استفسار سے کیا کہ کیا ٹارچر سیل کے فوٹیج آگئے ہیں؟ جس پر ایڈوکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ ان فوٹیج میں قابل اعتراض مواد ہے اور یہ عدالت میں نہیں دکھائے جاسکتے۔ تاہم ایڈوکیٹ جنرل فتح محمد ملک نے کہا کہ یہ فوٹیج چیمبر میں دیکھی جاسکتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 96827
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش