0
Thursday 23 Jun 2011 08:22

اقوام متحدہ سے مدد طلب

اقوام متحدہ سے مدد طلب
تحریر:محمد علی نقوی
 عراقی پارلمینٹ کے نمائندوں نے اقوام متحدہ کے نام ایک خط ارسال کر کے امریکی اداروں اور کمپنیوں پر عراقی تیل کی رقم چوری کرنے کا الزام لگاتے ہوئے اس بین الاقوامی ادارے سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ تیل کا چوری شدہ پیسہ واپس دلانے کے لیے عراق کی مدد کرے۔ عراقی پارلیمنٹ کی مالی بدعنوانی کا مقابلہ کرنے والی کمیٹی نے اعلان کیا ہے کہ امریکی کمپنیوں نے عراقی تیل کی فروخت سے حاصل ہونے والی سترہ ارب ڈالر کی رقم کہ جو اس ملک کی تعمیرنو پر خرچ ہونی چاہیے تھی، خورد برد کر لی ہے۔ عراقی پارلیمنٹ کے نمائندوں نے اقوام متحدہ کے نام پچاس صفحات پر مشتمل خط میں امریکہ کی جانب سے عراقی دولت کی چوری کو مالی جرم قرار دیا ہے۔
اس سے قبل عراقی کی تعمیرنو کے امدادی فنڈ کے نگران، خصوصی امریکی آڈیٹر اسٹوارٹ بوئن نے بھی کہا تھا کہ اس امدادی فنڈ کے بجٹ میں سے چھ ارب ڈالر غائب ہو گئے ہیں۔ انہوں نے امریکی وزارت دفاع کو عراق کے خورد برد ہونے والے پیسوں کا پتہ لگانے سے چشم پوشی کرنے کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق عراق کی تعمیر نو کے فنڈ میں سے غائب ہونے والے پیسے اس سے کہیں زیادہ ہیں کہ جس کا اعلان امریکی آڈیٹر نے کیا ہے۔ عراقی حکام کا کہنا ہے کہ عراق کی تعمیرنو کے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے اٹھارہ ارب ڈالر سے زائد رقم غائب ہوئی ہے۔
صیہونی حکام نے دو ہزار تین میں صدام کی آمریت کے خاتمے اور عراق پر امریکہ کے قبضے کے بعد سے، عراق کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنا لیا اور اس وقت سے سینکڑوں صیہونی کمپنیاں، عراق میں مختلف صنعتی اور تجارتی شعبوں میں فعالیت کر رہی ہيں۔ قابل غور نکتہ یہ ہے کہ یہ اسرائیلی کمپنیاں مختلف عربی و انگریزی ناموں سے عراق میں سرگرم عمل ہیں۔ اقتصادی سرگرمیوں کے علاوہ وہ دو ہزار تین سے سینکڑوں صیہونی یہودی، ناحوس، یونس، دانیال، حزقیل اور دوسرے انبیائے بنی اسرائیل کے مقبروں کی زيارت کے بہانے عراق کا سفر کرتے ہیں اور بعض صیہونی سرمایہ کار شمالی عراق کے علاقوں پر تاریخی ارضی دعوؤں کے ذریعے اس علاقے کی زمینیں خریدتے ہيں۔
امریکی صحافی وین میڈسین نے شمالی عراق میں صیہونیوں کی جانب سے کمپنیاں قائم کرنے کے منصوبے کی خبر دی ہے۔ صیہونی حکام، نیل سے فرات تک گریٹر اسرائیل کی آيئڈیالوجی کے تحت، عراق میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش میں ہيں تاکہ خود کو علاقائی تنہائی سے نکالنے کے ساتھ ہی عراق میں صیہونی مصنوعات کے لئے منڈی بھی حاصل کر سکیں۔
یہ ایسے عالم میں ہے کہ بغداد حکام، عراق میں بدامنی پیدا کرنے میں صیہونی حکومت کے کردار اور اس کی سازشوں کو سمجھتے ہوئے اس حکومت کے خلاف ٹھوس اقدامات کرنے پر تاکید کرتے ہيں۔ عراقی حکام نے صیہونی حکام اور عراقی کردستان کے حکام کے درمیان ہر طرح کے رابطے اور اس کے منفی نتائج کے سلسلے میں بھی خبردار کیا ہے۔ 
عراق کے بارے میں غاصب صیہونی حکومت کی پالیسیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ عراق میں موجودہ حکومت غاصب اسرائیلی حکومت کے اہداف کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ غاصب صیہونی حکومت عراق کے وسیع و عریض قدرتی ذخائر پر لالچی نظریں گاڑے ہوئے ہے اور اسی مقصد کے حصول کے لئے وہ نہ صرف عراق کے حصّے بخرے کرنا چاہتی ہے بلکہ اسے علاقائی اور عالمی سیاست میں بھی تنہا کرنے کی خواہشمند ہے۔ غاصب صیہونی حکومت کی داخلی سلامتی کے ایک سابق وزیر آوی ڈیختر نے جو بیان دیا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ اسرائیل عراق کے بارے میں کیا منصوبے رکھتا ہے۔ سابق صیہونی وزير ڈیختر نے انکشاف کیا ہے کہ عراق کے شمالی علاقے میں ایک علیحدہ کرد ریاست کا قیام اسرائیلی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔ اس سابق صیہونی وزیر نے اعتراف کیا ہے کہ ہماری حکومت کا بڑا ہدف یہ تھا کہ کردوں کی ہتھیاروں اور دیگر ذرائع سے بھرپور حمایت کی جائے اور ان کی ہر طرح کی فوجی تربیت اور مالی معاونت کی جائے تاکہ دنیا کے تیل کے ان عظیم ذخائر پر ایک کرد حکومت تشکیل پا جائے۔ آوی ڈیختر نے عراق میں کرد ریاست کے قیام کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ مختصر یہ ہے کہ غاصب صیہونی حکومت عراق کو تقسیم کر کے ایک نئی کرد حکومت بنانے میں انتہائي سنجیدہ تھی اور اس نے اس حوالے سے متعدد اقدام بھی انجام دیئے ہیں۔ سنہ دو ہزار تین میں جب امریکی فوجوں نے عراق پر قبضہ کیا تو غاصب صیہونی حکومت کو عراق کو تقسیم کرنے کے ایجنڈے پر عمل درآمد کرنے کا سنہری موقع ہاتھ آ گیا۔ عراق پر امریکی حملے سے لیکر اب تک غاصب صیہونی حکومت نے نہ صرف بعض کرد رہنماؤں سے اپنے تعلقات استوار کئے بلکہ کرد علاقوں میں نئی نئی غیر ملکی کمپنیاں بھیج کر انہیں بھی یہی اہداف دیئے۔ 
اس وقت بھی ایک بڑی تعداد میں ملٹی نیشنل کمپنیاں تجارت، اقتصاد، میڈیکل، حتّٰی تیل نکالنے کے بہانے صیہونی اہداف کی تکمیل کر رہی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کردستان میں مصروف عمل ان کمپنیوں کے نام غیر عبری اور عموما" عربی اور انگریزی زبانوں میں ہیں لیکن ان کے پیچھے صیہونی ہاتھ کارفرما ہے، یہ کمپنیاں سیکورٹی کے سخت ترین حالات میں مصروف کار ہیں اور اس نفع بخش منڈی کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ عراق کی تقسیم امریکہ کے ایجنڈے میں بھی شامل ہے لیکن اسرائیل کا کردار قدرے زيادہ ہے، یہی وجہ ہے کہ عراق پر امریکی قبضے کے دوران اسرائیل نے عراق میں اپنی پوزیشن کو کافی مستحکم کر لیا ہے اور اسرائیل کے بعض کرد رہنماؤں سے انتہائي قریبی تعلقات ہیں۔ اس میں بھی کوئي شک و شبہ نہیں کہ عراق میں اسرائیل کے حوالے سے ایک خاص حساسیت پائی جاتی ہے، عراقی عوام غاصب صیہونی حکومت کو اپنا دشمن تصور کرتے ہیں اور علاقے میں اسرائیلی سیاست سے خوش نہیں ہیں، لہذا غاصب صیہونی حکومت عربوں، انگریزوں اور حتّٰی کردوں کے روپ میں اپنے مقاصد کو آگے بڑھا رہی ہے۔ عراق پر امریکہ کا تسلط اور قبضہ جتنا طویل ہو گا اس کا فائدہ غاصب صیہونی حکومت کو بھی پہنچے گا اور وہ اطمینان اور آسانی سے عراق کو تقسیم کرنے کے ایجنڈے پر کام کرتا رہے گا، لیکن اگر عراق سے امریکیوں کا فوجی انخلاء ہو جاتا ہے تو اسرائیل کے لئے مشکلات بڑھ جائیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل عراق پر امریکی قبضے میں مزيد اضافے کا قائل ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کے انہی اہداف کی وجہ سے عراق کی سیاسی و مذہبی قیادت امریکی فوج کے فوری انخلا اور بیرونی مداخلت کے خاتمے پر زور دے رہی ہے۔ عراقی عوام اور قیادت کا کہنا ہے کہ باہمی اتحاد و یکجہتی سے ہی ملک کو غیرملکی قبضے اور بیرونی مداخلت سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔
 اب جبکہ عراق نے خوردبرد کا الزام امریکہ پر لگایا ہے اور عراقی حکام نے امریکی اداروں کو کہ جن میں سے بعض واشنگٹن کے اعلٰی حکام اور غاصب صیہونی حکومت سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے پاس عراق میں بڑے بڑے تعمیراتی پروگراموں کے ٹھیکے ہیں، عراقی دولت لوٹنے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود عراق اپنی دولت لوٹنے والے ان امریکی اداروں اور کمپنیوں کے خلاف کوئی اقدام نہیں کر سکتا۔ عراقی حکومت عراق کے خلاف سلامتی کونسل کی مختلف قراردادوں کو اس ملک کی دولت لوٹنے والے امریکیوں کے خلاف قانونی اقدام کی راہ میں رکاوٹ سمجھتی ہے اس لیے عراقی پارلیمنٹ کے نمائندوں نے اقوام متحدہ سے اس سلسلے میں مدد طلب کی ہے۔
مصنف :
خبر کا کوڈ : 80450
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش