0
Thursday 27 Feb 2020 09:12

کسی بھی مظلوم کی مدد اور حمایت کرنا میرا بلکہ ہر مسلمان کا فرض ہے، علامہ سید عابد الحسینی

کسی بھی مظلوم کی مدد اور حمایت کرنا میرا بلکہ ہر مسلمان کا فرض ہے، علامہ سید عابد الحسینی
علامہ سید عابد حسین الحسینی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ وہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اور اسکے بعد تحریک جعفریہ میں صوبائی صدر اور سینیئر نائب صدر کے عہدوں پر فائز رہنے کے علاوہ ایک طویل مدت تک تحریک کی سپریم کونسل اور آئی ایس او کی مجلس نظارت کے رکن بھی رہے۔ 1997ء میں پاکستان کے ایوان بالا (سینیٹ) کے رکن منتخب ہوئے، جبکہ آج کل علاقائی سطح پر تین مدارس دینیہ کی نظارت کے علاوہ تحریک حسینی کے سرپرست اعلٰی کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے انکے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا ہے، جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: علامہ صاحب، بالش خیل کے حوالے سے آپ نے ایک ایجیٹیشن شروع کیا تھا، اسکے اسباب کیا تھے۔؟
علامہ سید عابد الحسینی:
 بیشک! جمعہ 7 فروری کو ہم نے بالش خیل کی جامع مسجد میں نماز جمعہ سے ایک تحریک کا آغاز کیا، عوامی بیداری اور حکومت کو احساس دلانا ہمارا بنیادی مقصد تھا اور اب بھی ہے۔ مسئلے سے آپ سب ماشاء اللہ آگاہ ہیں کہ طوری قبائل کی 9 ہزار جریب سے کچھ زیادہ اراضی پر ایک نان لوکل قبیلے پاڑہ چمکنی نے قبضہ جما رکھا ہے اور وہاں غیر قانونی طور پر مکانات تعمیر کر رہے ہیں، جبکہ حکومت کی انہیں کافی حد تک کمک بھی حاصل ہے۔ وہ یوں کہ ایک تو بغیر منظوری کے وہ مکانات تعمیر کر رہے ہیں، جبکہ دوسری جانب حکومت انہیں منع کرنے کی بجائے انہیں سرکاری سہولیات جیسے پانی، بجلی اور سڑکیں فراہم کر رہی ہے۔ تو یہی اسباب ہیں کہ ہم نے اس مسئلے کو دوبارہ اٹھایا، جبکہ اس سے 10 سال پہلے بھی ہم نے سمیر عباس کے مقام پر ڈھیرے ڈال کر احتجاج شروع کیا تھا۔ جس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے۔ مگر بدقسمتی سے اس وقت حکومت نے کچھ اور افراد کو درمیان میں لاکر مذاکرات شروع کئے۔ مذاکرات کے عمل نے ہمیں اپنے راستے سے 10 سال دور کیا۔ جس میں مزید اضافے کی بھی گنجائش موجود ہے۔ 

اسلام ٹائمز: سنا ہے کہ اس دن ایک ڈیڈ لائن بھی مقرر ہوئی تھی، اب معلوم ہو رہا ہے کہ تحریک دم توڑ گئی ہے۔؟
علامہ سید عابد الحسینی:
ہاں بالکل! اس دن جوانوں کی جانب سے ایک ڈیٹ فکس کی گئی، یعنی ڈیڈ لائند دی گئی کہ اگلے جمعے کو اہلیان بالش خیل آباد کاری کرانے کی غرض سے میٹریل فراہم کرنا شروع کر دیںگے۔ تاہم اسی دن حکومت نے مرکز کو مذاکرات کے ذریعے اس دیرینہ مسئلے کا حل نکالنے کی پیشکش کی۔ چنانچہ مرکز نے مسئلے کے حل کا بیڑا اٹھا لیا۔ تو مذاکرات کے دوران از خود ایک اقدام کرنا اکثر عمائدین اور ہماری تحریک کے رہنماؤں نے مناسب نہ سمجھا۔ لہذا تحریک دم توڑ نہیں گئی بلکہ مذاکرات کا عمل باقاعدہ طور پر شروع ہے۔ اگر مذاکرات سے کچھ نہیں ہوا تو ہم اپنا اگلا لائحہ عمل تیار کریں گے۔

اسلام ٹائمز: مرکز نے اس حوالے سے کہاں تک کام کیا؟ اس دوران آپ سے بھی کوئی رابطہ کیا گیا۔؟
علامہ سید عابد الحسینی:
انہوں نے شاید رابطے کئے ہونگے، تفصیلات کا تو مجھے علم نہیں، تاہم اتنا پتہ ہے کہ انہوں نے تحریک سے بھی رابطہ کیا تھا۔ انہوں نے مسئلے کے حل کے لئے شاید 80 کے لگ بھگ عمائدین پر مشتمل ایک گرینڈ جرگہ تشکیل دیا۔ اگرچہ میں بذات خود ہر مسئلے کے لئے جرگہ یا کمیٹی بنانے کے حق میں نہیں ہوں۔ کیونکہ جب کسی مسئلے کے حل کے لئے عملی کام کی بجائے کمیٹیاں بنانی پڑیں تو مسئلہ سلجھ جانے کی بجائے مزید الجھ سکتا ہے۔ میرے خیال میں ہونا یوں چاہیئے تھا کہ مرکز اور تحریک آپس میں مل بیٹھ کر مشترکہ طور پر ایک جرگہ بنا لیتے، جس میں تحریک اور مرکز کے اپنے رہنماؤں کے علاوہ قوم کے اہم عمائدین بھی شامل ہوتے تو ایسی صورت میں باہمی اعتماد کے ساتھ یہ مسئلہ آگے بڑھتا۔ تاہم ہم مسائل کا حل چاہتے ہیں، مسائل پیدا کرنا نہیں چاہتے۔ مرکز نے اس کام کا بیڑا اٹھا لیا ہے۔ ان شاء اللہ وہ خلوص اور محنت کے ساتھ مسئلے کا حل نکالیں گے۔ تاہم ہمیں چاہیئے کہ دیر نہ کریں، کیونکہ مسئلے کو 12 سال پہلے ہی گزر چکے ہیں، مزید دیر کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔

اسلام ٹائمز: سنا ہے کہ حکومت خصوصاً فوجی انتظامیہ سے اس سلسلے میں آپکے مذاکرات ہوچکے ہیں، ایسی کوئی خبر ہے تو اسلام ٹائمز کیساتھ شیئر کریں۔؟
علامہ سید عابد الحسینی:
جی ہاں بالش خیل میں جمعہ کے انعقاد کے چند ہی دن بعد فوجی کمانڈر بریگیڈئر نجف عباس صاحب اپنے عملے سمیت ہمارے پاس آئے۔ ان کے ساتھ اس حوالے سے تفصیلی گفتگو ہوئی۔ وہ اس سلسلے میں مہلت چاہتے تھے۔ مگر ہم نے کہا کہ انہی مہلتوں کی وجہ سے مسئلے کو 12 سال ہوچکے ہیں۔ مزید مہلتوں کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہم نے کہا کہ اگر مسئلے کا حل آپ کے بس میں ہے۔ حالانکہ سب کچھ آپکے بس میں ہے، کاغذات مال آپکے پاس ہیں، جبکہ حکومت اور طاقت بھی آپکے پاس ہے، چنانچہ دو دن کے اندر اس پر کام شروع کیا جائے۔ ورنہ ہماری تو جائیداد ہے۔ اپنی ناموس، مذہب اور جائیداد کے لئے قیام کرنا ہر مذہبی انسان کا فرض ہے۔

اسلام ٹائمز: انتظامیہ  کیجانب سے کوئی مثبت عمل دیکھنے میں آیا۔؟
علامہ سید عابد الحسینی:
بالکل انہوں نے ہاں کر دی اور شاید اگلے ہی دن یا دو دن بعد شیعہ سنی جرگہ کا انعقاد کیا۔ علماء کانفرنس بلائی۔ یوسف حسین جعفری کا کہنا ہے کہ انتظامیہ مسئلے کے حل کیلئے مسلسل جدوجہد میں مصروف ہے۔ انکا کہنا ہے کہ تحریک اور انجمن کے فوجی اور سول انتظامیہ کے ساتھ مشترکہ جرگے ہو رہے ہیں۔ انکا وعدہ ہے کہ ہر صورت میں مسئلے کا حل نکالا جائے گا۔ یہ باتیں ہم نے مولانا یوسف حسین سے سنی ہیں۔ اب وہ یقیناً مسئلے کا حل چاہتے ہیں۔ اسکا علم اللہ تعالیٰ کو ہے۔

اسلام ٹائمز: اگر مسئلہ طول پکڑ گیا اور حل نہ ہوا تو آپکا ردعمل کیا ہوگا؟ اور یہ کہ بالش خیل والوں نے اگر خود ہی اس سے صرف نظر کر دیا، تو آپکا ردعمل کیا ہوگا۔؟
علامہ سید عابد الحسینی
:
بالش خیل اور ابراہیم زئی والے جو کہیں گے، ہم انکے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہونگے۔ ہمارا کام ہے مظلوم کی کمک کرنا۔ مظلوم خواہ کوئی بھی ہو، ہمارے پاس منگل، پاڑے اور مقبل تک آتے ہیں۔ ہم نے ہر سطح پر ان کی فریاد رسی کی ہے۔ اب بالش خیل اور ابراہیم زئی والے اگر خود ہی تسلیم ہوگئے یا اپنی زمین کسی کو فروخت کرتے ہیں یا کسی کو مکمل طور پر ہبہ کرتے ہیں تو ہماری کیا غرض ہے۔ ہاں اگر ایک دو یا چند افراد پوری قوم (قبیلے) کی پوری زمین فروخت کرنا چاہیں، جس کی نہ شریعت اجازت دیتی ہے، نہ ہی ملکی قانون تو اس دوران اگر قبیلے والا محروم اور مظلوم طبقہ ہمارے پاس آکر داد رسی طلب کرے تو اس کی کمک کرنا ہمارا فرض ہے۔

اسلام ٹائمز: علی زئی اور غنڈی خیل کیساتھ مقبل کے مسئلے نے بھی سر اٹھا لیا ہے اور اس میں بھی مبینہ طور پر آپ ہی ملوث قرار دیئے جا رہے ہیں، اسکی حقیقت کیا ہے۔؟
علامہ سید عابد الحسینی:
دیکھیں، کوئی بھی مسئلہ ہو، بطور ایک مسلمان، پھر ایک قومی تنظیم اور عالم دین کے ہمارا قومی فرض بنتا ہے کہ ہر مظلوم کی مدد کریں۔ کیونکہ معصوم کا قول ہے۔ کونو لظالم خصما و لمظلوم عونا (یعنی ہر ظالم کی مخالفت کرو جبکہ ہر مظلوم  حمایت کرو)۔ خواہ وہ کوئی بھی ہو، یعنی مظلوم خواہ غیر مسلم ہو اور ظالم مسلمان کیوں نہ ہو، جبکہ علی زئی غنڈی خیل کا جو مسئلہ ہے، وہ ایک قومی مسئلہ ہونے کے علاوہ میرا ذاتی مسئلہ بھی ہے، یعنی اس میں تو میرا ذاتی نفع و نقصان بھی شامل ہے۔ میرا قومی فرض ایک طرف جبکہ یہ تو اپنا ہی لوکل مسئلہ ہے۔ بالش خیل مسئلے کا انحصار تو صرف بالش خیل پر ہے۔ بالفرض اگر بالش خیل متفقہ طور پر اپنی زمین چمکنی قبیلے کو فروخت کرنے کا ارادہ کریں تو میرا اس حوالے سے کوئی تعلق نہیں رہے گا، جبکہ علی زئی غنڈی خیل کے مسئلے میں تو میں خود ایک فریق کی حیثیت رکھتا ہوں۔ اس سے میں کسی صورت میں صرف نظر نہیں کرسکتا۔ اس میں میرا مشورہ سنا بھی جائے گا اور کسی بھی فیصلے میں میری رائے ضرور ہوگی۔
خبر کا کوڈ : 847074
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش