0
Saturday 17 Mar 2012 01:24

افغانستان کا مستقبل

افغانستان کا مستقبل
 تحریر: رشید احمد صدیقی 

افغانستان میں اس وقت پانچ قوتیں مختلف حیثیتوں سے مصروف عمل ہیں، امریکہ، کرزئی حکومت، طالبان، القاعدہ اور گلبدین حکمتیار۔ چالیس سال سے شورش زدہ ملک کا مستقبل کیا ہو گا، یہ آج کا ہم سوال ہے۔۔۔۔ ذیل میں اس حوالے سے ایک تجزیہ پیش خدمت ہے۔ 

امریکہ

2001ء میں امریکہ جن مقاصد کے لیے افغانستان آیا تھا۔ ان میں سے ایک بھی حاصل نہ ہو سکا۔ اب اس کے اندر سیاسی ادارے اور دانشور اس کو لاحاصل جنگ قرار دے رہے ہیں۔ اس کی اقتصادی صورت حاصل اس قابل ہرگز نہیں رہی کہ یہاں مزید قیام کر سکے۔ یہاں پر ہونے والا جانی نقصان بھی امریکہ کے عام شہری کے لیے ناقابل برداشت ہو چکا ہے۔ تقریباً تمام دنیا اس بات پر متفق ہے کہ جلد یا بدیر اس کو یہاں سے جانا ہو گا۔ ماضی قریب میں سویت یونین بھی یہاں اسی انداز میں آیا تھا بلکہ جغرافیائی طور پر قریب اور پڑوسی ہونے کی وجہ سے اس کے لیے امریکہ کے مقابلے میں آسانیاں بہت تھیں۔ 

وہ اپنے فوجی جوانوں کو ہر چند ماہ بعد واپس لے جا کر دوسرے بھیج سکتا تھا، امریکہ کے لیے ایسا کرنا فاصلہ طویل ہونے کی وجہ سے ناممکن ہے۔ سویت یونین میں رائے کی آزادی نہ ہونے کے برابر تھی۔ چنانچہ اسے سیاسی اور عوامی سطح پر کسی مزاحمت کا سامنا نہ تھا۔ امریکہ میں تو صدر کو بھی ہر چار سال بعد عوام کے سامنے براہ راست جانا پڑتا ہے۔ چنانچہ وہ اپنے چاروں سال انتخابی مہم کے طور پر گذارتے ہیں۔ افغانستان سے امریکہ کی واپسی کے لیے دلائل کافی زیادہ ہیں اور شواہد بھی یہی بتا رہے ہیں کہ اس کا جانا ٹھہر گیا ہے۔ مستقبل میں جو بھی منظر نامہ بنے گا، امریکہ کا کردار اس میں یوں بھی ہو گا کہ موجودہ صورتحال اسی کی پیدا کردہ ہے۔ چنانچہ اسی کا وزن بھی اسی مناسبت سے ہو گا۔ 

کرزئی حکومت
موجودہ صدر کرزئی کو کوئی مانے یا مانے لیکن کابل کے قصر صدارت میں وہی بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان کی حکومت بظاہر چوں چوں کا مربہ ہے، لیکن سرکاری مشینری اسی کے پاس ہے۔ امریکہ کی حمایت اسے حاصل ہے اور ایوانوں پر اسی کا قبضہ ہے۔ اس لیے مستقبل کی نقشہ کشی میں ان کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس حکومت میں ماضی کے مجاہدین بھی ہیں اور کمیونسٹ بھی۔ مجاہد رہنمائوں میں اہم ترین پروفیسر برہان الدین ربانی اور احمد شاہ مسعود اب دنیا میں نہیں رہے۔ قابل ذکر لوگوں میں پروفیسر عبدرسول سیاف ہیں لیکن ان کا دائرہ اثر اب کرزئی کے دائرہ میں مدغم ہو چکا ہے۔ کمیونسٹ رہنمائوں میں بھی ملک گیر شہرت کی فعال شخصیت شائد ہی کوئی ہو۔ اس لیے ان سب کے مشترکہ نمائندے کے طور حامد کرزئی سے ہی معاملہ کیا جائے گا۔ ازبک اور تاجک شائد اپنی قیادت سامنے لائیں۔ 

طالبان
اپنی حکومت کے خاتمہ کے بعد یہ لوگ غاروں میں جا چکے تھے۔ انھوں نے کسی بھی مرحلے میں بندوق نہیں رکھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان کی حملہ کرنے اور نقصان پہچانے کی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے۔ گوریلا جنگ کا سب سے بڑا صول طویل مدت تک لڑنا اور نتائج سے قطع نظر اپنے حملے جاری رکھنا ہوتا ہے۔ طالبان اس اصول پر پورے اترے ہیں اور آج پوری دنیا یہ بات تسلیم کرتی ہے کہ افغان حکومت چند شہروں تک محدود ہے۔ باقی ملک طالبان کے زیر اثر ہے۔ کرزئی حکومت پچھلے دس سال میں ادارے بنانے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔ امریکہ کی پشت پناہی میں قومی پولیس اور ملی فوج تشکیل پا چکی ہے لیکن یہ دونوں ادارے حکومت اور امریکہ کے لیے درد سر ثابت ہو رہے ہیں۔ اس حوالے سے Internal Killer کے نام سے ایک اصطلاح سامنے آئی ہے۔ کہ ان اداروں میں موجود جوان سرکاری ہتھیاروں سے امریکیوں اور اپنے اعلٰی افسروں کو مار رہے ہیں۔ اور کوئی پتہ نہیں چلتا کہ کسی پولیس یا فوجی جوان کی افغانیت کی رگ کسی وقت پھڑک اٹھے اور وہ کسی ملکی یا امریکی فوجی کو بھون ڈالے۔ 

طالبان کی قوت کو ہر کوئی تسلیم کرتا ہے۔ اگرچہ ان کی پوری قیادت زیر زمین ہے اور ان کی تنظیم کے بارے میں کوئی نہیں جانتا، لیکن ان کی اہمیت کا اندازہ ان کی کارروائیوں سے لگایا جاتا ہے۔ مستقبل میں ان کا کردار کتنا اہم ہو گا، اس کا اندازہ ان کی پالیسیوں سے لگایا جاتا ہے۔ سیاست اور انتخابات سے وہ یکسر منکر ہیں۔ افغانستان کے اقتدار کے اصل دعویدار وہی ہیں۔ لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ کون ان کو اقتدار پلیٹ میں رکھ کر پیش کرے گا۔ ان کا برسر اقتدار آنے کا طریقہ کار کیا ہو گا۔ کیا ماضی کی طرح وہ ٹینکوں پر بیٹھ کر قصر صدارت میں داخل ہوں گے اور ملک کا انتظام سنبھالیں گے یا ایک نظام کے طور پر اقتدار ان کے حوالے کیا جائے گا۔ اس کا جواب مبہم ہے۔ 

القاعدہ
القاعدہ اور طالبان کا قومی اور بین القوامی نظریہ ایک ہے۔ یہ بھی انتخابات کو غیر اسلامی قرار دیتی ہے۔ مخالف کا ان کے پاس ایک ہی علاج ہے۔ اس کا وجود ردعمل کے طور پر سامنے آیا تھا۔ افغانستان سے سویت افواج کے جانے کے بعد اس نے اپنی کارروائیوں کا رخ امریکہ کی جانب موڑا۔ افغانستان اس کا بیس کیمپ تھا۔ عربی میں بیس کیمپ کو قاعدہ کہتے ہیں، چنانچہ اس کا نام القاعدہ ہی رکھا گیا۔ اب یہ پوری دنیا میں کارراوائیاں کرتی ہے اور موجودہ عرب تحریک میں اس کا فعال کردار ہے۔ لیکن بات وہی ہے کہ جنگ کے بعد حتمی حل کے لیے مذاکرات ہوتے ہیں اور سیاسی فارمولے طے کئے جاتے ہیں۔ انتخابات کی بات ہوتی ہے۔ القاعدہ کے نظریات میں انتخابی عمل کی گنجائش نہیں۔ افغانستان میں یہ لوگ بہر حال غیر ملکی ہیں اور سیاسی حل کی صورت میں ان کو غیر ملکی ہی شمار کیا جائے گا۔ ان کا اثر کتنا ہی کیوں نہ ہو براہ راست ان کو اہم کردار نہیں دیا جائے گا۔ ان کا سارا اثر رسوخ طالبان ہی کے ذریعے عمل کی شکل اختیار کرے گا۔ لیکن دوسری طرف طالبان بھی انتخابی عمل کو ماننے پر تیار نہیں۔ 

گل بدین حکمتیار
سابق افغان وزیر اعظم گل بدین حکمتیار کی جماعت حزب اسلامی نے تمام تر انقلابات میں اپنا وجود نہ صرف قائم رکھا ہے بلکہ آج کل افغانستان کے اندر باقاعدہ کارروائیاں کر رہی ہے۔ وہ خود نامعلوم مقام سے اپنے جہاد کی قیادت کر رہے ہیں۔ طالبان اور القاعدہ کے برعکس وہ انتخابات اور سیاسی فارمولے کی بات کرتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ان کی جماعت سیاسی سطح پر بھی منظم ہونے کی تیاریاں کر رہی ہیں۔ ان کے امریکہ اور حامد کرزئی سے بھی روابط ہیں۔ انتخابات کے حوالہ سے ان کے نظریات جانے پہچانے ہیں اور یہ آج کی دنیا کا مقبول موقف ہے۔ مستقبل میں اسی موقف کو اندرونی اور بیرونی سطح پر خاصی پذیرائی ملنے کا امکان ہے۔ 

حاصل بحث
پچھلے چالیس سال کے دوران افغانوں نے ہر طرح کے حالات دیکھے ہیں۔ سیاست میں مہارت تو ان کی گھٹی میں پڑی ہے لیکن زمانے کے زیر و بم نے ان کو اتنا بالغ نظر ضرور بنایا ہے کہ اب کے بار وہ شائد کسی عارضی حل کو تسلیم نہ کریں اور مستقل حل پر توجہ مرکوز رکھیں۔ عارضی حل مسلط کرنے کی کوشش کا نتیجہ ماضی ہی کی طرح ہو گا۔ اس کا ایک مختصر خاکہ یہ ہو سکتا ہے کہ امریکہ جانے والا ہے اس کو رخصت کیا جائے۔ اس کے ساتھ ایک جانے والے کا معاملہ ہونا چاہیے۔ القاعدہ کی قوت کو تسلیم کیا جائے اور پورے احترام کے ساتھ اس کو اس سطح پر شامل حال کیا جائے کہ اسلامی افغانستان میں مستحکم نظام بنانے میں مدد کرے۔ دیگر تین قوتیں کرزئی، طالبان اور حکمتیار مل بیٹھ کر قابل قبول حل کی جانب بڑھیں۔ پاکستان اور ایران اس کے پڑوسی ہیں۔ دونوں کا کردار پڑوسیوں کا رہے۔ افغانستان کو اپنا زیر اثر ملک بنانے کے بجائے افغانوں کی مل بیٹھ کر اپنے مسائل حل کرنے میں مدد کریں۔۔۔۔۔۔متذکرہ تین قوتوں کو ایک میز پر بٹھانے سے قبل کافی کام کرنا ہو گا۔

ان قوتوں کو ایک دوسرے کی بات سننے پر آمادہ اور قائل کرنا ہو گا۔ مسئلہ اتنا خراب ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ طالبان اور حکمتیار کو ایسے الگ تھلگ رکھا گیا ہے کہ ان کے آپس میں روابط بھی بہت کمزور ہیں، باہر کی دنیا ہر دو سے دور بھاگتی ہے۔ یہ روابط استوار کرنے کے لیے غیر سیاسی اور غیر سرکاری قسم کی شخصیات کو آگے آنا ہو گا۔ معاملہ اتنا طویل المیعاد ہو گیا ہے کہ ایسی شخصیات کا ملنا بھی دشوار ہو گیا ہے۔ لیکن پاکستان کے اندر یہ ایک بہت بڑی غنیمت ہے کہ حمید گل اور قاضی حسین احمد کی صورت میں یہ سہولت موجود ہے۔ ان دو شخصیات کو یہ مشکل کام خود سنبھالنا چاہیے۔ تمام متعلقہ فریقوں میں اثر و رسوخ اگر نہیں تو دونوں کا کافی احترام موجود ہے۔ ان میں یہ صلاحیت ہے کہ اپنے کام کے لیے طریقہ کار بنائیں اور مستحکم افغانستان کے لیے بنیادیں استوار کریں۔
خبر کا کوڈ : 145964
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش