0
Tuesday 23 Sep 2014 15:21

شریف برادران اپنے غیر جمہوری رویوں سے جمہوریت کو نقصان پہنچا رہے ہیں، ہمایوں جوگیزئی

شریف برادران اپنے غیر جمہوری رویوں سے جمہوریت کو نقصان پہنچا رہے ہیں، ہمایوں جوگیزئی
ہمایوں جوگیزئی پاکستان تحریک انصاف بلوچستان کے چیف آرگنائزر ہیں۔ آپ 1954ء کو قلعہ سیف اللہ میں پیدا ہوئے۔ اس سے قبل آپ پاک افواج میں بھی خدمات سرانجام دیں چکے ہیں۔ 1971ء کے بعد آپکو آرمی سے پاکستان پولیس میں منتقل کردیا گیا، بعدازاں بطور سی سی پی او کوئٹہ بھی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ آپ 2002ء کو پولیس سے ریٹائر ہوگئے اور 2012ء میں پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی جانب سے جاری دھرنوں اور مذاکراتی عمل میں پیش قدمی کے حوالے سے ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ایک مختصر انٹرویو کیا، جو قارئین کے لئے پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں تمام سیاسی جماعتوں کا متحد ہوکر جمہوریت کے حق میں قرارداد پیش کرنا، عمران خان اور طاہرالقادری صاحب کے موقف کو کس حدتک کمزور کر پایا ہے۔؟
ہمایوں جوگیزئی: دیکھئے ہماری پوزیشن تو ہرگز کمزور نہیں ہوئی۔ تین روزہ مشترکہ پارلیمنٹ سیشن کے باوجود ہماری ساکھ اور جدوجہد پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ پہلے دن سے جو جماعتیں وہاں پر بیٹھی ہے وہ تو ون وے مسلم لیگ (ن) کے اتحادی ہیں اور جو اپوزیشن ہے وہ بھی انکے ساتھ ہے کیونکہ پچھلے دور حکومت میں‌ انہوں نے ایک مذاقِ جمہوریت پر دستخط کئے تھے جی ہاں اصل میں وہ میثاق نہیں بلکہ مذاق جمہوریت تھا کیونکہ میثاق تو آئین ہے۔ عوام کے حصے کا سارے کا سارا حق معطل پڑا ہوا ہے تو پھر اس سے ہٹ کر جو کیا جائے گا وہ مذاق ہی ہوگا۔ تو وہ پچھلا پانچ سالہ دور نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) نے اس باہمی طے شدہ فارمولے کے مطابق ایک مک مکا کے تحت اپنے پانچ سال گزارے اور انہوں‌ نے حکومت کیخلاف کوئی کیس نہیں کیا بلکہ یکجا بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کرتے رہے۔ جب انتخابی اصلاحات کیلئے لانگ مارچ ہوا تھا، وہ آج پارلیمنٹ میں بھی اکھٹے ہیں اور یہی تو سارا مسئلہ ہے کہ یہ لوگ جب کرپشن میں حصہ داری کرتے ہیں، اور جتنا طویل انہوں نے اجلاس کیا، اس میں‌ ایک بار بھی آئین کے جو چالیس حصے معطل پڑے ہیں، اس پر بات نہیں ہوئی۔

اسلا ٹائمز: ایک مہینے سے زیادہ عرصہ ہوگیا لیکن معاملات اب بھی وہی ہیں۔ تو آپکے خیال میں یہ تعطل کب اور کیسے ختم ہو پائے گا۔؟
ہمایوں جوگیزئی: مجھے یقین ہے کہ عمران خان اور طاہرالقادری صاحب جلد فتح یاب ہوکر کامیابی و کامرانی کیساتھ لوٹیں گے۔ لوگوں نے اتنی قربانی دی ہے، اپنا جائز حق مانگنے کیلئے، جسکا وعدہ پاکستان کے آئین نے ان سے کیا ہے اور جسکا وعدہ قائداعظم نے پاکستان کے قیام کے وقت کیا تھا۔ پاکستانی عوام نے 65 سال ظلم برداشت کیا ہے۔ یہ لوگ پے در پے تیسری مرتبہ اقتدار میں ہیں، اسی طرح پنجاب کو اگر شامل کرلیں تو کم از کم سات مرتبہ یہ لوگ اقتدار میں رہ چکے ہیں۔ لہذٰا اللہ تعالٰی مظلوموں کی مدد کرتا ہے۔ لوگوں نے 36 روز اتنے مسائل برداشت کئے ہیں، تاکہ 18 کروڑ پاکستانی عوام کو انکے جائز حقوق دیئے جا سکیں۔

اسلام ٹائمز:‌ لوگ کہتے ہے کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کو پارلیمنٹ میں ہی بیٹھ کر سیاسی طریقے سے تبدیلی لانی چاہیئے تھی، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔؟
ہمایوں جوگیزئی: جن تبدیلیوں کی اٹھارہ کروڑ عوام کو ضرورت ہے، وہ اس پارلیمنٹ کے ذریعے نہیں ہو سکتیں۔ اسکے اندر تبدیلیوں کی ضرورت ہے لیکن پارلیمنٹ میں کسی بھی تبدیلی کیلئے آپکو دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے جبکہ اس نظام کے ذریعے پارلیمنٹ میں اتنی اکثریت شریف لوگ نہیں لے سکتے۔ انہی دو مخصوص جماعتوں کے علاوہ اتنی اکثریت کوئی لے ہی نہیں سکتا۔ ان جماعتوں کا پورے سیاسی نظام پر قبضہ ہے۔ انہی جماعتوں نے ٹکٹ‌ دینے ہیں، اور ٹکٹ‌ دیتے وقت یہ دس بیس کروڑ امیدواروں سے لیتے ہیں۔ تو جو بندہ اس نظام میں آئے گا وہ سب سے پہلے خرچ کئے گئے پیسوں کو واپس جمع کریگا۔ یعنی سارا سیاسی نظام ایک کاروبار کی شکل اختیار کرچکا ہے۔

اسلام ٹائمز: اگر موجودہ حکومت چلی بھی جاتی ہے تو آئندہ انتخابات کیلئے مسلم لیگ (ن) کو ہی نگراں حکومت تشکیل دینی ہوگی، تو کیا اس سے دوبارہ دھاندلی نہیں ہوگی۔؟
ہمایوں جوگیزئی: جو ڈرامہ 2013ء کے انتخابات میں نگراں حکومت کیساتھ کیا گیا، اس بار اسے نہیں دہرایا جائے گا۔ اسکے لئے سیاسی عمرانی معاہدے کی ضرورت ہوگی۔ تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں اور اداروں کو اعتماد میں لیکر ایک غیر متنازعہ ٹیم کی تشکیل ناگزیر ہوگی۔ پاکستان کا موجودہ آئین 71ء میں‌ بنا۔ 43 سال میں بیس ترامیم کی گئی لیکن ان میں ایک بھی ترمیم ایسی نہیں ہوئی جو سماجی شعبے میں غربت کو دور کرنے کیلئے ہو۔ بلدیاتی حکومت 9 سال سے معطل پڑی ہوئی ہے۔ پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی ہورہی ہے، مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ دنیا کے باقی ملکوں میں آئین کے باقاعدہ حصے ہیں، جس سے پوری سیاسی اتھارٹی بنیادی سطح پر پہنچتی ہے۔ لہذٰا آئینی ترامیم کی بھی ضرورت ہے۔ ملکی اداروں پر احتسابی نظام کی ضرورت ہے، جو ان سب کی نگرانی کرے تاکہ کرپشن کا راستہ روکا جائے اور آرٹیکل 62، 63 کو مزید توسیع دینے کی ضرورت ہے۔ مسلمان تو تقسیم ہند سے قبل بھی زندگی گزار رہے تھے، لیکن کس وجہ سے انہوں نے 1947ء میں اتنی قربانی دیکر الگ مملکت بنائی۔ صرف اسی لئے کہ پاکستان کے مسلمانوں کو ہر قسم کے بنیادی و انسانی حقوق مہیا ہوں۔

اسلام ٹائمز: ہائیکورٹ نے شریف خاندان کیخلاف دائر کرپشن کے کیسز کو خارج کردیا۔؟
ہمایوں جوگیزئی: اگر شریف خاندان کیخلاف دو سو کرپشن کے کیسز بھی ہو، تب بھی اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے اپنے آپ کو فرشتہ بنائینگے۔ نیب کا کام بدعنوان سیاستدانوں کا احتساب ہے۔ لیکن اقتدار پر وہ لوگ رہے ہیں، جنہوں نے عوام کا خزانہ لوٹا ہے۔ آئین میں ترمیم کرکے انہوں نے نیب کا چیئرمین بھی اسے لگایا، جسکو نواز شریف اور زرداری صاحب کی حمایت حاصل ہو۔ اب یہ دونوں جس کو بھی چیئرمین لگائینگے، کیا وہ ان دونوں پر ہاتھ ڈال پائے گا۔

اسلام ٹائمز: نواز شریف صاحب نے کہا ہے کہ دھرنے والوں کو ہٹانا کوئی مشکل کام نہیں۔؟
ہمایوں جوگیزئی: بالکل یہ نواز شریف صاحب کی شرافت ہی تو ہے کہ انہوں نے لاہور میں معصوم انسانوں کی چودہ لاشیں گرا دیں اسکے علاوہ پورے اسلام آباد کو عدالتی احکامات کے باوجود کنٹینرز لگا کر یرغمال بنانا بھی انکی شرافت ہے۔

اسلام ٹائمز:‌ کیا نواز شریف اور شہباز شریف کے استعفے سے کمتر کوئی اور مطالبہ قابل قبول نہیں ہے۔؟
ہمایوں جوگیزئی: دیکھئے شہباز شریف نے تو ڈاکٹر طاہرالقادری کے کارکنوں کو جس طرح بے دردی سے نشانہ بنایا، آج پوری دنیا اسکی مذمت کر رہی ہے۔ شہباز شریف نے خود پریس کانفرنس میں یہ بات کہی تھی کہ اگر جوڈیشنل کمیشن نے واقعے کی تحقیقات کے دوران مجھ پر انگلی اٹھائی تو میں مستعفی ہو جاونگا لیکن جوڈیشنل کمیشن نے ان کیخلاف انگلی تو کیا پورا ہاتھ اُٹھا لیا لہذٰا انہیں تو اب تک مستعفی ہو بھی جانا چاہیئے تھا، جو کہ نہیں ہوئے۔ اب نواز شریف کا معاملہ تو ملکی ہے۔ یعنی ان کے اقتدار میں ہونے کی وجہ سے 2 مہینے تک اگر انکی ایف آئی آر نہیں کٹ سکتی، تو ایک شفاف انتخابی تحقیقات کا خواب کیسے پورا ہو سکتا ہے۔ شریف برادران اپنے غیر جمہوری رویوں سے جمہوریت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ابھی نیب میں انہوں نے اپنے مرضی کے بندے لگا کر 1980ء جیسے پرانے کیسز سے اپنے آپ کو بری کردیا تو ہر جگہ انکے اپنے بندے متعین ہیں اور یہ تو سارے کا سارا ادارہ خریدنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ انکی ساری سیاست تجارت پر منحصر ہے۔ جتنا پیسہ یہ بناتے ہیں، اسی حساب سے لگواتے بھی ہیں۔
خبر کا کوڈ : 411208
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش