0
Tuesday 7 Jun 2011 07:47

ایک بت اور گرا

ایک بت اور گرا
 تحریر:محمد علی نقوی
ایران کی پارلیمنٹ کی خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کونسل کے رکن پرویز سروری نے کہا ہے کہ یمن کے ڈکٹیٹر کے یمن سے فرار کر جانے سے اس ملک کے عوام کا انقلاب فرسودگی سے بچ گیا۔
فارس نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق پرویز سروری نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ یمن کے انقلاب کو فرسودگی کا شکار بنانا چاہتا تھا کہا کہ انقلاب یمن کی فرسودگی، اس بات کا سبب بنتی کہ امریکی اپنے اقدامات اور منصوبوں کو منظم طریقے سے عملی جامہ پہناتے۔
واضح رہے کہ یمن کے ڈکٹیٹر علی عبداللہ صالح عوام کےاحتجاج میں شدت آنے کے بعد، چار جون کو علاج کے بہانے سعودی عرب فرار کرگئے۔
یمن کے ڈکٹیٹر علی عبداللہ صالح نے سعودی عرب فرار کر کے اس آشوب زدہ ملک کی پر نشیب و فراز تاریخ میں ایک اور باب کا اضافہ کر دیا ہے۔ ڈکٹیٹر کے فرار کی خبر سن کر یمن کے عوام اس قدر خوش ہوئے کہ بے ساختہ سڑکوں پر نکل آئے اور خوشیان منانے لگے، عوام نے دل کھول کر ڈکٹیٹر کے فرار کی خوشیاں منائيں۔ یمنی عوام کی خوشی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے تین دھائيوں سے اس کی تشدد آمیز پالیسیوں کے سامنے مزاحمت کی تھی۔ علی عبداللہ صالح کے فرار کے بعد ان کے نائب عبد ربہ منصور نے صدر کا چارچ سنبھال لیا۔ یمن کی حکمران پارٹی نے اپنی ساکھ بچانے کے لئے یہ پروپگينڈار شروع کر رکھا ہے کہ علی عبداللہ صالح یمن واپس آئيں گے اور دوبارہ اپنی حکومت سنبھال لیں گے، لیکن صالح کے ساتھ بڑی تعداد میں لوگوں کا سعودی عرب جانا اس بات کی علامت ہے کہ اب صالح کے لئے یمن واپسی ممکن نہیں ہے۔
 قابل ذکر ہے علی عبداللہ صالح جمعے کے دن ایوان صدر پر راکٹ حملوں میں زخمی ہوئے تھے، تاہم ان کے زخم ایسے گہرے نہیں تھے جن کے علاج کے لئے انہیں سعودی عرب جانا پڑا۔ سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ علی عبداللہ صالح نے علاج کے بہانے یمن کی قوم سے اپنی جان بچا کر سعودی عرب میں پناہ لی ہے۔ وہ اپنی قوم کے غصے سے بچنے کے لئے فرار ہوئے ہیں۔ یمن کے ڈکٹیٹر نے تین دھائيوں سے زائد عرصے تک یمن پر خود سرانہ حکومت کی۔ انہوں نے بڑی شاطرانہ چالوں سے اپنے سیاسی رقیبوں کو میدان سے نکالا اور عوام کو نت نئي مصیبتوں میں ڈال دیا۔ یمن کی معاشی حالات اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ یمن کا ڈکٹیٹر خود اس ملک کا بے رقیب حکمران سمجھتا تھا اور اپنی حکومت کو موروثی بنانے کے درپئے تھا لیکن عوام جو ان کی پالیسیوں سے سخت پریشان تھے انہوں نے اس بے رقیب حکمران کو اپنی طاقت کا مزہ چکھا دیا، جس کے بعد وہ ملک چھوڑ کر ایسے دیس فرار کر گئے جہاں ان سے پہلے عوامی غصے کے عتاب کا شکار کئي اور ڈکٹیٹر موجود تھے۔ سعودی عرب اس وقت عرب ملکوں کے ڈکٹیٹروں کی پناہ گاہ بن چکا ہے جنہیں کہیں پناہ نہیں مل رہی ہے۔ سعودی عرب اسلامی بیداری کی ان تحریکوں کاسلسلہ تمام عرب ملکوں بالخصوص اپنے ملک میں روکنے کے لئے ہر ممکن ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے۔ سعودی حکمرانوں نے جہاں ایک طرف اپنے ملک کے مشرقی علاقوں سے شروع ہونے والی اسلامی بیداری کو روکنے کی کوشش کی ہے وہیں وہ یہ بھی نہيں چاہتا کہ علاقے کے کسی دوسرے عرب ملک میں انقلابی تحریک کامیاب ہو۔ سعودی عرب علاقے کے عرب ملکوں کی اسلامی تحریکوں کو کنٹرول کرنے کے لئے اپنے مالی وسائل اور سفارتی ذرائع کا بھرپور استعمال کر رہا ہے تاکہ کسی نہ کسی طرح ان تحریکوں کو ان ممالک میں کامیاب ہونے اور اپنے ملک میں سرایت کرنے سے روک سکے۔ سعودی عرب کا ایک قابل غور اقدام، اردن اور مراکش کے سربراہوں کو خلیج فارس تعاون کونسل میں شامل ہونے کی دعوت دینا ہے۔ ایسا نظر آتا ہے کہ ریاض، اردن اور مراکش کو خلیج فارس تعاون کونسل کی رکنیت کی دعوت دے کر، بادشاہوں پر مشتمل ایک ادارہ تشکیل دینا چاہتا ہے اور عرب میں جاری اسلامی بیداری کی تحریکوں کے حامیوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ علاقے کے عرب حکمراں اپنے مفادات کی حفاظت کرنا جانتے ہیں۔ سعودی عرب ہرممکن طریقے سے ان ملکوں میں تبدیلی کو روکنا چاہتا ہے جہاں شاہی نظام ہے اور برسوں سے ایک ہی خاندان کے ڈکٹیٹر حکومت کر رہے ہيں۔ سعودی عرب کی جانب سے بحرین میں سیکڑوں فوجیوں کو بھیجنے اور عوامی تحریک کو کچلنے کے لئے آل خلیفہ کے ساتھ تعاون سے اس نظریے کی تائید و تصدیق ہوتی ہے۔
 ریاض کے حکام اس وقت چارہ کار صرف اس بات میں دیکھ رہے ہيں کہ جس طرح بھی ہو سکے علاقے کے ممالک میں انقلابی تحریکوں کو کنٹرول کریں تاکہ صدیوں سے عرب ممالک میں قائم آمرانہ نظام کو بچا سکیں اور عرب ممالک کے سیاسی نظاموں کے ڈھانچے میں کسی فوری تبدیلی کو روک سکيں۔ سعودی عرب کی جانب سے مصر کے معزول ڈکٹیٹر حسنی مبارک کی منصوب فوجی کونسل کو مضبوط کرنے کے لئے اسے چار ارب ڈالر کی مدد، یمن کے ڈکٹیٹر علی عبداللہ صالح کو پناہ دینا، اور علاقے کے ممالک کے بادشاہوں کو ایک متحدہ محاذ تشکیل دینے کی دعوت، مشرق وسطٰی کے عرب ملکوں میں اصلاح پسندی اور اسلامی بیداری کے آغاز پر سعودی عرب کی تشویش کی عکاسی کرتی ہے۔
ادھر علی عبداللہ صالح کے محالفین نے کہا ہے کہ انہیں ملک واپس آنے کا موقع نہيں دیا جائے گا۔ یمن کے ایک انقلابی رہنما نے کہا ہےکہ صالح کی واپسی سے یمن ایک بڑے بحران سے دوچار ہو جائے گا۔ یمن میں متعدد قبیلے پائے جاتے ہیں جو سب کے سب مسلح ہیں۔ ایسے حالات میں جبکہ علی عبداللہ صالح کے خلاف شدید نفرت پھیل چکی ہے اور جنوبی علاقوں میں القاعدہ جیسی تنظیمیں بھی سرگرم عمل ہو چکی ہیں، سابق ڈکٹیٹر کا وطن واپس آنا دوبارہ ملک کو آگ اور خون کے جہنم میں دھکیل سکتا ہے۔ اس بات میں کوئي شک نہيں کہ علی عبداللہ صالح کے فرار کے بعد یمن ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ عوام نے صالح کے وزیروں، فوج اور ری پبلیکن گارڈز سے اپیل کی ہے کہ صالح سے بیزاری کا اظہار کر کے انقلابی عوام کے ساتھ مل جائيں اور ملت کی آغوش میں چلے آئيں، تاکہ ملک ایک نیا آغاز کر سکے۔
اس میں کوئی شک نہيں کہ علاقے کے عرب ممالک کو نئی صورت حال کا سامنا ہے۔ ایک نیا مشرق وسطٰی وجود میں آیا چاہتا ہے جسے کوئی بھی عرب حکمراں سوچ بھی نہيں سکتا، اس بیچ جو چیز نمایاں ہے وہ یہ ہے کہ عوامی تحریکوں کے نتیجے میں عرب ممالک کے سیاسی نظام میں تبدیل ناگزیر ہو چکی ہے اور سعودی عرب بھی اس قاعدے سے مثتثنٰی نہيں ہے اور سعودی حکمرانوں کی جانب سے علاقے کی انقلابی تحریکوں کو روکنے کے لئے تمام اخراجات اور سعی و کوشش کے باوجود، جلد یا بدیر انھیں عوامی مطالبات کے سامنے جھکنا ہی پڑے گا اور اصلاح پسندی کی راہ پر چلنا ہی پڑے گا۔
خبر کا کوڈ : 77301
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش