0
Tuesday 18 Feb 2014 13:27

حکومت و ریاست نے اپنی پیدا کردہ قوتوں کیساتھ مذاکرات کیلئے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں، سردار اختر جان مینگل

حکومت و ریاست نے اپنی پیدا کردہ قوتوں کیساتھ مذاکرات کیلئے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں، سردار اختر جان مینگل

اسلام ٹائمز۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے حکومت و ریاست نے اپنی پیدا کردہ قوتوں کے ساتھ مذاکرات کیلئے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں لیکن بلوچوں کے ساتھ مذاکرات نہیں کئے جاتے۔ ماضی میں بھی دل بہلانے کیلئے مذاکرات کئے گئے ہیں۔ سنجیدگی کا عنصر شامل نہیں تھا۔ بلوچستان کسی کیلئے بھی اقتدار کی سیڑھی نہیں رہا۔ اس لئے یہاں کیا ہو رہا ہے، کون مارا جارہا ہے۔ حکمرانوں کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ بس ان کی حکمرانی قائم و دائم رہنی چاہیئے۔ بلوچ قوم پرست رہنما نے کہا کہ طالبان سے مذاکرات کیلئے حکومتی کوششوں سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جن کے ساتھ مذاکرات کئے جا رہے ہیں، ان سے حکومت خوفزدہ ہے یا ان قوتوں نے اتنا پریشان کردیا ہے کہ مجبوراً وہ مذاکرات کی میز پر آئی ہوئی ہے۔ دوسرا جو مجھے لگتا ہے جن سے مذاکرات کئے جا رہے ہیں وہ تو خود ان کی اپنی پیداوار ہیں۔ ان کی اپنی تخلیق ہیں۔ اگر اس کا موازنہ بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں تو وہ بالکل مختلف ہے۔ بلوچستان کے لوگوں کو تو روز اول سے اپنا سمجھا ہی نہیں گیا۔ بلوچستان کو تو کالونی سمجھ کر اس پر ہمیشہ حکمرانی کی گئی ہے۔ ماضی میں بھی اگر مذاکرات کئے گئے تو وہ لوگوں کے دل بہلانے کیلئے کئے گئے ہیں۔ بامقصد مذاکرات نہیں کئے گئے۔ بلوچ مسلح تنظیموں کی کارروائیوں سے جہاں عام لوگ متاثر ہوتے ہیں یا بےگناہ مارے جاتے ہیں، ایسی کارروائیوں کی ہم نے تو کبھی حمایت نہیں کی۔ لیکن یہ سوچنا چاہیئے کہ آخر وہ آج اس نہج تک کیوں اور کیسے پہنچے ہیں۔ اختر مینگل کا کہنا تھا کہ وہ کونسے حالات و محرکات تھے، جنہوں ان لوگوں کو اس نہج تک پہنچایا ہے۔ امکانات یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ انہوں نے دیکھا دیکھی میں اپنی کارروائیوں اور حملوں میں تیزی دکھانا شروع کردی ہے کہ سرکار جب زور آور کے ساتھ مذاکرات کرسکتی ہے تو ممکن ہے کہ بلوچستان کے عسکریت پسند بھی اپنی زور آمائی کا شوق پورا کر رہے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں اختر مینگل نے کہا کہ بےگناہ لوگوں کے مارے جانے پر تو شاید یہ مسلح گروہ کچھ حاصل نہ کر سکیں لیکن دوسری جانب بھی تو دیکھیں، کہ یہ تو انہیں کالعدم تنظیموں کا نام دیا جا رہا ہے جن پر ملکی و عالمی سطح پر پابندی لگائی جا رہی ہے، لیکن ایک ریاست و ملک جب خود ایسے واقعات میں ملوث ہوں۔ جس کے ادارے معصوم و بےگناہ لوگوں کے قتل عام میں ملوث ہوں، جہاں اجتماعی قبروں کی دریافت ہوتی ہو، جہاں مسخ شدہ لاشوں کے ملنے کا سلسلہ ختم نہ ہوتا ہو، جہاں لوگ اپنے پیاروں کو ڈھونڈنے کیلئے کوئٹہ سے کراچی اور پھر کراچی سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کر رہے ہیں۔ ان کی کہیں شنوائی نہ ہو رہی ہو تو پھر لوگ اور کیا کریں گے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم اس کی وضاحت کرتے ہیں کہ موجودہ حکومت کے روز اول سے نہ تو حصہ ہیں اور نہ ہی حصہ دار رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم نے انتخابات میں حصہ لیا اور پارلیمنٹ میں آئے ہیں۔ جمہوری عمل کا حصہ بننے کی کوشش کی ہے لیکن گیارہ مئی 2013ء کے عام انتخابات کے نتائج سے ہمارے قدم بھی لڑ کھڑانے لگے ہیں اور ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ جمہوری عمل کا حصہ بننے سے متعلق ہمارا جو فیصلہ تھا وہ درست تھا کہ نہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ جس جمہوری عمل کا حصہ ہم بنے ہیں، روز اول سے اس جمہوری عمل کا حصہ بننے کی اجازت ہمیں نہیں دی جاتی تھی۔ جس طرح دوسروں کو ہتھیار اٹھانے اور عسکریت پسندی پر مجبور کیا گیا ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ وہ ہماری پرامن جماعت کو بھی اس جانب دھکیلیں گے اور مجبور ہو کر ہمارے لوگ بھی بندوق کا نہیں تو اپنے دفاع کیلئے لاٹھی کا سہارا تو لیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں سردار اختر مینگل نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں مسلح فریقین کی لڑائی میں نقصان تو عام لوگوں کا ہو رہا ہے۔ جن کے ہاتھ میں بندوق ہے اور جن کے پاس طاقت ہے وہ تو بند کمروں میں سکون سے بیٹھے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ موجودہ حکومت نے روز اول سے بلوچستان کے مسئلہ کو سنجیدگی سے لیا ہی نہیں ہے۔ وہ صرف اپنے اقتدار کے دن گذار رہے ہیں کیونکہ بلوچستان حکمرانوں کے لئے اقتدار کی سیڑھی نہیں رہا۔ جو اقتدار تک پہنچانے یا اس کو گرانے میں شامل ہوں۔ اس لئے یہاں کوئی مارا جائے، بلوچ ہو پشتون ہو یا آباد کار ہوں۔ انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں۔ بس ان کی حکمرانی قائم و دائم رہے وہ بلوچستان کی جانب کبھی نہیں دیکھتے۔

خبر کا کوڈ : 352845
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش