6
0
Wednesday 25 Jun 2014 20:35

اسکردو انتظامیہ کا شرمناک اقدام، مسجد و علم پاک گرانیکی کوشش، ردعمل پر 9 جوان گرفتار

اسکردو انتظامیہ کا شرمناک اقدام، مسجد و علم پاک گرانیکی کوشش، ردعمل پر 9 جوان گرفتار
رپورٹ: علی عباس پاروی

علماء کی سرزمین، بلاد اہلبیت (ع) اور ادب کی سرزمین کے طور پر دنیا بھر میں مشہور و معروف اور پرامن شہر اسکردو میں نشہ، اقتدار اور ہوس دولت کے دلدادوں اور قانون کے رکھوالوں نے ایک ایسا کام کر دکھایا جس سے پوری دنیا میں اہلیان بلتستان کی ناک گٹ گئی۔ بابری مسجد سانحہ پر دنیا بھر کے مسلمانوں کی طرح بلتستان کے غیور مسلمان بھی فرط جذبات میں حکومت ہند اور اقوام عالم کی انسانی حقوق کی تنظیموں کو وہ کچھ کہہ گئے کہ الامان۔۔۔۔۔۔۔ وہ کسی ہندو شدت پسند تحریک کی شرارت کا معاملہ تھا اگر یہی کام ایک مسلمان ڈپٹی کمشنر کرے اور دفاع کرنے والوں کے گھروں میں میں گھس کے نہ صرف چادر و چاردیواری کے تقدس پائمال کرے بلکہ انہیں گرفتار کر کے اور تھانے میں لے جا کے تشدد کا نشانہ بھی بنائے، کیا یہی قانون ہے کہ جہاں پر اعلٰی حکام کے منہ سے نکلی ہوئی ہر جائز و ناجائز بات قانون اور دستور کی حیثیت رکھتی ہے۔ جہاں شعائراللہ کی کوئی اہمیت نہیں۔ جہاں ایک پٹواری، ایس پی اور ڈپٹی کمشنر چند ہی سالوں میں اچھی اور تفریحی جگہوں پر سینکڑوں کنال زمین کا مالک بنتا ہے۔ جہاں تین لاکھ روپے کے عوض ایک میٹرک پاس شخص سرکاری تعلیمی اداروں میں بحیثیت استاد تقرر ہو سکتا ہے۔ جہاں کے لوگوں کی لاشیں دہشت گردوں کے ہاتھوں شاہراہ قراقرم پر گریں تو جنازے کو کندھا دینے والوں اور دہشت گردی کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے خلاف اینٹی دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جاتا ہے۔ پورے گلگت بلتستان میں وزیراعلٰی کے احکامات صرف اسی جگہ پر صادر ہوتے ہیں۔ جہاں کا کمشنر اچھا شکاری اور ڈپٹی کمشنر پولو کا اچھا اور مایہ ناز کھلاڑی ہوتا ہے۔ پولو میچ میں ہارنے کے بعد پولو کی وردی میں ہی آ کر علم پاک کی شان میں گستاخی اور مسجد کو گرانے کی بابت بتانے پر جوانوں کے دھکوں کی زد میں آ جاتا ہے۔ جی ہاں وہ ڈپٹی کمشنر اپنے عہدے پر نہ صرف براجمان رہتا ہے بلکہ قانون کا رکھوالا بھی بن جاتا ہے کیوںکہ وہ کسی اسلامی ریاست کے ایک ضلع کا ڈپٹی کمشنر ہے کسی غیر مسلم اور ہندو ریاست کا نہیں کیوںکہ وہاں مسجد گرانا جرم اور اسلام دشمنی کا شاخسانہ ہے۔

ہمارے نمائندہ کی رپورٹ اور مذکورہ واقعے کے جائزہ کے مطابق پی ٹی ڈی سی ہوٹل اسکردو کے عقب میں ایک مقامی ایس ایس پی وزیر محمد اعجاز کی 18 کنال زمین ہے، اسکردو انتظامیہ کے مطابق سٹی پارک کی تعمیر کے دوران ان کی زمین زد میں آ گئی تو محکمہ جنگلات والوں نے مذکورہ مقام پر متبادل زمین دی ہے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایس ایس پی اسکردو کا تعلق حسین آباد سے ہے لہذٰا 18 کنال زمین کا سٹی پارک کے مقام پر مالک ہونے کا کیا مطلب ہے۔ مذکورہ مقام اسکردو کا دل سمجھا جاتا ہے اور کمرشل ایریا میں شمار ہوتا ہے جس کی قیمت کروڑوں میں ہے۔ ایس پی اسکردو کو اتنی زمین تحفے میں ملنے سے تو رہی۔ جب انہیں پی ٹی ڈی سی کے عقب میں انڈس ریور ویو پر زمین دی گئی اور وہ 18 کنال زمین کا مالک بن گیا تو انہوں نے دریائے سندھ کی جانب سفر کا آغاز کر دیا اور انکی زمین مسلسل بڑھتی رہی۔ نیچے علاقہ چھومک کی عوام نے انہیں روکنے کی کوشش کی تو مصالحت کے نتیجے میں ایک سرحد وضع کی گئی جہاں سے نیچے عوام اور مذکورہ ایس پی کے درمیان میں حد فاصل پر خار دار تار بچھائی گئی۔ اس حد فاصل پر کئی سالوں سے عوام کے ہاتھوں لگائے گئے درخت اس بات کی گواہی پر مامور ہیں کہ زمین عوام کی ہے۔ وہاں پر جوانوں نے ایک مسجد تعمیر کی تو ارباب اختیار کے تمام تر منصوبوں پر پانی پھر گیا کیونکہ ایس ایس پی اسکردو اپنی اس زمین پر ہوٹل بنانے کے خواہاں تھے اور مسلسل تجاوزات دریائے سندھ کی جانب جاری تھی، لیکن مسجد آڑے آ گئی۔ مذکورہ ایس پی کی پشت پر وزیراعلٰی گلگت بلتستان سید مہدی شاہ بھی ہیں اور یہ انکے قریبی ترین ساتھیوں میں شمار ہوتا ہے۔

مسجد کی تعمیر کا کام شروع کیا گیا، پولیس نے روکنے کی کوشش کی تو علماء نے مداخلت کر کے کام جاری رکھنے کا حکم دیا۔ پولیس گردی کے خلاف علماء نے جب ڈپٹی کمشنر سے ملاقات کا وقت مانگا تو انہوں نے فون بند رکھنے اور چھپے رہنے میں ہی عافیت جانی۔ دوسری طرف مسجد کی بنیاد کی تعمیر مکمل ہو گئی تو رات کے تقریبا 2 بجے اسکردو انتظامیہ نے پولیس کے ذریعے بنیادوں کو منہدم کیا اور دن کی روشنی پھیلنے سے قبل ہی رفو چکر ہوگئی۔ صبح کی روشنی پھیلتے ہی جب یہ بات جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تو محلہ بھر کے جوانوں نے ایک ہی دن میں مسجد کی تعمیر مکمل کر دی۔ شام کے وقت مقامی ڈپٹی کمشنر راجہ فضل خالق نے پولو میچ کھلینے اور ہارنے کے بعد اس مقام کا دورہ کیا تو اس وقت اسکی آنکھوں میں خون اتر آیا جب اس نے مسجد کو مکمل پایا، وہ سیخ پا ہو کر وہاں مسجد کی سکیورٹی پر مامور جوانوں پر برس پڑا، جب فرط جذبات میں علم پاک کی شان میں گستاخی شروع کی تو جوانوں نے اس پر واضح کر دیا کہ ہم جان تو دے سکتے ہیں لیکن شعائراللہ کی، مسجد کی اور علم پاک کی بےحرمتی نہیں دیکھ سکتے لیکن ڈی سی تھے کہ تھمنے کو تیار نہیں۔ اس دھکم پیل میں ڈی سی اسکردو گر بھی پڑا، معاملہ ختم ہوا وہ دھمکیاں دیتے واپس چلا گیا اور کہا کہ تم لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن کر کے دم لوں گا۔ پولو وردی میں ملبوس ڈی سی چلا گیا۔ رات کے آخری پہر چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پائمال کرتے ہوئے 9 کے قریب جوانون کو گرفتار کرنے کے لئے مختلف گھروں میں چھاپے مارے گئے اور چند کو گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ان کا جرم عوام کی زمین پر مسجد تعمیر کرنا اور اسکی حفاظت کرنا ہے، جسے انتظامیہ ہتھیانا چاہتی تھی۔
خبر کا کوڈ : 395092
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
bohot acha parvi sahib
Pakistan
cm GB is behind this
Pakistan
parvi ne cm awr ijaz ki bend bja di he ... lgta DC ky Khilaf he lakin CM GM ki asiliat wazih kr di he. me ne ye Khbr b suni se ko ssp ijaz ko hotle bnane k apise cm ny diye hn... lakin hotle k indus river view pr masjid ne design bdnuma kr dia h.
Pakistan
افسوس کا مقام ہے کسی اسلامی ریاست میں ایسا ہونا
Pakistan
اسکردو کا گلو بٹ ایس ایس پی وزیر اعجاز حالیہ مسجد اور علم کی توہین کا مرکزی کردار ایس ایس پی وزیر اعجاز پچھلے کئی سالوں سے اسکردو میں وزیراعلٰی گلگت بلتستان کے کالے کرتوتوں کا فرنٹ مین رہا ہے۔
یہ وہی شخص ہے جس نے دو سال قبل ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری کے دورہ اسکردو کے دوران علاقہ بدری کے احکامات جاری کراوئے تھے، لیکن عوامی ردعمل کے سامنے منہ کی کھانی پڑی۔
یہ وہی شخص ہے جس نے کچھ سال قبل آقائے علی رضوی کو گرفتار کروایا تھا لیکن زبردست عوامی ردعمل کے باعث فوری رہا کرنا پڑا۔
Pakistan
Gulu Butt Wazier Ijaz abi kuch Arsy bd retired ho jaoo gy, Alam or Masjid ki tuhien kar k Na IDER kA or Na UDER KA Rahoo gy
ہماری پیشکش