0
Tuesday 12 Mar 2024 18:48

جماعت اسلامی ہند کی سیاسی و سماجی مسائل پر اہم پریس کانفرنس

جماعت اسلامی ہند کی سیاسی و سماجی مسائل پر اہم پریس کانفرنس
رپورٹ: جاوید عباس رضوی

جماعت اسلامی ہند کی جانب سے نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس منعقد ہوئی۔ پریس کانفرنس میں جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر پروفیسر سلیم نے بھارتی کسانوں کے احتجاج، مطالبات اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے رویے پر بات کی۔ انہوں نے مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کو بند کئے جانے پر ناراضگی کا اظہار کیا اور غزہ میں فوری جنگ بندی اور اسرائیلی حکومت کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ چلائے جانے کا مطالبہ کیا۔ پریس کانفرنس میں جماعت اسلامی کے نائب امیر ملک معتصم خان نے مسلم پرسنل لاء بورڈ میں آسام اور اتراکھنڈ کی حکومتوں کی مداخلت اور مسلمانوں کو پریشان کرنے کے بہانے تلاش کئے جانے پر روشنی ڈالی۔ جماعت اسلامی ہند کی نیشنل سکریٹری محترمہ رحمت النساء نے حراست میں آبروریزی کی حیران کن تعداد پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو‘ نے جو اعداد و شمار پیش کیا ہے، اس سے دل کو شدید صدمہ پہنچا ہے۔ اس موقع پر جماعت اسلامی ہند کے نیشنل اسسٹنٹ سکریٹری انعام الرحمن نے دہلی و ملک کے دیگر حصوں میں مساجد و عبادت گاہوں کو نشانہ بنائے جانے کی تفصیلات پیش کیں۔

مسلم پرسنل لاء بورڈ میں آسام اور اتراکھنڈ کی حکومتوں کی مداخلت:
پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ جماعت اسلامی ہند مسلم شادیوں اور طلاق رجسٹریشن ایکٹ 1935 کو آسام سرکار کی طرف سے منسوخ کرنے کے فیصلے پر اپنی تشویش کا اظہار کرتی ہے۔ فی الحال ریاست میں مسلم شادیوں اور طلاقوں کے لئے مذکورہ ایکٹ کے تحت رجسٹریشن کا عمل حکومت کے مجاز قاضیوں (علماء کرام) کے ذریعہ انجام پاتا ہے لیکن اب آسام کے مسلمانوں کو 1954 کے ’اسپیشل میرج ایکٹ‘ کے تحت اپنی شادیاں درج کرانی ہوں گی۔ یہ فیصلہ نہ صرف آئین کی روح کے خلاف ہے بلکہ اسلاموفوبک رویے کی طرف ایک واضح اشارہ بھی ہے۔ گرچہ آسامی حکومت کہتی ہے کہ اس اقدام کا مقصد چائلڈ میریج (بچوں کی شادیوں) کو روکنا ہے، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کا اصل مقصد ووٹ بینک کی سیاست اور عام انتخابات سے قبل مسلم مخالف سرگرمیاں دکھا کر لوگوں کو پولرائز کرنا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کے اس اقدام سے مسلم شادیوں کے ضابطے اور ڈوکومنٹیشن میں دشواریاں ہوسکتی ہیں اور مسلمان شادیوں کو رجسٹر کرانے میں جھجک محسوس کریں گے۔ جبکہ شادیاں رجسٹرڈ نہ ہونے کی صورت میں عورتوں کو علیحدگی یا طلاق کی صورت میں ازدواجی حقوق اور سماجی سیکورٹی کے لئے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

جماعت اسلامی ہند اتراکھنڈ حکومت کی جانب سے یکساں سول کوڈ (یو سی سی) کے نفاذ کی مخالفت کرتی ہے۔ اس فیصلے کی رو سے ہر مذہب کے الگ الگ پرسنل لاء کی جگہ پر ’یو سی سی‘ پرسنل لاء کا ایک ایسا سیٹ پیش کرے گا جو مذہب کی پرواہ کئے بغیر ہر شہری پر لاگو ہوگا۔ تمام مذاہب کی لڑکیوں کی شادی کے لئے یکساں عمر، مردوں اور عورتوں کو وراثت کے مساوی حقوق سمیت ’لیو ان ریلیشن شپ‘ کا رجسٹریشن لازمی ہوگا۔ جماعت اسلامی ہند کا خیال ہے کہ گرچہ ’یو سی سی‘ کا تذکرہ آئین کے آرٹیکل 44 میں ریاستی پالیسی کے ہدایتی اصولوں کے طور پر کیا گیا ہے لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ آئین بنانے والوں نے اسے حکومت کی صوابدید پر چھوڑ دیا تھا (یعنی ’یو سی سی‘ کا نفاذ عوام کی مرضی پر ہونا چاہیئے)۔ حکومت کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی بھی مذہبی برادری پر بغیر کسی مشاورت کے یکطرفہ فیصلہ تھوپ دے، بالخصوص جب اس میں مذہبی امور شامل ہوں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آسام اور اتراکھنڈ میں ہونے والے یہ اقدامات ملک میں بڑھتے ہوئے اس رجحان کا حصہ ہیں جس میں نفرت انگیز تقاریر اور مسلم برادری کو نقصان و اذیت پہنچانے والے فیصلوں کو بعض وزراء اعلیٰ اور سیاست داں اپنے سیاسی عروج کا آلہ سمجھتے ہیں، یہ رجحان ہماری جمہوریت کے لئے نقصان دہ ہے۔ ملک کے تمام انصاف پسند شہریوں کو اس کی مخالفت کرنی چاہیئے۔

بھارتی کسانوں کے مطالبات:
پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ جماعت اسلامی ہند بی جے پی کی حکومت سے ’ایم ایس پی‘ (زرعی پیداوار کے لئے کم از کم امدادی قیمت) کے لئے احتجاج کرنے والے کسانوں کے مطالبے کو ماننے کی اپیل کرتی ہے۔ وہ ’ایم ایس پی‘ کے لئے قانونی ضمانت اور اس کے دائرے میں تمام فصلوں کو شامل کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں نہ کہ چند منتخب فصلوں کو۔ ان کا یہ مطالبہ بھی ہے کہ ’ایم ایس پی‘ کو سوامی ناتھن کمیشن کی سفارشات کے مطابق ہونا چاہیئے جس سے امدادی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے، جبکہ مارکیٹ کے حالات پر مبنی قیمت طے کرنے کے موجودہ طریقہ کار سے بے یقینی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور اس سے کسانوں کا نقصان ہوتا ہے۔ مودی حکومت کو چاہیئے کہ وہ وسائل کی کمی، آب و ہوا سے متعلق مسائل، گرتی ہوئی آبی سطح اور کسانوں کے مالی سیکورٹی کو متاثر کرنے والے سماجی و اقتصادی مسائل کو حل کرے۔ جماعت اسلامی ہند احتجاج کرنے والے کسانوں کے ساتھ پولیس کے سخت رویے کی مذمت اور آنسو گیس کے گولے داغے جانے کی وجہ سے دو کسانوں کی موت پر افسوس کا اظہار کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ احتجاج کرنا کسانوں کا جمہوری حق ہے، ان کے خلاف آنسو گیس کا استعمال ناقابل قبول ہے۔ جماعت اسلامی احتجاج کرنے والے کسانوں کے پاسپورٹ اور ویزے کی منسوخی کی حالیہ پالیسی کی بھی مذمت کرتی ہے۔ توقع ہے کہ حکومت مذاکرات کے دوران ضد اور ہٹ دھرمی کے رویے کو ترک کرکے دیرپا حل نکالنے کی کوشش کرے گی۔

اقدار پر مبنی سیاست کی ضرورت:
بھارت میں اقدار پر مبنی سیاست کی کمزور ہوتی صورتحال پر جماعت اسلامی ہند کو سخت تشویش لاحق ہے۔ حالیہ راجیہ سبھا انتخابات، بڑے پیمانے پر ایم ایل ایز کی طرف سے کراس ووٹنگ سے متاثر ہوئے تھے۔ ایسی اطلاعات اور الزامات ہیں کہ ہماچل پردیش میں راجیہ سبھا انتخاب کے دوران ایم ایل ایز کو اغوا کر لیا گیا تھا اور انہیں پڑوسی ریاست کی پولیس کی نگرانی میں ’سی آر پی ایف‘ کی گاڑیوں میں محفوظ مقامات پر لے جایا گیا۔ سیاسی انحراف اور دلبدل کا رویہ اب ایک عام سی بات ہے، جس سے عوام کا اپنے منتخب نمائندوں پر کئے گئے اعتماد کو چوٹ پہنچتی ہے اور یہ اخلاقیات کے بھی خلاف ہے۔ ایم ایل اے کو لالچ دیا جاتا ہے اور بعض اوقات برسر اقتدار پارٹی کو گرانے کے لئے ان کی وفاداریاں خرید لی جاتی ہیں، جیسا کہ 2022ء میں مہاراشٹر میں اور حال ہی میں بہار میں دیکھا گیا۔ پریس کانفرنس کے مطابق جماعت اسلامی ہند کا ماننا ہے کہ صرف اقدار پر مبنی سیاست ہی اس ملک کو مضبوط اور ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتی ہے۔ اس سے ملک میں ہم آہنگی، انصاف اور مساوات کے علاوہ آئین میں درج اقدار کو بھی تقویت ملے گی۔ ہمیں انتخابات میں پیسے کا بے جا استعمال، دلبدل کا رویہ اور کراس ووٹنگ پر قدغن لگانا چاہیئے تاکہ موقع پرست سیاست دانوں کی حوصلہ شکنی ہو، جن کی وجہ سے ہماری جمہوری اقدار کمزور ہورہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی ہند کی انتخابی پالیسی میں لوگوں کو یہ بتانا شامل ہے کہ وہ صرف ایسے امیدواروں کو ہی ووٹ دیں جن کا کردار اچھا ہو، معاشرے میں ان کا اچھا امیج ہو اور جن کا کوئی مجرمانہ یا فرقہ وارانہ پس منظر نہ ہو۔ اگر ہم اپنی جمہوریت کو بچانا چاہتے ہیں تو موجودہ حالات میں اقدار پر مبنی سیاست کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی۔

حراست میں آبرویزی کی تعداد حیران کن:
پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ جماعت اسلامی ہند حراستی آبروریزی کی تعداد پر تشویش کا اظہار کرتی ہے جیسا کہ تازہ ترین ’نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو‘ ( این سی آر بی) کے اعداد و شمار میں انکشاف کیا گیا ہے۔ ’این سی آر بی‘ کے اعداد و شمار کے مطابق 2017ء تا 2022ء، حراست میں آبروریزی کے 270 سے زیادہ واقعات ہوئے ہیں۔ ان واقعات میں مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے مجرمین شامل ہیں، جن میں پولیس اہلکار، سرکاری ملازمین، مسلح افواج کے ارکان کے ساتھ ساتھ جیلوں، ریمانڈ ہومز اور اسپتال کے عملہ شامل ہیں۔ ان عہدوں پر فائز افراد کا اپنی طاقت کا غلط استعمال کرتے ہوئے عورت کے ساتھ زیادتی کرنا انتہائی شرمناک ہے۔ اس کی روک تھام کے لئے مضبوط قانونی ڈھانچہ اور ادارہ جاتی اصلاحات کی فوری ضرورت ہے۔ حکومت کو ان مسائل کو جامع انداز میں حل کرنے کے لئے فوری ایکشن لینا چاہیئے۔ اس منفی سماجی طرز عمل میں تبدیلی کو یقینی بنانے کے لئے قانونی اصلاحات، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بہتر تربیت اور جوابدہی کے لئے مضبوط میکانزم کی ضرورت ہے۔ مزید کہا گیا کہ جماعت اسلامی ہند کا خیال ہے کہ حراستی آبروریزی کی بنیادی وجوہ اور نتائج سے نمٹنے کے لئے ایک جامع نقطہ نظر ضروری ہے۔ لوگوں کو جب تک ’خوف خدا‘ اور ’آخرت میں باز پرس‘ کی اہمیت نہیں سمجھائی جائے گی، تب تک خواتین کے جنسی استحصال کو روکا نہیں جا سکتا۔ ہمیں معاشرے کی اخلاقی تربیت اور کردار سازی پر بھرپور توجہ دینی چاہیئے۔ اس کا آغاز کم عمری سے ہی ہوجانا چاہیئے۔ اسکولوں اور تربیتی اداروں میں اخلاقی تعلیم کو نصاب کا حصہ ہونا چاہیئے۔ آبروریزی کرنے والوں کے لئے سخت قوانین، تیز رفتار ٹرائل اور مثالی سزا کے تعین کے ساتھ ہی معاشرے کی اخلاقی اصلاح پر بھی زور دیا جانا چاہیئے۔

وزارت برائے اقلیتی امور کے حکم پر مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کو بند کئے جانے پر جماعت اسلامی ہند اپنی ناراضگی کا اظہار کرتی ہے۔ فاؤنڈیشن کے پاس فنڈز کی کل دستیابی 30 نومبر 2023 تک 403.55 کروڑ روپے کی لیابلیٹی کے ساتھ 1073.26 کروڑ روپے، مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے پاس 669.71 کروڑ روپے دستیاب ہیں۔ وزارت برائے اقلیتی امور نے اب اس سرپلس کو ہندوستان کے ’کنسولیڈیٹیڈ فنڈ‘ میں منتقل کرنے کا حکم دیا ہے۔ جماعت اسلامی کا کہنا ہے کہ یہ اقدام ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لئے ایک شدید دھچکا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کی جانب سے نظر انداز کئے جانے کی وجہ سے ہندوستانی مسلمانوں کی اقتصادی ترقی اور اعلیٰ تعلیم کے میدان میں پیچھے دھکیلی جارہی ہے۔ جبکہ بے شمار ایسے سرکاری اعدادو شمار موجود ہیں جو بتاتے ہیں کہ مسلمان تعلیمی و اقتصادی طور پر پیچھے ہیں۔ اس سلسلے میں سچر کمیٹی کی رپورٹ اور محمود الرحمن کمیٹی کی رپورٹ نے اس کمیونٹی کی بہتری کے لئے مثبت کارروائی (ریزرویشن) کی سفارش کی ہے۔ اگر حکومت مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن جیسی اسکیموں کو بند کرنے کا سلسلہ جاری رکھتی ہے تو یہ اقلیتی ترقی کے لئے انتہائی ضرر رساں ہوگا جبکہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ تعلیمی اعتبار سے پسماندہ طبقے کے لئے مثبت پیشرفت کرے۔

غزہ کی موجودہ صورتحال:
پریس کانفرنس میں مزید کہا گیا کہ جماعت اسلامی ہند کو غزہ کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر گہری تشویش ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اب تک 30 ہزار فلسطینی شہید اور 70 ہزار زخمی ہوچکے ہیں جن میں خواتین اور بچے شامل ہیں۔ اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں غزہ کے 439000 یعنی تقریباً 70 فیصد مکانوں کو تباہ یا زبردست نقصان پہنچا ہے۔ غزہ کے 2.2 ملین باشندوں میں سے تقریباً 85 فیصد بے گھر ہوچکے ہیں۔ ’بین الاقوامی عدالت انصاف‘ کو ثبوت ملے ہیں کہ اسرائیل نے غزہ میں نسل کشی‘ کا ارتکاب کیا ہے۔ وہاں کے زیادہ تر اسپتالوں کو شدید نقصان پہنچا یا مکمل طور پر تباہ کردیا گیا۔ جماعت اسلامی ہند نے کہا کہ فلسطینیوں کی بڑی تعداد عارضی کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہے جہاں انہیں خوراک، پانی اور ادویات کی قلت کا سامنا ہے۔ صفائی کی سہولیات کا فقدان ہے اورلوگ منجمد کر دینے والے موسم کو برداشت کررہے ہیں۔ یہ خوفناک صورتحال فاقہ کشی اور بیماریوں کے تیزی سے پھیلنے کا سبب بن رہی ہے۔ اس وقت اسرائیلی یرغمالیوں اور اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے ساتھ ساتھ غزہ تک انسانی امداد پہنچانے کی اجازت دینا بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ جماعت خطے میں فوری اور مستقل جنگ بندی کے نفاذ کا مطالبہ کرتی ہے۔ ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی کرتی ہے کہ اسرائیلی جارحانہ کارروائیوں کو بخشا نہیں جانا چاہیئے، اس کی سیاسی اور عسکری قیادت پر اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی طرف سے مختلف جنگی جرائم کا مقدمہ چلایا جانا چاہیئے۔ اس سلسلے میں بھارتی حکومت خطے میں امن قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 1121856
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش