2
0
Tuesday 10 Jul 2018 22:13

قائد کے فرمان پر جان قربان مگر ووٹ نہیں۔۔۔۔!

قائد کے فرمان پر جان قربان مگر ووٹ نہیں۔۔۔۔!
تحریر: ابو فجر لاہوری

پاکستان میں الیکشن 2018ء کے سلسلہ میں انتخابی مہم زور و شور سے جاری ہے۔ سیاسی جماعتوں کیساتھ ساتھ مذہبی جماعتیں بھی کار زارِ سیاست میں زور آزمائی کیلئے اُتری ہوئی ہیں۔ مذہبی جماعتوں کے حوالے سے تحریک لبیک، تحریک لبیک اسلام، سنی اتحاد کونسل، سنی تحریک، مجلس وحدت مسلمین، اسلامی تحریک، جماعت اسلامی، جمعیت اہلحدیث، اللہ اکبر تحریک، جے یو آئی (ف)، جے یو پی، جے یو آئی (س) قابل ذکر ہیں جبکہ کالعدم جماعتوں کے امیدوار بھی اپنی کالعدم جماعت کا نام استعمال کرنے کی بجائے آزاد حیثیت سے میدان میں ہیں۔ مولانا احمد لدھیانوی، مولانا مسرور نواز جھنگوی، مولانا امیر معاویہ جھنگ سے جبکہ اورنگزیب فاروقی کراچی سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ مذہبی جماعتوں میں سب سے زیادہ امیدوار تحریک لبیک نے کھڑے کئے ہیں، جو امیدواروں کی تعداد کے اعتبار سے دوسری بڑی جماعت ثابت ہوئی ہے۔ تحریک لبیک کے بعد 5 جماعتی اتحاد ’’متحدہ مجلس عمل‘‘ ہے۔ متحدہ مجلس عمل میں جے یو آئی (ف)، جے یو پی، جمعیت اہلحدیث، اسلامی تحریک اور جماعت اسلامی شامل ہیں۔

متحدہ مجلس عمل نے سب سے زیادہ ٹکٹس جماعت اسلامی کو دیئے ہیں، جبکہ ایم ایم اے میں شامل جماعتوں کے حوالے سے اس اتحاد کے حالیہ قیام سے قبل جو تحفظات پیش کئے جا رہے تھے، وہ اب سچ ثابت ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ایم ایم اے کے سربراہ مولانا فضل الرحمان مسلم لیگ (ن) کے اتحادی تھے۔ مولانا فضل الرحمان کیساتھ  پروفیسر ساجد میر بھی مسلم لیگ (ن) کے ہی حامی تھے۔ متحدہ مجلس عمل کو ’’متحد‘‘ کرنے سے پہلے طے کیا گیا تھا کہ اس اتحاد میں شامل جماعتیں اپنی سیاسی جماعتوں کیساتھ وابستگی سے دستبردار ہو جائیں گی۔ اس اعلان پر اتحاد میں شامل جماعتوں کے رہنماؤں نے یقین کر لیا مگر عوام جو اب کافی باشعور ہو چکے ہیں، انہوں نے اس پر تحفظات کا اظہار کیا۔ عوامی حلقوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر کافی بحث بھی ہوئی۔ عوامی تحفظات تھے کہ مولانا فضل الرحمان مسلم لیگ (ن) سے اتحاد نہیں توڑیں گے بلکہ وہ متحدہ مجلس عمل کو بھی مسلم لیگ (ن) کے حق میں استعمال کریں گے، اب یہی کچھ ہوا۔ مولانا فضل الرحمان نے سوات میں شہباز شریف کے حق میں اپنا امیدوار دستبردار کروا دیا۔

مولانا فضل الرحمان کے بعد اب جمعیت اہلحدیث پاکستان کے سربراہ پروفیسر ساجد میر بھی پیچھے نہیں رہے۔ انہوں نے بھی لاہور میں راوی روڈ پر واقع اپنے مرکز میں مسلم لیگ (ن) کے سینیئر رہنما اور سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کو اپنی بھرپور حمایت کا یقین دلاتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ پروفیسر ساجد میر کا کہنا تھا کہ ہماری مجلس شوریٰ نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ ہم مسلم لیگ (ن) کو ہی ووٹ دیں گے۔ پروفیسر ساجد میر پہلے مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر بھی ہیں۔ اب دیکھا جائے تو متحدہ مجلس عمل میں شامل 2 مرکزی جماعتیں مسلم لیگ (ن) کیساتھ جا ملی ہیں۔ رہ گئی باقی 3 جماعتیں تو ان میں جماعت اسلامی دوہرے معیار کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ لاہور میں بیٹھ کر شیعہ رہنماؤں کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس میں تکفیریت کیخلاف بولتے ہیں اور کالعدم جماعتوں کے سیاست میں حصہ لینے کی مذمت کرتے ہیں جبکہ اسی لیاقت بلوچ کی جماعت اسلامی جھنگ میں انہی تکفیریوں کا ساتھ دے رہی ہے، جس کی لیاقت بلوچ مذمت کرتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے رویے پر روزِ اول سے ہی تنقید کی جاتی رہی ہے اور حالیہ انتخابات سے قبل ہی جماعت اسلامی بے نقاب ہوچکی ہے۔ کالعدم سپاہ صحابہ کیساتھ ساتھ جماعت اسلامی نے غیر رجسٹرڈ جماعت ’’ملی مسلم لیگ‘‘ جس کے امیدوار اللہ اکبر تحریک کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں، ان کیساتھ لاہور، قصور اور سوات میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر لی ہے۔ اب متحدہ مجلس عمل میں باقی 2 جماعتیں جے یو پی اور اسلامی تحریک رہ جاتی ہیں۔

جے یو پی پہلے ہی گروہ بندی کا شکار ہے۔ اس کا ووٹ بینک تقسیم ہوچکا ہے۔ اس حوالے سے جے یو پی کے مرکزی صدر پیر اعجاز ہاشمی کی آواز پر لبیک کہنے والے ووٹر آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ یہ ووٹ بینک کہیں بھی فیصلہ کن کردار ادا نہیں کرسکتا۔ اب اگر بات کریں اسلامی تحریک کی تو علامہ ساجد علی نقوی ملت جعفریہ کے کلی قائد نہیں،ملت جعفریہ 2 واضح دھڑوں میں تقسیم ہے۔ اسلامی تحریک اور مجلس وحدت مسلمین۔ دوسرے دھڑے کی قیادت علامہ راجہ ناصر عباس کے پاس ہے۔ عددی اعتبار سے ایم ڈبلیو ایم کے پاس ووٹ بینک بہ نسبت اسلامی تحریک زیادہ ہے۔ ایم ڈبلیو ایم پورے پاکستان میں زیادہ تر نشستوں پر پاکستان تحریک انصاف کی حمایت کر رہی ہے، جبکہ جھنگ میں احمد لدھیانوی کیخلاف شیخ وقاص اکرم کی حمایت کا اعلان کرچکی ہے۔ مجلس وحدت مسلمین متحدہ مجلس عمل کا حصہ بھی نہیں۔ جہاں تک اسلامی تحریک کی بات ہے، تو اسلامی تحریک کے اپنے ’’پیروکاروں‘‘ نے بھی راہیں جدا کر لی ہیں۔ لاہور کی ممتاز دینی درس گاہ ’’جامعۃ المنتظر‘‘ کو ملتِ جعفریہ میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔ لیکن گذشتہ روز جامعۃ المنتظر نے ’’قائد کے فرمان پر جان بھی قربان ہے‘‘ کا نعرہ لگا کر ووٹ قربان کرنے سے انکار کر دیا اور جامعۃ المنتظر کے مدرسین نے مسلم لیگ (ن) کو ووٹ دینے کا اعلان کر دیا ہے۔

ہم پاکستانی بطور قوم ہی دوہرے معیار کا شکار ہیں۔ مذہبی جماعتیں اس معاملے میں سب سے آگے ہیں۔ جامعۃ المنتظر کے سینیئر مدرس مولانا افضل حیدری، علامہ ساجد علی نقوی کے نمایاں پرستاروں میں سے ہیں۔ جامعہ میں ہونیوالے پروگرامز، جن میں علامہ ساجد علی نقوی صاحب شریک ہوں، مولانا افضل حیدری صاحب جان قربان کے فلک شگاف نعرے لگواتے ہیں، مگر ووٹ قربان کرنے کو تیار نہیں۔ مولانا فضل الرحمان اور پروفیسر ساجد میر بھی اپنے ووٹ متحدہ مجلس عمل کی بجائے مسلم لیگ (ن) کی جھولی میں ڈال رہے ہیں۔ جماعت اسلامی ایک طرف سے تکفیریوں کیخلاف بولتی ہے تو دوسری جانب جھنگ میں ان کی کھلی حامی بھی ہے۔ یہ دوہرا معیار ہی ہے، جو پاکستان میں مذہبی قوتوں کی ناکامی کا سبب بنتا آ رہا ہے۔

ایک واقف حال کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے شریف برادران کے ایما پر ہی یہ اتحاد تشکیل دیا ہے، تاکہ اس کا فائدہ مسلم لیگ (ن) کو پہنچایا جائے اور کے پی میں بالخصوص تحریک انصاف کا ووٹ توڑا جائے۔ راقم کے خیال میں مولانا فضل الرحمان اس مقصد میں کامیاب قرار پائے ہیں۔ باقی رہ گئے ہم جیسے عام کارکن، تو ہم نعرے ہی لگاتے رہیں گے، قائد کے فرمان پر جان بھی قربان ہے، مگر جب امتحان کا دن آئے گا تو ہم بھی دستیاب نہیں ہوں گے، کیونکہ ہم نے بھی ووٹ تو سیاسی جماعت کو ہی دینا ہے، مذہبی رہنماؤں کا سیاست میں کیا کام۔؟ مذہبی رہنما نمازیں، نکاح اور جنازے پڑھائیں، سیاست سیاستدانوں کو کرنے دیں، کیونکہ ملک میں نظام مصطفٰی(ص) نافذ ہوگیا تو دوہرا معیار اپنی موت آپ مر جائے گا اور ہم اسے مرنے نہیں دیں گے۔
قیادتوں کے جنوں میں، جن کے قدم لہو سے رنگے ہوئے تھے
ہمارے بس میں نہیں تھا، اُنہیں عزت مآب لکھتے
خبر کا کوڈ : 737016
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

irshad hussain
Pakistan
bohat acha likha h, aaena dikhaya h
قاسم علی رضوی
Iran, Islamic Republic of
میں وحدت بین المومنین کا متمنی ہوں، لیکن وحدت بین المسلمین کا خصوصاً پاکستان میں بالکل قائل نہیں ہوں، جسکی وجہ مذکورہ کالم (قائد کے فرمان۔۔۔) میں بیان ہوئی ہے اور میرا پکا ایمان ہے کہ mma
(m منافق m مولویوں کا a الائنس) نہ فقط دین اور دیس کے لئے بےسود ہے بلکہ مھلک اور ضرر رسان ہے، کیونکہ اس کی بنیاد منافقت اور عداوت پر مبنی ہے۔
ہماری پیشکش