3
1
Tuesday 15 Jul 2014 05:46

اردگانی حکومت اور ترکی کا مستقبل (2)

اردگانی حکومت اور ترکی کا مستقبل (2)
تحریر: عرفان علی 

دیار بکر سے دو گھنٹے کی مسافت پر سیزر شہر کے ڈپٹی میئر قادر کونور نے اردگان کی حکمران جماعت اے کے پی (جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی) پر شدید تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ ترکی سے ہی داعش کو تمام وسائل مہیا کئے جا رہے ہیں۔ اسلحے سے لدے ٹرک بھی ترکی سے جاتے ہیں۔ کرد علاقے کے ایک نوجوان نے بتایا کہ وہاں لوگ شام کے کردوں کے بارے میں فکرمند اور حالات سے ناامید ہیں، کیونکہ وہاں داعش نے خواتین اور بچوں سمیت کردوں کا قتل عام کیا ہے۔ اس کی رائے تھی کہ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ترکی کی سرحد کراس کرکے داعش کے دہشت گرد شام اور عراق جاتے ہیں اور اردگانی حکومت نے اس کی اجازت دے رکھی ہے۔

ایسی ویڈیو بھی انٹرنیٹ پر موجود ہے، جس میں دکھایا گیا ہے کہ ترک سرحد پر تعینات فوجیوں نے اسلحے سے بھرے ٹرک کو روکا تو اس کے ساتھ ساتھ چلنے والے ترک انٹیلی جنس ایجنسی کے اہلکار آگئے، جن سے ان کی جھڑپ ہوئی۔ معاملہ عدالت تا جا پہنچا تو مذکورہ ترک فوجیوں اور ان کا دفاع کرنے والے وکلاء کو جاسوسی کے جھوٹے مقدمات میں ملوث کر دیا گیا۔ معمر عکر کا تجزیہ ہے کہ داعش ترکی کے بڑے مغربی شہروں پر بھی حملہ آور ہوسکتی ہے کیونکہ وہ ترکوں کو بھی کافر سمجھتے ہیں۔ داعش انٹر نیٹ پر ویڈیو جاری کرکے ترک اور کرد جوانوں کو نام نہاد جہاد میں شرکت کی دعوت دیتے ہیں۔

ترک روزنامہ صباح (14 جون 2014ء) میں یوسف سلمان انانس نے اپنی تحریر میں داعش کے لئے لکھا کہ یہ اب ترکی کے لئے براہ راست خطرہ بن چکی ہے۔ داعش جیسی تکفیری دہشت گرد تنظیموں کے سرپرست ملک قطر کہ جہاں امریکہ نے علاقائی فوجی ہیڈ کواٹر قائم کر رکھا ہے، وہاں کے عرب سینٹر فار ریسرچ اینڈ پالیسی اسٹڈیز نے حال ہی میں جاری رپورٹ میں ایک سنی کے جملے نقل کئے ہیں کہ وہ عراقی وزیراعظم نوری مالکی سے خوش نہیں لیکن داعش سے خوف زدہ ہیں، کیونکہ موصل میں داعش کے دہشت گردوں نے صوفیوں اور سگریٹ پینے والوں کو بھی قتل کیا۔ لاس اینجلس ٹائمز سمیت پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ میں 27 اور 28 جون کو یہ خبر پڑھنے کو ملی کہ امریکی ریاست ٹیکساس (کہ جہاں کے جارج بش امریکی صدر بنے اور عراق کو جنگ میں جھونکا) کے 23 سالہ مائیکل وولف کو ایک دوسرے امریکی نوجوان کے ساتھ گرفتار کیا گیا ہے۔ اس نے ایف بی آئی کے انڈر کور ملازم کے ذریعے براستہ ترکی داعش میں شمولیت کے ذریعے شام میں لڑنے کا اعتراف کیا ہے۔ اسے اس جرم میں 15سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔

ترکی کی اپوزیشن پارٹی سی ایچ پی کے مرکزی رہنما محرم انسے نے روزنامہ حریت میں شایع ہونے والی داعش دہشت گرد ابو محمد کی وہ تصویر دکھائی، جس میں اسے ترکی کے سرکاری ہیٹیا اسٹیٹ اسپتال میں زیر علاج دکھایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ دہشت گرد 16 اپریل 2014ء کو مذکورہ اسپتال میں زیر علاج تھا۔ انہوں نے وزارت صحت سے مطالبہ کیا کہ اس مریض کا ریکارڈ قوم کے سامنے ظاہر کریں۔ ان کے مطابق ترک حکومت نے برسوں سے ان دہشت گردوں کو پال پوس کر اس قابل بنایا، کیونکہ ترک حکومت شام کی حکومت ختم کرنا چاہتی تھی۔ ترک حکومت نے ترکی کو بنانا ری پبلک میں تبدیل کر دیا ہے۔ اس جماعت کے استنبول کے رہنما احسان اوز کس نے انکشاف کیا کہ شام میں دہشت گردی کرنے والی جبہۃ النصرہ کے دہشت گردوں کو ترکی کے مذہبی امور کے ڈائریکٹوریٹ کے گیسٹ ہاؤس میں ترک ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی ٹی) کی زیر نگرانی طبی سہولیات فراہم کی گئیں۔ یہ انٹیلی جنس ایجنسی وزیراعظم اردگان کے دفتر میں بیٹھ کر کام کرتی ہے۔ سابق وزیر داخلہ معمر گلر نے مذکورہ گیسٹ ہاؤس میں ان دہشت گردوں کو طبی سہولیات فراہم کرنے کا سرکولر جاری کیا تھا۔ معمر گلر بدعنوانی کے مقدمات کی وجہ سے استعفٰی دینے پر مجبور ہوئے۔ اسی جماعت کے کمال کلکدرگلو کہتے ہیں کہ رجب طیب اردگان کی حکومت نے ترکی کو مشرق وسطٰی کی دلدل میں پھنسا دیا ہے اور موصل میں ترک قونصلیٹ پر داعش کا حملہ اور قونصل جنرل سمیت اسٹاف کے اغوا کی ذمہ دار بھی ترک حکومت ہے۔

نیشنل موومنٹ پارٹی (ایم ایچ پی) کے ڈیولٹ باسلی نے ترک وزیر خارجہ احمد دوغلو سے ملاقات سے انکار کر دیا، جبکہ کمال کلکدرگلو نے شرف ملاقات تو بخشا لیکن صرف اس لئے کہ ان سے بالمشافہ مل کر یہ مطالبہ کرسکیں کہ وہ استعفٰی دے دیں۔ موصل میں ترک قونصل جنرل اوز ترک یلماز نے پہلے ہی انقرہ رپورٹ بھیج کر حالات سے خبردار کر دیا تھا، لیکن موصل پر داعش کے حملے سے ایک دن پہلے احمد دوغلو نے ٹویٹ پیغام میں کہا کہ موصل کے حوالے سے فکر کی کوئی بات ہی نہیں، سب اچھا ہے، ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا جس کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ دوغلو سے سی ایچ پی کے سزگین تنریکلو نے پارلیمنٹ میں سوال کیا تھا کہ 30 مئی کو عراق کے شہر فلوجہ میں ترکی کے 4 ملٹری انٹیلی جنس افسران کو عراقی افواج نے گرفتار کرکے قید کر لیا تھا اور ان پر الزام ہے کہ وہ داعش کے دہشت گردوں کو ٹریننگ دے رہے تھے۔ عراقی حکومت نے کئی مرتبہ سعودی عرب کے ساتھ ساتھ ترکی کو بھی عراق میں دہشت گردی کا ذمے دار قرار دیا۔

سرکن ڈیمٹ راس نے اپنے تجزیے میں ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کیا تھا کہ ترکی ہیئت مقتدرہ داعش کے معاملے پر دو حصوں میں تقسیم ہے۔ سکیورٹی بورڈ عراق کی جغرافیائی وحدت، خود مختاری اور اس کی حدود کی حفاظت پر زور دیتا ہے لیکن حکمران جماعت کے نائب سربراہ حسین سیلک نے اس سے متضاد بیان دیا۔ تجزیہ نگار کی رائے ہے کہ داعش کی انسانیت دشمن سفاکانہ دہشت گردی کو سنی انقلاب کا نام دینے والے سنی سیاستدان بھی غیر ذمے داری کا مظاہرہ کر رہے ہیں، کیونکہ عدم استحکام کی یہ لہر ترکی اور اس کے عوام کو بھی اپنی زد میں لے رہی ہے۔ خاتون تجزیہ نگار وردا عذر کی رائے ہے کہ داعش کے خلاف مغربی ممالک، ترکی، نوری المالکی، کردوں، ایران اور شام کی حکومتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے۔

ترکی اس وقت نئے صدر کے انتخاب کے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے۔ عبداللہ گل کی مدت صدارت 28 اگست کو ختم ہوجائے گی۔ وہ اگلی مدت کے لئے امیدوار نہیں ہیں۔ رجب طیب اردگان صدارتی امیدوار ہوں گے۔ ان کے مقابلے میں سی ایچ پی اور ایم ایچ پی نے او آئی سی کے سابق سیکریٹری جنرل احسان اوگلو کو مشترکہ صدارتی امیددار نامزد کیا ہے۔ احسان اوگلو دانشور ہیں، لیکن ان کی خارجہ و داخلہ پالیسی کے بارے میں ترک عوام لاعلم ہیں۔ شام اور عراق کی صورتحال پر ان کی پالیسی کسی کو نہیں معلوم۔ مثبت پہلو یہ ہے کہ احسان اوگلو ترکی کے قدامت پسند اور مذہبی افراد کے لئے بھی قابل قبول ہیں۔ سی ایچ پی جو کہ کمال اتاترک کے نظریات کی پیروکار ہے، اس نے اپنے نظریات کے برعکس ایک درمیانی راہ کا انتخاب کیا ہے۔ اس جماعت نے اردگان کے خلاف احتجاج کے لئے عوامی ریلیاں اور مظاہرے بھی کئے ہیں، لیکن عوام کو مستقل سڑکوں پر رکھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔

سی ایچ پی کے اس فیصلے سے اس کے اپنے نظریاتی کارکن اور کئی رہنما متفق نہیں۔ ترکی کے علویوں کی تنظیموں نے بھی احسان اوگلو کی نامزدگی پر تنقید کی ہے۔ کردوں سے امن مذاکرات پر بھی حکمران جماعت اور اپوزیشن جماعتوں میں اختلاف ہے۔ امریکہ میں مقیم سنی حنفی ترکی مذہبی رہنما فتح اللہ گلن کی تحریک کے افراد بھی رجب طیب اردگان کے خلاف ہیں۔ اردگان حکومت نے ان کے خفیہ منصوبے بھی پکڑے ہیں۔ رجب طیب اردگان کی حکومت ترک عوام کے بدلتے ہوئے موڈ کو سمجھنے میں ناکام رہی ہے۔ ترک حکومت کی مذکورہ پالیسی پر عوامی ردعمل اس طرح سامنے آیا کہ شام کی سرحد پر واقع صوبے میں اردگان کی جماعت الیکشن ہار گئی۔ عراق، ایران کی سرحد پر واقع صوبوں میں رائے عامہ اس کے خلاف ہوچکی ہے۔ داخلی سطح پر متشدد وہابیت کے فروغ کی وجہ سے امن و امان کی صورتحال خراب ہونے کا خدشہ ہے تو پڑوس میں بھی کئی ممالک سے بلاوجہ کی دشمنی مول لینے کی پالیسی نے ترکی کو خطے میں ہی نہیں دنیا بھر میں تنہا کر دیا ہے۔ 

یورپی یونین کی ڈو مور کی پالیسی، امریکی اتحاد میں صہیونی اسرائیلی ایجنڈا میں ساتھ دینے کی اردگانی حکومت کی پالیسی اور عرب بادشاہوں سے گٹھ جوڑ کرکے فلسطین کے حامی ممالک پر مشتمل مزاحمت کے محور کے خلاف سازشوں سے ترکی کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔ اردگانی حکومت کے بھی کیا کہنے، ترک سلطنت عثمانیہ کی بحالی کا خواب بھی دیکھتی ہے اور ترکی کی سلطنت عثمانیہ کے سقوط میں برطانیہ و فرانس سامراج کی مدد کرنے والے غدار عرب ہاشمی خاندان اور آل سعود سے بھی دوستی کرتی ہے۔ اس کھلے تضاد نے ترکی کے بارے میں عالم اسلام کے حسن ظن کو غلط ثابت کیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 399068
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

بہترین۔ بروقت اور جامع تجزیہ و تحلیل۔
بہت ہی اچھا اور اعلٰی۔ خدا خوش رکھے۔
Pakistan
Good
ہماری پیشکش