0
Friday 25 May 2018 15:49

نواز شریف کا بیانیہ اور حقائق

نواز شریف کا بیانیہ اور حقائق
تحریر: طاہر یاسین طاہر

نظریاتی آدمی اول دن سے ہی نظریاتی ہوتا ہے۔ نظریہ ضرورت کے تحت اور دکھاوے کے نظریاتی، اصل میں اپنی جان کے بچائو کی خاطر اختیار کی جانے والی تدبیروں کو ہی نظریہ سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ یہ فکری مغالطہ ہے، جزوقتی دانشور اور صحافیوں کے روپ میں سیاسی جماعتوں کے ترجمان بھی اپنے اپنے پسندیدہ سیاسی رہنما یا سیاسی جماعت کے اس فکری مغالطے کو اپنا لیتے ہیں، بلکہ درست الفاظ میں اس فکری مغالطے کی مارکیٹنگ شروع کر دیتے ہیں۔ آصف علی زرداری کبھی نظریاتی نہ تھے، نہ ہی نواز شریف کا کسی نظریہ سے کوئی واسطہ ہے۔ ہاں دونوں کا مشترک نظریہ، نظریہ ضرورت ہے اور دونوں ہی اس نظریئے کے قائل ہیں کہ ان کے بعد ان کی آل اولاد اقتدار میں رہے۔ اپنے اس ذاتی نظریہ کی بقا کے لئے دونوں مختلف اوقات میں مختلف سیاسی حربے استعمال کرتے ہیں۔ بات مذکورہ دونوں سیاست دانوں تک ہی نہیں بلکہ مذہبی سیاسی جماعتیں تو دینی نظریہ کو بھی نظریہ ضرورت کے تحت اپنے حق میں استعمال کرتی نظر آتی ہیں۔ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) اور (س) اس کی ادنیٰ مثالیں ہیں۔ کیا پی ٹی آئی کسی نظریئے کا نام ہے؟ اب تو بالکل بھی نہیں۔ پی ٹی آئی تو اس وقت پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے بیشتر الیکٹیبلز کا اڈہ بن چکی ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے سیاستدان اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے کہ ان کا ہدف اقتدار کا حصول ہے۔ ترقی، خدمت، نوکریاں، گھر اور ایسے ہی دل نشین نعرے ضمنی باتیں ہیں۔ اگر کسی سیاسی جماعت کا ہدف اقتدار کا حصول نہیں تو بجائے خود یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ ملک کی موجودہ سیاسی فضا پی ٹی آئی کے حق میں ہموار نظر آتی ہے۔ لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ 2013ء کے انتخابات میں بھی پی ٹی آئی اپنی توقع اور عوامی مزاج کے برعکس کارکردگی دکھا پائی تھی۔ انتخابات اگر وقت پہ ہوتے ہیں تو بے شک پی ٹی آئی اور نون لیگ کا مقابلہ ہوگا اور پنجاب میں یہ مقابلہ خوب ہوگا۔ رہی پیپلز پارٹی تو ابھی تک بھٹو کی اس جماعت نے اپنے انتخابی منشور کا اعلان ہی نہیں کیا۔ سوائے اس بات کے کہ اصل عوامی ترجمان پیپلز پارٹی ہی ہے۔ یہ نعرہ اب پذیرائی حاصل نہیں کر پائے گا۔ پیپلز پارٹی اگر پنجاب میں کم از کم اپنی موجودگی کا اظہار چاہتی ہے تو اسے اپنے  لئے قابل عمل انتخابی منشور کا اعلان کرنا ہوگا۔

دیکھا جائے تو اس وقت ہمارے ملک میں نظریاتی سیاست یا دائیں اور بائیں بازو کی سیاست عملی طور پر مفقود ہوچکی ہے۔ سیاست میں پیسے، برادری ازم، دھڑے بندی اور سرکاری مشینری میں اثر و رسوخ کا رواج ہے۔ ہر سیاسی جماعت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ووٹ کے حصول کے لئے اپنے منشور اور بیانیے کو عام کرے۔ لیکن سنجیدہ معاشروں میں یہ بات تکلیف دہ تصور کی جاتی ہے کہ کوئی سیاسی جماعت اپنے ہدف کے لئے سماجی ہیجان پیدا کرنے کا سبب بنے۔ میری رائے یہی ہے کہ اس وقت تحریک لبیک پاکستان اور نون لیگ، دونوں جماعتیں اپنے اپنے سیاسی اہداف کے لئے سماج میں سیاسی ہیجان پیدا کر رہی ہیں۔ جوں جوں نون لیگ سے ایم این ایز اور ایم پی ایز پی ٹی آئی کی طرف جا رہے ہیں، میاں نواز شریف کا غصہ آسمانوں کا چھوتا نظر آرہا ہے۔ اگرچہ جانے والے کسی نظریئے یا اختلاف کے باعث نہیں جا رہے بلکہ ان کے پیش نظر ان کا ذاتی مفاد ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ آنے والی حکومت پی ٹی آئی کی ہوگی۔ ایسا وہ اس لئے سمجھتے ہیں کہ پاکستانی سیاسی تاریخ میں کبھی بھی ایک جماعت مسلسل دو بار وفاق میں حکومت نہ بنا سکی، جبکہ میاں صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی جماعت کو اسٹیبلشمنٹ توڑ رہی ہے۔ میاں صاحب کے اس مفروضے کی بہ ظاہر کوئی بنیاد نظر نہیں آتی۔ جانے والوں میں سے بہت سے  لوٹ کے آسکتے ہیں، اگر انہوں نے سمجھا کہ نون لیگ حکومت بنا لے گی، یا انہیں پی ٹی آئی سے ٹکٹ نہ ملا تو۔ کیا جاوید ہاشمی کی واپسی نہیں ہوئی ہے۔؟

میاں نواز شریف کا کہنا ہے کہ انہوں نے مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ بنایا تو ان کے خلاف کرپشن کے کیسز بنا دیئے گئے۔ حالانکہ یہ بات بھی خلاف واقع ہے۔ پاناما کیس سکینڈل جرمنی کے ایک اخبار نے اٹھایا، جبکہ میاں صاحب کی حکومت نے مشرف کے خلاف مقدمہ 2007ء کی ایمرجنسی کی بنا پر بنایا، نہ کہ بارہ اکتوبر 1999ء کی آئین شکنی پر۔ میاں نواز شریف کبھی ممبئی حملوں کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالتے نظر آتے ہیں، تو کبھی وہ کچھ کہتے نظر آتے ہیں۔ کبھی عدلیہ کو نشانے پر لیا ہوتا ہے تو کبھی فوج کو براہ راست تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ کیا یہ سچ نہیں کہ میاں صاحب خود بھی فوج کی ہی پیداوار ہیں اور ان کی ساری سیاسی حیات اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پہ ناچتے گذری ہے۔ میاں صاحب اپنی بقا کے لئے اداروں کو تنقید کا شنانہ بناتے ہیں۔ ان کے نزدیک اسٹیبلشمنٹ کو ہر برائی کا ذمہ دار قرار دینا ہی بندے کو نظریاتی بنا دیتا ہے۔ ایک طرف میاں صاحب خود کو نظریاتی اور پاکستان کا بیٹا قرار دیتے ہیں تو دوسری جانب میاں صاحب کے سگے بیٹے برطانیہ کے شہری  نظر آتے ہیں۔ یہ کیسے نظریاتی ہیں؟ اور یہ کیسا نظریہ ہے؟ آخری تجزیے میں میاں نواز شریف سیاسی اور سماجی ہیجان تیز تر کرنے کو ہی نظریہ سمجھتے ہیں۔ آنے والے انتخابات میں سیاسی ہیجان بڑھے گا۔ میاں صاحب خود کو انقلابی ثابت کرنے کے لئے فوج اور عدلیہ کو براہ راست نشانے پہ لیں گے۔ اگر انہیں جیل ہو جاتی ہے تو یقین مانیے ان کا سارا نظریہ اور انقلابی طبیعت درست ہو جائے گی اور بیانیہ یکسر تبدیل ہو جائے گا۔ آج انہیں کہیں سے بری ہونے کا اشارہ تک مل جائے تو انقلاب کا جوار بھاٹا اپنی شکل کھو دے گا۔ اس سے زیادہ میاں صاحب کا نہ بیانیہ چل سکے گا نہ انقلاب۔ ہدف اپنا بچائو ہے اور بس۔
خبر کا کوڈ : 727225
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش