0
Monday 6 Jan 2014 19:08

بھارت افغانستان کے راستے پاکستان کے لئے برابر مسائل پیدا کررہا ہے، محمد اعظم انقلابی

بھارت افغانستان کے راستے پاکستان کے لئے برابر مسائل پیدا کررہا ہے، محمد اعظم انقلابی
ضعیف العمر سابق عسکریت پسند کمانڈر محمد الطاف خان عرف محمد اعظم انقلابی جموں و کشمیر محاذ آزادی کے سرپرست ہیں، اعظم انقلابی 48 سال سے تحریک آزادی کشمیر سے وابستہ ہیں، آپ کا تعلق مقبوضہ کشمیر کے شہر خاص سرینگر سے ہے اور بقول اعظم انقلابی 18 سال کی عمر سے ہی آپ تحریک آزادی کشمیر سے وابستہ ہیں، اپنی زندگی کے سات سال بھارت کے مختلف جیل خانوں میں گذارے، مخلتف ممالک کے ساتھ ساتھ آپ نے 4 بار پاکستان کا دورہ بھی کیا، اردو اور انگریری میں لکھتے بھی ہیں مختلف کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں جن میں قول فیصل، پیام حریت، PANORAMA ،BOUQUET،BEACON LIGHT خاص مقام رکھتی ہیں، متحدہ جہاد کونسل کو آپ نے 1991ء ہی معرض وجود میں لایا، حریت کانفرنس آزادی کشمیر چیپٹر کو بھی آپ نے مع اپنے دوستان کے وجود میں لایا، 1990ء میں آپ عسکری تحریک سے وابستہ تھے اور آپ آپریشن بالا کورٹ کا چیف تھے، مسلم لبریشن فرنٹ عسکری پلیٹ فارم آپ ہی نے عمل میں لایا تھا، اس کے بعد آپ انگلینڈ چلے گئے اور واپسی پر مقبول بٹ کی شہادت کے بعد جو محاذ آزادی کے لیڈر تھے، آپ نے پرامن تحریک شروع کی، یعنی 1995ء سے آپ پرامن تحریک آزادی ’’محاذ آزادی ‘‘ سے وابستہ ہیں جس کی بنیاد صوفی محمد اکبر نے 1977ء میں عمل میں لائی تھی،محمد اعظم انقلابی نے کہیں بار سرحد پار کرکے جدوجہد آزادی کی عسکری تحریک میں فعال کردار ادا کیا ہے، اسلام ٹائمز نے اعظم انقلابی سے ایک نشست کے دوران خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے، (ادارہ)

اسلام ٹائمز: بھارت دن بہ دن دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش کررہا ہے کہ مسئلہ کشمیر اب اب مذید بات چیت کی ضرورت نہیں ہے، یا یہ کہ اب مسئلہ کشمیر حل ہوچکا ہے اور اس مسئلہ پر بات نہیں ہونی چاہئے۔؟

محمد اعظم انقلابی: موجودہ بھارتی حکمران اس خوش فہمی سے مبتلا نہ رہیں کہ ان کی فسطائی اور استعماری سوچ نے جنوبی ایشیاء میں ان کیلئے کوئی موافق صورتحال پیدا کی ہے، 1947ء میں بھارتی فوج مظفر آباد تک مارچ کرنا چاہتی تھی لیکن پاکستانی فوج نے اوڑی کے محاذ پر ہی اپنے حریف کو روک لیا، 1965ء میں بھارتی فوج لاہور فتح کرنے کیلئے آگے بڑھی تو جنرل ایوب خان کے فدائین نے جنگ کا نقشہ تبدیل کرتے ہوئے یہ جنگ بھارتی علاقے میں لڑی، 1971ء میں پاکستان کے اندر جمہوریت کے نام پر داخلی رسہ کشی کا ماحول پیدا ہوا تو بھارتی فوج نے اس صورتحال کا ناجائز فائدہ اٹھاکر مشرقی پاکستان کو گھیرے میں لے کر بنگلہ دیش بنا دیا، اس جنگ سے پاکستان کو مستقل کیلئے ایک Strategic advantage  ملا، 1979ء سے افغانیوں نے بڑی عالمی طاقتوں کو افغانستان کے پہاڑوں میں طویل گوریلا جنگوں سے الجھایا، پہلی جنگ کا یہ نتیجہ نکلا کہ سویت یونین کے چودہ ٹکڑے ہوئے اور اب پچھلے گیارہ سال سے جو گوریلا جنگیں لڑی گئیں، ان کی وجہ سے یہ صورتحال پیدا ہوئی کہ ایک ایک نیٹو حلیف ملک اپنی فوج کو افغانستان سے واپس بلانے پر مجبور ہورہا ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستانی کی داخلی سیاست پر آپ کے تاثرات کیا ہیں۔؟

محمد اعظم انقلابی: اگر پاکستان کی مغربی طرز کی جمہوریت واقعی صحیفہ آسمانی ہے تو پھر اس جمہوریت نے 1070ء میں جمہوری انتخابات کے نتائج کو قبول کیوں نہیں کیا؟ شیخ مجیب الرحمن انتخابات میں فاتح بن کر ابھرے تھے اور وہ پاکستان کا وزیراعظم بننے کا حق رکھتے تھے، چونکہ پاکستانی جمہوریت میں اتنی وسعت ہی نہ تھی کہ وہ جمہوری انتخابات کے نتائج کو عوامی Verdict قرار دیتی، نتیجہ یہ نکلا کہ شیخ مجیب الرحمن نے بغاوت کی، اس نے بھارت کا تعاون حاصل کیا اور یوں بنگلہ دیش بنادیا، ہم فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کو 1965ء کی جنگ کا ہیرو مانتے ہیں، ہم جنرل ضیاء الحق کو افغانستان کی مزاحمتی گوریلا جنگ کا ہیرو مانتے ہیں، اس جنگ نے پانچ وسطی ایشیائی مسلم ریاستوں کو سویت یونین کے پنجہ استبداد سے آزاد کیا، اسی طرح ہم جنرل پرویز مشرف کو کرگل کی لڑائی کا ہیرو سمجھتے ہیں، 9/11 کے بعد پاکستان کو امریکہ اور نیٹو فوجوں کی یلغار سے بچاتے ہوئے توسیع پسندانہ مغربی طاقتوں کو افغانستان کی دلدل میں پھنسنے (entangle) ہونے کا موقع فراہم کیا، ڈرون حملے اس وقت بھی ہوتے تھے، اور آج بھی ہورہے ہیں۔ جنرل مشرف کے خلاف مقدمہ شروع کرنے سے پہلے ان لوگوں کے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ شروع کریں جنہوں نے جنرل مشرف کے جہاز کو پاکستان میں اترنے نہیں دیا اور اصرار کررہے تھے کہ یہ جہاز بھارت کے کسی ہوائی اڈے پر اترے ، جہاز میں دس منٹ کا تیل بچا تھا، جنرل مشرف کو اور جہاز میں سوار 198 مسافروں کو جن میں اکثر اسکول کے بچے تھے اللہ نے کیسے بچایا یہ واقعی ایک معجزہ تھا، جنرل مشرف زمین پر اتر کر اگر چاہتےتو اپنی وفادار فوج کے تعاون سے کشت و خون کا وہی منظر پیش کرتے جو موجودہ مصر میں وہاں موجی آمر نے تین دن میں گیارہ سو شہریوں کو قتل کرکے پیش کیا۔

ہم کشمیری حیران ہوتے ہیں کہ پاکستان کے سیاستدان اگر مغربی مستعمرین کی سازشوں کو ناکام بنانے کی اہلیت نہیں رکھتے تو وہ جمہوریت کے نام پر ایک دوسرے کی تذلیل اور تحقیر کیوں کر رہے ہیں؟ ان حالات کو دیکھ کر میں بڑی شدت کے ساتھ پاکستان کے حکمرانوں سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ آزاد کشمیر کو ریاست کے آزاد اور خود مختار علاقہ کی حیثیت سے تسلیم کریں، اس کے ساتھ دفاعی معاہدہ کریں اور اس علاقہ کو کشمیر کی مزاحمتی تحریک میں اپنا تاریخی رول ادا کرنے کا موقع دیں، باقی سبھی سیاسی ادائیں کشمیر میں جوں کی توں پوزیشن کو دوام بخش رہی ہیں، یہ صورتحال ہمیں قبول نہیں، آر پار کشمیر کی آزادی کے بعد کشمیر کی پارلیمنٹ خود اس بات کا تعین کرے گی کہ پاکستان اور بھارت کے ساتھ ہمارے کیا تعلقات ہونگے؟ یہ ایک جمہوری فیصلہ ہوگا اوراس ریفرنڈم اور رائے شماری سے سبھی فریق مطمئن ہونگے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کی موجودہ صورتحال کا راہ حل اور پاکستان، بھارت اور افغانستان میں آپسی سیاسی ربط کے بارے میں جاننا چاہیں گے۔؟

محمد اعظم انقلابی: میری پاکستان کے ماہرین سیاست سے اپیل ہے کہ وہ سر جوڑ کر بیٹھیں اور مملکت خدا داد کے ماضی، حال اور مستقبل کا جائزہ لیتے ہوئے پاکستان کی اولوالعزم اور بہادر قوم کے صبر و ثبات کا اعتراف کریں، 1947ء میں شومئی تقدیر سے کشمیر کے مستقبل کا وقت پر تعین نہ ہوسکا، کشمیریوں نے گوریلا جنگ شروع کی اور گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی یقینی آزادی کا ہدف پورا کیا، اس جنگ میں پاکستانی فوج نے معاون قوت کا رول ادا کیا، کشمیریوں نے 1965ء میں پھر گوریلا جنگ شروع کی اور پاکستانی فوج نے امن مسلح مزاحمتی عمل کی تائید و حمایت میں بھارت کے ساتھ ماہ ستمبر 1965ء میں ایک مکمل جنگ لڑی 1971ء میں بھارت نے سویت یونین اور مغربی مستعمرین کے تعاون سے مشرقی پاکستان کی سرحدوں پر ایک جارحانہ پوزیشن اختیار کی اور یوں بنگلہ دیش معرض وجود میں آگیا، اس عظیم سانحہ کے باوجود پاکستان کے صدر جنرل ضیاءالحق نے اعلان کیا کہ ہم کشمیر میں جنگ بندی لائن کو کنٹرول لائن کی حثیت سے تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں۔

بھارت نے اس اعلان کے جواب میں اپنے حلیف سویت یونین کو دسمبر 1979ء میں افغانستان میں مداخلت کرنے کی تحریک دی اور یوں افغانستان میں سرخ فوجوں کے آتے ہی جان گسل گوریلا جنگ شروع ہوئی جو پورے دس سال تک جاری رہی، پاکستان نے اس جنگ میں Strategic دفاعی حصار کی شکل اختیار کی، پھر افغانستان کی شمالی کمان نے بھارت روس اور ایک ہمسایہ ملک کی تعاون سے افغانستان میں خانہ جنگی کا ماحول پیدا کیا، اصلاح احوال کیلئے طالبان میدان میں آگئے اور پاکستان نے ان کی بھرپور معاونت کی 11/9 کے بعد امریکہ اپنے 75 نیٹو حلیف ممالک کے ساتھ وارد افغانستان ہوا، اس طرح افغانستان کے اولوالعزم مجاہدین نے مغربی استعماری قوتوں کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے کا سلسلہ شروع کیا، اور اس عمل میں بارہ سال بیت گئے، پچھلے 43 سال کے دوران افغانستان کے تیس لاکھ لوگ شہید ہوئے۔ اب چونکہ مغربی ممالک کے فوجیں افغانستان سے رخصت ہو رہی ہیں تو ہم پاکستانی قوم کے ارباب حل و عقد کے حضور چند باتیں عرض کرنے کا موقع پا رہے ہیں، پاکستان اور افغانستان نے مل کر پچھلے 43 سال سے افغانستان میں مشرقی اور مغربی مستعمیرن کا مقابلہ کیا اور دونوں عظیم قوموں نے فی الحقیقت اس پورے عرصہ کے دوران کشمیر کی آزادی کی جنگ ہی لڑی،  حق تو یہ ہے پاکستان نے پچھلے 66 سال کے دوران تین روایتی اور چھ غیر روایتی (گوریلا جنگیں لڑیں مگر بالواسطہ طور، تین کشمیر میں اور دو افغانستان میں، اب لازمی ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے صلحاء و علماء دین اور ائمہ مساجد ایک مشترکہ ورکشاپ کا اہتمام کریں اور دیکھیں کہ وہ ان دو ہمسایہ برادر ممالک کے مومنین اور مسلمین کے دلوں کو جوڑنے کیلئے کیا کچھ کرسکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ بارہا کہتے ہیں کہ بھارتی حکمران جواہر لعل نہرو کی آخری خواہش پوری کریں، اس کی وضاحت۔؟

محمد اعظم انقلابی: میرا ماننا ہے کہ بھارتی حکمران بھارت کے سابق وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی اخری آرزو کو پورا کرنے کیلئے کشمیر میں استصواب رائے کا بندوبست کریں اور یوں جنوبی ایشاء کو مستقبل کے خطرات سے محفوظ رکھیں، سہ فریقی مذاکراتی عمل میں تعطل اور جمود کی وجہ سے نئے خطرات اور خدشات پیدا ہورہے ہیں، حق تو یہ ہے کہ بھارت مغربی استعماری قوتوں کے ساتھ مل کر ایشیاء میں غیر یقینی صورتحال کو دوام بخشنے میں ہی اپنی چوہدراہٹ کو تحفظ فراہم کرنا چاہتا ہے، جب افغانستان میں معصوم افغان شہریوں پر نیٹو بم برستے ہیں یا پاکستان میں کہیں معصوم لوگ بم کی نذر ہوتے ہیں تو آل انڈیا ریڈیو ان خبروں کو ایسے پیش کرتا ہے کہ گویا بھارتی مفادات کا تحفظ ہو رہا ہے، ایسے سفاک ملک کے خلاف ہمہ گیر ملی مزاحمتی تحریک کو جاری رکھنا فرض عین ہے، عرب ممالک اپنے تحفظ کے بارے میں سنجیدہ رویہ اختیار کریں۔ بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کسی سے پوشیدہ نہیں، کشمیر کو جبری قبضہ میں لینے کے بعد بھارتی مستعمرین نے بنگلہ دیش بنادیا، بھارت افغانستان کے راستے پاکستان کے لئے برابر مسائل پیدا کررہا ہے۔

اسلام ٹائمز: ہند و پاک آپسی مذاکرات کے بارے میں آپ کی رای کیا ہےت، کس نگاہ سے آپ ان مذاکرات کو دیکھتے ہیں اور مسئلہ کشمیر کو آپ کہاں دیکھتے ہیں۔؟

محمد اعظم انقلابی: یہ مذاکراتی عمل ایک دھوکہ اور وقت گزاری کے حربہ کے سوا کچھ بھی نہیں۔ پاکستان اگر واقعی کشمیر کی آزادی کے بارے میں سنجیدہ ہے تو اسے واضح کرنا ہوگا کہ آزاد کشمیر کی حثیت کیا ہے۔ یہ پاکستان کی colony ہے یا کشمیر کی آزادی کا بیس کیمپ، پاکستان آزاد کشمیر کو باقاعدہ طور کشمیر کے آزاد اور خودمختار علاقہ کے طور تسلیم کرے، وہاں کی انقلابی حکومت کے ساتھ دفاعی معاہدہ کرکے آزاد علاقہ کی انقلابی حکومت کو کشمیر کی مزاحمتی تحریک اپنے Initiative سے جاری رکھنے کا موقع دے، مسلم ممالک اور دیگر آزادی پسند اقوام پر لازم ہے کہ وہ آزاد کشمیر حکومت کی بھرپور مدد کریں، اس طریقہ کار سے پاکستان کا بوجھ ہلکا ہوگا اور یہ ملک پوری یکسوئی کے ساتھ چین، ایران، ترکی، روس اور سعودی عربیہ کے ساتھ مل کر ایشیاء کے تحفظ اور شام، فلسطین، مصر، افغانستان اور یمن کے مسائل حل کرنے میں اپنا فیصلہ کن رول ادا کرسکتا ہے، چنکیائی عیاری اور میکاولی مکاری کے حامل دہلی مستکبرین اور متکبرین کے ہاتھوں یہاں پچھلے 66 سال سے یہی کچھ ہوتا رہا، یہ وہی مکار حکمران ہیں جنہوں نے بڑی ڈھٹائی سے اپنے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے کشمیر سے متعلق دعدہ رائے شماری کو نظر انداز کر کے بدعہدی اور انتقاض معاہدہ کا ارتکاب کیا اور جب کشمیریوں نے ان کو ایفاء عہد کی یاد دہانی کرائی تو ان سفاک حکمرانوں نے لاٹھیوں، گولیوں اور تہار جیل کی رسیوں سے کشمیریوں کو مرعوب اور زیر کرنے کی مذموم کوشش کی۔

اسلام ٹائمز: ایسی سنگین صورتحال کے ہوتے ہوئے کشمیری قوم کی ذمہ داری اور حق خودارادیت کے سلسلے میں مؤقف:

محمد اعظم انقلابی: ہمیں پختہ یقین ہے کہ کشمیری نوجوان بطل حریت مقبول بٹ کے نقش قدم پرچلتے ہوئے تقلید اور سرفروشی کی فقید المثال مثالیں قائم کرکے بھارتی حکمرانوں کو کشمیر پر اپنا غاصبانہ قبضہ ختم کرنے اور یہاں سے اپنی فوجوں کو واپس بلانے پر مجبور کریں گے۔ ہاں چھ لاکھ کشمیری شہداء کا یہی پیغام ہے اور اسی میں ہماری قومی نجات کا راز پوشیدہ ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ بھارت اور پاکستان کے حکمران معروضیت (objective) کا راستہ اپناتے ہوئے کشمیر میں جنگ بندی لائن کے آر پار فوجوں کے انخلا، دیوار برلن (LOC) کے مکمل انہدام اور متحدہ کشمیر میں جمہوری طور منتخب شدہ پارلیمنٹ کے قیام کے ذریعے کشمیریوں کو حق خودارادیت کے اصول کے تحت اپنے سیاسی مستقبل کا خود تعین کرنے کا موقع دیں، واضح رہے کہ کشمیری فدائین حق و حریت آپ کے مصلحتوں کو خاطر میں ہی نہیں لاتے ہیں اس لئے حالات کیا کروٹ لیں گے، یہ کہنا مشکل ہے، کشمیر کے مقہور اور محکوم حق پرست بخوبی سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں مغربی طاقتوں نے سرکاری دہشت گردی کے ذریعے کیسے لاکھوں معصوم افغانیوں کو قتل کیا، وہ بخوبی سمجھتے ہیں کہ مغربی طاقتوں نے عراق اور لیبیا کو تباہ و برباد کرنے کے بعد کیسے شام میں جنگ و جدل کا ماحول پیدا کیا اور کشمیر کے صوفی منش لوگ بخوبی سمجھتے ہیں کہ امریکہ اور صیہونی ریاست اسرائیل مل کر مصر میں کیا کھیل کھیل رہے ہیں، مصر میں وردی پوش فرزندان فرعون نے محمد مرسی کی جمہوری طور منتخب شدہ حکومت کا تختہ کیسے الٹ دیا۔

چنگیز اور ہلاکو کے حواریوں نے اقتدار پر قبضہ جمانے کے بعد 14 اگست 2013ء اور بعد کے چند ایام میں تقریباً 800 فدائین حق کو قتل کیا اور سات آٹھ ہزار کو زخمی کیا، اردن کے بادشاہ نے اپنے تخت کے تحفظ کے لئے مصری قاتلوں کی تائید و حمایت کی، افسوس اس بات کا ہے کہ سعودہ عربیہ کے خادم الحرمین شریفین نے بھی مصری فرزندان فرعون کی حمایت کی، سعودی عربیہ کے یہ بادشاہ یاد رکھیں کہ ہم آپ کو پورے عالم اسلام کے سرپرست سمجھتے تھے لیکن آپ نے مصر کے حالات کو بگاڑنے کے لئے عبداللہ بن ابی کا حلیف بننا ہی پسند کیا۔ مصر میں پرامن مظاہرین پر گولیاں برسا کر وہاں سینکڑوں لوگوں کو قتل کیا گیا اور عالم اسلام نے کوئی دکھ محسوس نہیں کیا، اب اگر مصری فرزندان فرعون یہود اور نصاریٰ کے ایجنٹ بن کر اخوان المسلمون پر پابندی لگائیں تو مصر میں طویل المدت گوریلا جنگ شروع ہوگی جس میں سب سے پہلے مصر کے فرعون اور ہامان ہی کام آئیں گے اور مریدان موسیٰ بالآخر فاتح بن کر ابھریں گے، انشاءاللہ
خبر کا کوڈ : 337768
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش