0
Saturday 20 Apr 2024 16:22

اسرائیل کے کھلے جرائم ہی پورے بحران کی اصلی جڑ ہیں، حسین امیر عبداللہیان

اسرائیل کے کھلے جرائم ہی پورے بحران کی اصلی جڑ ہیں، حسین امیر عبداللہیان
اسلام ٹائمز۔ ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان نے جمعرات کے روز امریکی نیوز چینل سی این این (CNN) کے میزبان آرین برنیٹ کو ایک تفصیلی انٹرویو دیا ہے جس میں انہوں نے مختلف مسائل پر گفتگو کی۔ اس انٹرویو کا مکمل متن درج ذیل ہے:
 
میزبان: اسرائیل نے ایران کے حملے کا جواب دینے کا عہد کیا ہے، کیا آپ کو لگتا ہے کہ وہ آج رات حملہ کر سکتا ہے؟

حسین امیر عبد اللہیان: گذشتہ ہفتے کی شب ہم نے، گذشتہ مہینوں کے دوران انجام پانے والے غاصب اسرائیلی رژیم کے مجرمانہ اقدامات، بالخصوص دمشق میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفارتخانے پر دو ہفتے قبل ہونے والے ہوائی حملے، کا جواب دیا تھا۔ جعلی اسرائیلی رژیم کے خلاف ہمارا ردعمل محدود اور کم سے کم تھا درحالیکہ ہم غاصب اسرائیلی رژیم کو سخت جواب بھی دے سکتے تھے۔ ہم نے اعلان کیا کہ ہمارا ردعمل جائز دفاع کے دائرہ کار میں ہے کہ جو بین الاقوامی قانون کے عین مطابق تھا۔

ہم اپنا ردعمل مزید جاری نہیں رکھیں گے لیکن اگر اسرائیلی رژیم نے دوبارہ مہم جوئی شروع کی اور ہمارے مفادات کے خلاف کارروائی کی تو ایران کا اگلا ردعمل فوری، زیادہ سے زیادہ اور فیصلہ کن ہو گا۔ جائز دفاع کی انجام دہی کے بعد ہم نے تہران میں امریکی مفادات کے محافظ سوئس سفارتخانے کے ذریعے وائٹ ہاؤس اور امریکی حکومت کو پیغام بھیجا تھا کہ جس میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ اگر اسرائیلی رژیم نے دوبارہ بھی کوئی غلطی کی تو ہمارا ردعمل فوری فیصلہ کن اور پشیمان کر دینے والا ہو گا۔ ہم مشرق وسطی کے خطے میں کشیدگی و بحران کو بڑھانا نہیں چاہتے اور امید رکھتے کہ اسرائیلی رژیم اپنی سابقہ غلطی نہیں دہرائے گی۔


میزبان: جب آپ کہتے ہیں کہ آپ کا جواب زیادہ سے زیادہ ہوگا، تو آپ نے ریڈ لائنوں کا لفظ استعمال کیا۔ یہ سرخ لکیریں کیا ہیں؟ زیادہ سے زیادہ سطح کتنی ہے؟ آپ نے اپنے حملے میں 300 سے زائد ڈرون و کروز میزائل استعمال کئے ہیں، لہذا اس سے زیادہ سطح کتنی بلند ہے؟

حسین امیرعبد اللہیان: غاصب اسرائیلی رژیم نے جس ریڈ لائن کو عبور کیا تھا وہ دمشق میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفارتخانے کی عمارت پر ہوائی حملہ تھا۔ اس حملے کے دوران، دہشتگردی کے خلاف سرگرم اسلامی جمہوریہ ایران کے 7 سرکاری فوجی مشیر اسرائیلی رژیم کے میزائلوں کا نشانہ بن کر شہید ہوئے اور معروف ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کی گئی۔ اسرائیلی رژیم نے سفارتی مقامات کے استثنی پر مبنی ریڈ لائنیں عبور کی ہیں۔

ہاں، ہم نے جو حملہ جائز دفاع کی صورت میں انجام دیا ہے وہ کم سے کم تھا کیونکہ ہم نے صرف 2 فوجی مراکز یعنی نواتیم ایئر بیس اور ایک انٹیلیجنس و سکیورٹی سینٹر کو ہی نشانہ بنایا ہے کہ جنہیں استعمال کرتے ہوئے اسرائیلی رژیم نے ہمارے سفارتخانے پر میزائل حملہ کیا تھا۔

ہم نے عام شہریوں کو نشانہ نہیں بنایا، ہم نے اسرائیلی رژیم کے اقتصادی مراکز کو بھی نشانہ نہیں بنایا، صرف 2 ہی مقامات کہ جہاں سے F35 طیاروں نے پرواز کی اور گولان کی پہاڑیوں سے انہوں نے ہمارے سفارتخانے پر میزائل حملہ کیا، لہذا یہ ہمارا کم از کم ہدف تھا لیکن غاصب اسرائیلی رژیم کی جانب سے مزید مہم جوئی کو دہرانے کی صورت میں ہماری زیادہ سے زیادہ کارروائی کیا ہو گی۔۔ اس حوالے سے میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ زیادہ سے زیادہ اور پشیمان کر دینے والا اقدام ہو گا کہ جس کی تفصیلات کو میری ملکی مسلح افواج نے تیار کر رکھا ہے تاہم مجھے امید ہے کہ غاصب اسرائیلی رژیم حساب کتاب میں دوبارہ غلطی نہیں کرے گی!


میزبان: کیا آپ کے پاس اس بارے کوئی تفصیلات ہیں کہ زیادہ سے زیادہ سطح کیا ہو گی؟ آپ نے ذکر کیا کہ ایران کے کم سے کم ردعمل میں اقتصادی و مالیاتی مراکز اور عام شہریوں کو نشانہ نہیں بنایا گیا، کیا آپ کا زیادہ سے زیادہ جواب؛ ان تینوں کو بھی نشانہ بنائے گا؟

حسین امیر عبداللہیان: ایرانی ڈرون طیاروں و میزائلوں کے ذریعے، انتہائی درستگی و باریک بینی کے ساتھ، غاصب اسرائیلی رژیم کے زیر قبضہ علاقوں کے اندر موجود 2 خالصتاً فوجی اہداف کو نشانہ بنانا گیا تھا۔ ہمارے جائزے و انٹیلیجنس بتاتے ہیں کہ ہم اپنے مقاصد حاصل کرنے میں انتہائی کامیاب رہے: اول، ہم نے اپنے ارادے کا مظاہرہ کیا، دوم، ہم نے ان فوجی اڈوں کو نشانہ کہ بنایا جہاں سے ہمارے سفارتخانے پر حملہ کیا گیا تھا، اور تیسرا، ہماری کارروائیاں کم سے کم اور محدود تھیں کیونکہ ہم مقبوضہ فلسطین میں متعدد و وسیع اہداف کو نشانہ بنانا ہی نہیں چاہتے تھے۔

میزبان: امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے اسرائیل کے خلاف آپ کے حملے کو شرمناک ناکامی قرار دیا ہے۔ آپ کی رائے کیا ہے؟

حسین امیرعبداللہیان: دیکھئے، سب سے پہلے، غاصب اسرائیلی رژیم کے خلاف ہماری کارروائی اچانک نہ تھی۔ ہم 10 روز قبل سے اعلان کر چکے تھے کہ غاصب اسرائیلی رژیم کو جواب دینے کا ہمارا فیصلہ حتمی ہے کیونکہ اس رژیم نے دمشق میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفارتخانے پر حملہ کر کے نہ صرف ہماری خودمختاری کو نشانہ بنایا تھا بلکہ شام کی خودمختاری و ارضی سالمیت کو بھی پائمال کیا تھا۔ اس آپریشن سے قبل ہم نے امریکہ کو بتا دیا تھا کہ غاصب اسرائیلی رژیم کے خلاف ایران کا حملہ یقینی ہے۔ ہم نے اس بات کا اعلان کچھ وزرائے خارجہ کے ذریعے بھی کیا تھا کہ جنہوں نے مجھ سے اور قبل ازیں سوئس سفارتخانے کے ذریعے رابطہ کیا تھا۔

بلاشبہ ہم خطے میں پوری طرح سے مشاہدہ کر رہے تھے کہ امریکہ اور نیٹو کے متعدد اراکین سمیت 20 سے زائد ممالک خطے میں تعینات ہو رہے تھے تاکہ ایران کے میزائلوں و ڈرون طیاروں کا رخ موڑ سکیں یا انہیں محدود کر سکیں تاکہ وہ اسرائیل تک نہ پہنچ پائیں لیکن ہمارے میزائل و ڈرون طیاروں نے دونوں اہداف کو مکمل طور پر نشانہ بنایا ہے۔ ہمارا حملہ اچانک نہ تھا اور ہمارے مخالفین کو اگرچہ حملے کا وقت معلوم نہ تھا لیکن وہ جانتے ضرور تھے کہ یہ جلد ہی انجام پا جائے گا۔ ہم نے ایک کامیاب آپریشن، واضح جواب اور غاصب صیہونی رژیم کو آشکار پیغام دیا ہے!


میزبان: تو آپ کا ارادہ تھا کہ آپ کے ملکی ردعمل کے نتائج ویسے ہی ہوں جیسا کہ مشاہدہ کئے گئے ہیں؟ یعنی آپ کے 99 فیصد پروجیکٹائلز کو روک لیا گیا اور کوئی خاص نقصان نہیں ہوا۔ کیا یہی مطلوبہ جواب تھا؟

 حسین امیرعبداللہیان: ہمارا مقصد خبردار کرنا تھا۔ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں واقع 2 فوجی مراکز کے خلاف ہماری مسلح افواج کا آپریشن انتہائی کامیاب رہا ہے۔ ہمارا مقصد متناسب کارروائی کرنا تھا۔ ہمارا مقصد یہ تھا کہ اسرائیلی رژیم یہ پیغام حاصل کر لے کہ ہم جواب دینے کے لئے ضروری ارادہ رکھتے ہیں۔

میں دوبارہ کہتا ہوں کہ ہم نے کبھی بھی خطے میں کشیدگی و جنگ کو توسیع دینے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی کر رہے ہیں بلکہ یہ نیتن یاہو اور غاصب اسرائیلی رژیم ہی ہے کہ جو اپنی سیاسی زندگی کے تسلسل کو تناؤ اور دوسروں کو جنگوں میں الجھا کر رکھنے میں دیکھتی ہے۔


میزبان: صدر جو بائیڈن نے کل ایک تقریر کی۔ انہوں نے اسرائیل و یوکرائن کے بارے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے دوستوں کے ساتھ ہیں اور ہم ایران یا روس کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے! اگر امریکہ دوبارہ اسرائیل کی مدد کرتا ہے چونکہ اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ حملہ کرے گا اور آپ نے کہا ہے کہ آپ زیادہ سے زیادہ جواب دیں گے، تو کیا آپ امریکی اہداف کو بھی نشانہ بنائیں گے؟

حسین امیر عبداللہیان: جب ہم زیادہ سے زیادہ ردعمل کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر غاصب اسرائیلی رژیم نے کوئی غلطی کی تو ہم مقبوضہ علاقوں میں فوری، فیصلہ کن اور پشیمان کر دینے والا زیادہ سے زیادہ ردعمل ظاہر کریں گے۔ اس حالیہ آپریشن میں ہم نے امریکہ کو پیشگی بتا دیا تھا کہ ہم خطے میں امریکی اڈوں و مفادات کو اس وقت تک نشانہ نہیں بنائیں گے جب تک امریکہ، غاصب اسرائیلی رژیم کی حمایت کرتے ہوئے خود بھی کو اس رژیم کی تیار کردہ جنگ میں کود نہیں پڑتا۔ اس صورت میں ہم کوئی تکلف روا نہیں رکھیں گے اور امریکی مفادات بھی مزید محفوظ نہیں رہیں گے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ ان مسائل میں پڑنے کے بجائے موجودہ بحران کی جڑ پر غور کیا جانا چاہیئے۔ دو گھنٹے قبل، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ساتھ ایک ملاقات میں، میں نے اس بات پر زور دیا کہ اصلی جڑ؛ جنگ، نسل کشی اور غزہ و مغربی کنارے کے خلاف اسرائیلی رژیم کے مشترکہ جنگی جرائم ہیں۔ اگر غزہ کے خلاف جنگ رک جاتی ہے تو پورے خطے میں امن لوٹ آئے گا اور ایران سمیت ہم سب اس امن سے مستفید ہوں گے۔


میزبان: اگر امریکہ ایرانی میزائلوں کے خلاف دفاع میں دوبارہ اسرائیل کی مدد کرتا ہے تو کیا امریکی اہداف آپ کی ٹارگٹ لسٹ میں شامل ہوں گے؟

حسین امیر عبداللہیان: ہمارا خیال ہے کہ امریکہ حساب کتاب سے کام لے گا۔ گزشتہ 6 ماہ میں ہمارے درمیان پیغامات کے جو تبادلے ہوئے ہیں ان کی بنیاد پر امریکہ کا خیال ہے کہ وہ خطے میں جنگ کے دائرہ کار میں توسیع کا خیرمقدم نہیں کرتا۔ امریکہ جانتا ہے کہ یہ مسئلہ نہ تو اس کے اپنے مفاد میں ہے اور نہ ہی ان مفادات میں کہ جو امریکہ خطے سے حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ امریکہ اسرائیلی رژیم کو روکے گا اور اس رژیم کو کوئی نئی مہم جوئی نہیں کرنے دے گا لیکن اسرائیلی رژیم کی جانب سے کسی نئی مہم جوئی کی صورت میں صورتحال اور ایران کا اگلا ردعمل یکسر مختلف ہو گا۔

میزبان: ایک ایرانی فوجی کمانڈر (کمانڈر آف نیوکلیئر سینٹرز پروٹیکشن اینڈ سکیورٹی کور) نے کہا ہے کہ اگر اسرائیل ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے جاری رکھے گا تو ایران کی جوہری پالیسیاں بدل سکتی ہیں۔ اس بات کا کیا مطلب ہے؟

حسین امیر عبداللہیان: دیکھئے جوہری معاملے پر اسلامی جمہوریہ ایران کے سرکاری موقف کا کئی بار اعلان کیا جا چکا ہے۔ اس سلسلے میں ایران کے رہبر اعلی آیت اللہ خامنہ ای کا دینی و مذہبی فتوی ہمارے پاس موجود ہے۔ ہم کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ایٹمی میدان میں اسلامی جمہوریہ ایران کا پروگرام مکمل طور پر پرامن ہے۔ اس نقطہ نظر اور اپنے عزم پر ہماری خصوصی توجہ ہے۔

لیکن دوسری طرف ہم نے گزشتہ مہینوں میں دیکھا ہے کہ کئی بار غاصب اسرائیلی رژیم کے بعض عہدیداروں نے اعلان کیا ہے کہ غزہ میں فتحیاب ہونے کے لئے ایٹم بم استعمال کرنا ہو گا۔ میری رائے میں امریکہ کو مہم جوئی کرنے والی رژیم اسرائیل پر توجہ مرکوز کرنی چاہیئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ غزہ میں کوئی جوہری بحران پیدا ہو جائے۔ نیتن یاہو نے ثابت کیا ہے کہ وہ کسی بھی ریڈ لائن کا پابند نہیں لہذا اسے روکا جانا چاہیئے۔


میزبان: حال ہی میں خواتین پر حجاب پہننے کے لئے نئے سرے سے دباؤ ڈالا گیا ہے اور سپریم لیڈر نے اپنی حالیہ تقریر میں بھی اس مسئلے کا ذکر کیا ہے۔ سی این این کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ایران کے مختلف شہروں اور سڑکوں پر اخلاقی تحفظ پولیس کی موجودگی بڑھ گئی ہے۔ ایک خاتون نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ وہ اپنی حفاظت کے لئے خوفزدہ تھی۔ اس نے سی این این کو بتایا کہ گزشتہ ہفتے وہ اپنے شوہر کے ساتھ کار کی سیٹ پر بغیر ہیڈ اسکارف کے بیٹھی تھی جب اسے پولیس کی جانب سے ایک ٹیکسٹ میسج موصول ہوا کہ جس میں حجاب کے اصولوں پر عدم عملدرآمد کا ذکر کیا گیا تھا۔ اس ٹیکسٹ میسج میں لائسنس نمبر اور گاڑی کی دیگر شناختی معلومات شامل تھیں اور اس میں یہ انتباہ بھی کیا گیا تھا کہ اگر اس نے دوبارہ حجاب کے اصولوں کی خلاف ورزی کی تو اس کی گاڑی بند کر دی جائے گی۔ 2 سال قبل مہسا امینی کی موت کے بعد بڑے پیمانے پر احتجاج ہوا تھا کہ جسے اخلاقی تحفظ پولیس نے حجاب نہ پہننے پر گرفتار کیا تھا۔ حجاب کے میدان میں اب دوبارہ دباؤ کیوں ابھرا ہے اور حجاب کے اصولوں کی خلاف ورزی کرنے والی خواتین کی سزا کیا ہے؟

حسین امیر عبداللہیان: میں بالکل واضح انداز میں کہتا ہوں، امریکہ اور بہت سے مغربی ممالک مختلف میدانوں میں دوہرا معیار اپنانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ میں نے کچھ دن پہلے ہی ایک بڑے یورپی ملک کے وزیر خارجہ سے کہا ہے کہ کیا آپ کو یاد ہے کہ ایک ایرانی لڑکی کی المناک موت پر مغرب میں کیا ہنگامہ ہوا؟ لیکن آج جب کہ غزہ میں 15 ہزار سے زائد خواتین اور کئی ہزار بچے مارے جا رہے ہیں، اس میدان میں کچھ بھی وقوع پذیر نہیں ہوتا اور نہ ہی بعض یورپی حکومتوں اور امریکی حکومت کی جانب سے خواتین کی حمایت میں کوئی سنجیدہ اقدام یا کوئی مضبوط آواز سنائی دیتی ہے؟

حجاب، ایرانی ثقافت میں ایک مکمل طور پر رائج و جانا پہچانا موضوع ہے۔ دوہرے طرز فکر پر مبنی پالیسی نے بیرونی اشتعال انگیزیوں و مداخلتوں کے ذریعے ایران میں نظام (حکومت) کی تبدیلی کی پالیسی کو آگے بڑھانے کے لئے خواتین کی صلاحیت کو بطور اپوزیشن استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایران میں خواتین ایک اہم و بااثر شعبہ ہیں۔ ایران میں خواتین مختلف سماجی، سیاسی و ثقافتی عہدوں پر اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ بنیادی طور پر حجاب کا مسئلہ ایسا ہے ہی نہیں کہ کوئی ایرانی خاتون کی شخصیت کو اس طرح کے معاملے میں ملوث کر سکے۔ ہماری خواتین تہذیب یافتہ انسان ہیں۔ ان کا ہمارے معاشرے میں بہت بڑا حصہ ہے اور وہ خود جانتی ہیں کہ سماجی رویوں کے موضوع کے ساتھ انہوں نے کیسے نمٹنا ہے۔ میری رائے میں ایرانی خواتین کے حجاب کا موضوع، آج خطے میں ہمارا اصلی مسئلہ ہے ہی نہیں۔ آج کا مسئلہ 34 ہزار سے زائد فلسطینی خواتین، بچوں اور مردوں کا قتل عام ہے اور ہم سب کو اس مسئلے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیئے۔


میزبان: جناب امیر عبداللہیان، آپ کا بہت شکریہ!
خبر کا کوڈ : 1129948
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش