0
Saturday 20 Apr 2024 11:55

اسرائیل پر ایرانی حملے کے اثرات

اسرائیل پر ایرانی حملے کے اثرات
تحریر: سید منیر حسین گیلانی
 
آج کل فلسطین میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ برننگ ایشو ہے، جس میں دونوں اطراف لابنگ کرکے اپنے اپنے حمایتیوں کی وجہ سے مضبوط ہو رہے ہیں۔اسرائیل پر ایرانی حملے نے جہاں علاقائی اور عالمی قوتوں کو ورطہ حیرت میں ڈالا ہے، وہیں غزہ کے مسلمانوں کے چہرے پر مسکراہٹ اور ان کے زخموں پر مرحم رکھنے کا کام کیا ہے اور او آئی سی کے 57 ممالک پر مشتمل عالم اسلام کو بھی حوصلہ دیا ہے اور بلاشبہ آج ہر غیرت مند مسلمان فخر کر رہا ہے کہ دفاعی صلاحیت ایران نے حاصل کی اور ضرورت پڑنے پر اس کے استعمال سے گریز نہیں کیا۔ اس حملے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر چلنے والے تبصرے بھی عوام کی اس واقعہ میں دلچسپی کا اظہار ہے۔

بلا شبہ اسرائیل کی سرزمین پر ایران کا جواب 1979ء کے انقلاب اسلامی کے ثمرات میں سے ہے۔ میں ایران کے اسلامی انقلاب سے پہلے کے حالات کی طرف چند جملوں میں اشارہ کرکے آگے بڑھنا چاہتا ہوں کہ اس وقت کی ایرانی ریاست یعنی رضا شاہ پہلوی کی حکومت امریکہ کی کٹھ پتلی تھی۔ شاہ ایران امریکی اشاروں پر حکومت کر رہا تھا اور خطے میں امریکی سرپرستی کی بنیاد پر علاقے کا تھانیدار بنا ہوا تھا۔ لیکن انقلاب اسلامی کے بعد جب نظام سیاست کی تبدیلی کی بات شروع ہوئی تو انقلاب کے بانی آیت اللہ روح اللہ خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں اردگرد کے ممالک میں یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا گیا کہ یہ شیعہ انقلاب ہے۔ جسے خطے کے دیگر ممالک میں بھی لانے کی کوشش کی جائے گی، لیکن حالات نے یکسر اس سوچ کو بدل دیا۔ ایران امت مسلمہ کے مسائل میں ہراول دستے کے طور پر موجود ہے۔

انقلاب اسلامی کے رونماء ہوتے ہی امریکی شہہ پر عراق نے خلیجی تنازع کی آڑ میں ایران پر جنگ مسلط کر دی۔ جس میں امام خمینیؒ کی قیادت میں ایرانی عوام نے بھرپور ساتھ دیا اور جانوں کی قربانی جس انداز سے دی، اس کی آج کے دور میں نظیر کہیں نہیں ملتی۔ یہ جنگ عربوں کے وسائل، امریکہ کی جنگی مہارت اور اسلحہ کے زور پر آٹھ سال تک جاری رکھی گئی۔ جب سازشی اور سامراجی قوتوں کو احساس ہوگیا کہ ہم جنگ سے اپنے اہداف حاصل نہیں کرسکیں گے تو وہی سامراجی قوتیں، جو اس وقت کی صدام حکومت کی سرپرستی کر رہی تھی، انہوں نے ایک نئے انداز سے افراتفری اور بدامنی پھیلانے کیلئے ایرانی لوگوں کو اکسایا کہ ملک کے اندر امن و امان کا مسئلہ پیدا کیا جائے۔ ایرانی پارلیمنٹ کو دھماکے سے اڑا دیا گیا۔ چیف جسٹس آیت اللہ محمد حسین بہشتی کی شہادت کے تقریباً دو ماہ بعد ہی بریف کیس بم دھماکے میں صدر ممکت محمد علی رجائی اور وزیراعظم محمد جواد باہنر شہید کر دیئے گئے۔

انقلاب مخالف قوتوں نے سامراجی ایجنٹوں کے ذریعے آج تک تخریب کاری اور بدامنی کے اس مذموم مشن کو جاری رکھا ہوا ہے۔ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد امام خمینی کی ایران میں آمد کیساتھ ہی ماہ مقدس رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو عالمی یوم القدس منانے کیلئے مسلمانوں سے اپیل کی گئی، جو آج تک مختلف ممالک میں عوامی سطح پر بھرپور طریقے سے جاری ہے، لیکن حکومتی سطح پر اس کا اظہار نہیں ہوسکا۔ میں بلا خوف تردید یہ کہنا چاہتا ہوں کہ قدس کی آزادی کو ایرانی عوام نے عقیدے کے طور پر نظریہ بنایا کہ قبلہ اول بیت المقدس کو صہیونی ریاست کے ہاتھوں سے آزاد کروانا ہے۔ فلسطین کی مزاحمتی تحریک حماس کے نوجوانوں نے 7 اکتوبر 2023ء کو طوفان الاقصیٰ کے نام سے آپریشن کے ذریعے اسرائیل میں گھس کر اسرائیلی افسروں کو یرغمال بنایا اور کچھ کو قتل بھی کیا۔ اسرائیل کیلئے دنیا بھر میں یہ ہزیمت کا بالکل انوکھا انداز تھا، جو حماس کی قیادت نے خفیہ حکمت عملی سے اختیار کیا۔

جواب میں اسرائیلی صیہونی ریاست نے حماس کے علاقوں کو فتح کرنے کیلئے اتنی بمباری کی اور اسلحہ استعمال کیا کہ یہاں کوئی عمارت، گھر، ہسپتال، سکول محفوظ نہیں رہا اور اب تک 33 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور 70 ہزار سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔ ایران نے صرف یوم القدس منایا ہی نہیں، القدس بریگیڈ بنا کر اس کی آزادی کی باقاعدہ تیاری بھی کی۔ حماس غزہ کے اندر قابض اسرائیلی ریاست کے مظالم کا مقابلہ کر رہی ہے تو لبنان سے حزب اللہ اسرائیل پر تابڑ توڑ حملے اور شام سے جولان کی پہاڑیوں پر بھی حملے ہوتے رہے ہیں۔ عراق کی المقاوموۃ الاسلامیہ نے بھی اس جنگ میں بھرپور حصہ ڈالا۔ لیکن سب سے زیادہ قابل تعریف یمن کے حوثی نوجوانوں کی تنظیم ”انصار اللہ“ ہے، جس کی بحیرہ احمر میں فاتحانہ کارروائیوں سے امریکہ، برطانیہ، یورپ اور نیٹو ممالک اتنے بوکھلا گئے ہیں کہ انہوں نے اپنے جہاز یمن کی حدود سے دور کر لئے ہیں۔ جوابی طور پر برطانیہ، امریکہ اور اتحادی ممالک نے یمن پر حملے کیے، لیکن حوثی قیادت بڑی جراتمندی کیساتھ ان کا مقابلہ اور جوابی حملے بھی کرتی رہی ہے۔
 
غزہ کی جنگ کے دوران ہی نجانے کیسے یکم اپریل کو نیتن یاہو کو ایران پر ڈائریکٹ حملہ کرنے کی ترکیب سوجھی اور دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر حملہ کر دیا، جس میں القدس بریگیڈ کے اہم عسکری رہنماء شہید ہوئے۔ یہ مسلمہ بین الاقوامی قانون ہے کہ کسی ملک کے سفارتخانے کو نقصان نہیں پہنچایا جاتا۔ اس بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کے باوجود اسرائیل کی حمایتی قوتوں کے منہ سے ایک جملہ بھی اسرائیلی جارحیت کی مذمت میں نہیں نکلا۔ اس جارحیت کا ردعمل یقیناً ایران کو ہر حالت میں کرنا ہی تھا اور اس نے مکمل تیاری کیساتھ 14 اپریل کو 300 ڈرونز کیساتھ اسرائیل پر حملہ کر دیا۔ ہمارے نقطہ نظر سے اسے کامیاب حملہ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ یہ اسرائیلی حدود کے اندر جا کر کیا گیا اور اس سے بہت سی دفاعی تنصیبات اور اسرائیلی معیشت کو نقصان پہنچا۔

ایک بات میں ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ جنگوں کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں، کمزور بیمار لوگوں، شفا خانوں، تعلیمی اداروں پر کوئی حملہ نہیں کیا جاتا۔ یہ بھی اصول ہے کہ جہاں سول آبادی کے متاثر ہونے کا خدشہ ہو تو پہلے سے اعلان کر دیا جاتا ہے کہ ہم اس ملک میں حملہ کریں گے۔ اس جگہ کا وقت اور تعین بھی کر دیا جاتا ہے۔ ایران کی اسلامی حکومت نے اسرائیل پر حملے سے پہلے اپنے تمام ہمسایہ ممالک کیساتھ اسرائیل کے اتحادی ممالک امریکہ و برطانیہ کو بھی آگاہ کر دیا تھا کہ ہم حملہ کریں گے تو انہوں نے اپنے باشندوں کو جو اسرائیل میں رہ رہے تھے، محفوظ مقامات پر پہنچا دیا، جس کی وجہ سے ایران نے اسرائیل کو حماس کی آبادی کی طرح کھنڈر کیا اور نہ ہی ہسپتالوں، سکولوں، مارکیٹوں اور دکانوں پر حملے کیے، ہاں دفاعی تنصیبات پر حملے کیے، جو ایرانی دعوے کے مطابق 50 فیصد تک کامیاب رہے۔

ایران اسرائیل کشیدگی پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں بھی اسرائیل کو ہزیمت ہی اٹھانا پڑی ہے، جبکہ اب امریکہ سمیت صیہونی ریاست کے تمام سرپرست اسے دوبارہ ایران پر حملہ نہ کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ میں عالمی برادری سے اپیل کرنا چاہتا ہوں کہ اسرائیل اور اس کی حواری سامراجی قوتیں ہوش کے ناخن لیں۔ ایران کے ردعمل کے جواب میں مزید کوئی کارروائی نہ کریں۔ اگر پہلے والی حماقت دہرائی گئی تو اس کا ازالہ اور نقصان ناقابل برداشت ہوسکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1129902
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش