1
0
Tuesday 21 Jan 2014 02:59

اچکے شہزادے

اچکے شہزادے
تحریر: قسور عباس برقعی

عالم اسلام میں قائم بادشاہتیں آل خلیفہ، آل ثانی، آل نہیان، آل صباح، آل مختوم، آل سید، آل قاسمی، آل شریف مکہ اور آل سعود تقریباً سبھی نجد اور حجاز کے علاقوں سے ہیں۔ آل سعود کے تیسرے دور اقتدار کے حکمرانوں اور ان سب میں ایک اور خصوصیت جو مشترک ہے، ان کا خلافت عثمانیہ کے زوال کے بعد وجود میں آنا ہے، بلکہ ان میں سے اکثر خاندانوں کو تو بادشاہتیں خلافت عثمانیہ کے خلاف خدمات سرانجام دینے پر تحفتاً بخشی گئیں۔ آل سعود کا موجودہ دور اقتدار 1925ء سے شروع ہوا۔ پہلا دور اقتدار عبدالوہاب کی اصلاحی تحریک کا نتیجہ تھا، جبکہ دوسرے اقتدار کا سبب سعودی حکمران امیر ترکی بنا، جبکہ تیسری مرتبہ برطانوی حکومت کی آشیرباد سے شاہ عبدالعزیز حجاز کے بلا شرکت غیرے حاکم ہوئے۔

آل سعود کے حکمرانوں نے اپنے ادور اقتدار میں بہت سے کام کئے۔ پہلے دور حکومت میں محمد بن عبد الوہاب کی منہج کے مطابق مملکت حجاز کو شرک اور بدعت سے پاک کرنے کے لیے اس سرزمین پر واقعہ ازواج رسول ؐ، اولاد رسول ؐ اور اصحاب رسول ؐ کے بہت سے مزارات کو منہدم کر دیا گیا۔ آل سعود نے یہ کام اپنے تمام ادوار حکومت میں کمال استقامت سے انجام دیا۔ اب تک وہ جنت البقیع سمیت متعدد مزارات، تاریخی مقامات اور آثار کو ملیا میٹ کرچکے ہیں۔ ان کی انہی کاوشوں کے نتیجہ میں آج روضہ رسول ؐ کے علاوہ کوئی قابل ذکر مزار یا تاریخی مقام سرزمین حجاز میں موجود نہیں ہے۔ خود روضہ رسول ؐ اور اس کے زائرین ’’عبد وہاب کی منہج‘‘ کے ٹھیکیداروں کو ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ کبھی شرطے لگا کر لوگوں کو روضہ رسول ؐ کی جالیوں سے دور کرتے ہیں تو کبھی زائرین اور جالیوں کے مابین شیشے کی دیواریں کھڑی کرکے اپنے جذبہ توحید کو شفاء بخشتے ہیں۔

آل سعود کی سرپرستی میں شرک اور بدعت کے خلاف اس جہاد کی ترویج کے لیے بھی خوب اقدامات کئے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مشرب کے افراد دنیا بھر میں اپنی منہج کے خلاف طرز عمل کو بیخ و بن سے اکھاڑتے اور اس پر حملہ آور ہوتے نظر آتے ہیں۔ عراق میں سامرہ کے مقام پر فرزندان رسول ؐ کا مزار، شام میں حضرت سکینہ، حضرت حجر بن عدیؓ کے مزارات، بحرین میں اصحاب رسول ؐ کے مزارات، پاکستان میں کئی ایک اولیاء اللہ کے مزارات اسی فکر کے حامل افراد نے تاراج کئے۔ اسی طرح ’’محمد بن عبدالوہاب کی منہج‘‘ کے خلاف بننے والی مساجد، عبادتی مراکز اور مذہبی جلوسوں پر خودکش حملے بھی سعودی اسلام کے غماز ہیں۔

بعض اہل نظر تو نااہل ترکوں سے عالم اسلام کی جان چھڑوانے کو بھی ان خاندانوں کا عظیم کارنامہ قرار دیتے ہیں۔ ان اہل نظر کے مطابق اگر یہ عرب شہزادے نام نہاد خلافت عثمانیہ کے خلاف کی جانے والی برطانوی سازشوں میں اہم کردار نہ ادا کرتے تو آج امت مسلمہ ترکوں کی غلام ہوتی۔ بقولے شخصے مشرق وسطٰی کی اقوام کو آزاد حیثیت اور علیحدہ تشخص انہی عظیم خاندانوں کے سبب ملا۔ طرفہ تماشہ یہ کہ آج یہی بادشاہتیں امت کو آزاد حیثیتوں کے ساتھ او آئی سی اور عرب لیگ کی صورت میں متحد کرنے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔

سوویت یونین کے خلاف امریکی سرد جنگ کو اسلامی جہاد کا رنگ دینے کے لیے ان عرب حکمرانوں نے جس تندہی سے کام کیا، بھلا کس سے پوشیدہ ہے۔ اگر یہ شہزادے اس جنگ میں وارد نہ ہوتے اور عرب نوجوانوں کو بھرتی کرکے افغانستان نہ لاتے تو نہ جانے آج سوویت یونین کتنے مسلمان ملکوں پر قابض ہوچکا ہوتا؟ آج امریکہ افغانستان پر قابض ہے تو کیا ہوا؟ دل کو یہی تسلی کافی ہے کہ کم سے کم عالم اسلام دہریوں سے تو محفوظ ہے۔ یہ اور بات ہے کہ دنیا پر یہ حقیقت آج تک نہ کھل سکی کہ اس جنگ کا اصل فائدہ کس کو ہوا۔؟ اس جہاد کے نتیجہ میں افغانستان اور پاکستان کس قدر محفوظ ہوئے؟ یہ سوال بھی اہم ہے کہ یہ جنگ امن کے لیے لڑی گئی تھی یا اس کا مقصد آئندہ کی جنگوں کے لیے حالات سازگار کرنا تھا؟ افغانستان اور پاکستان کی تین نسلیں جو اس جنگ کا ایندھن بنیں اپنا حساب کس سے مانگیں۔؟
انہی شہزادوں نے صدام کو ایران پر حملے کے لیے بڑھاوا دیا اور پھر یہی شہزادے صدام پر اپنے پرانے اتحادی کے ساتھ حملہ آور ہوئے۔ عراقی اور ایرانی قوم کے وسائل کو آٹھ سال تک جنگ میں جھونکنے والے ان شہزادوں سے آخر کب سوال کیا جائے گا۔؟ 

آج شام ان شہزادوں کی رزم گاہ ہے۔ دنیا بھر سے تکفیری زہر سے آلودہ ذہنوں کے حامل جوانوں کو اسلام کی سربلندی کا پرچم تھما کر میدان جنگ میں وارد کیا جا رہا ہے۔ کیا ان شہزادوں سے کوئی پوچھنے والا ہے کہ آپ کا جہاد ہمیشہ ملت کے اندر ہی کیوں ہوتا ہے؟ تکفیریت کا نعرہ ہو یا بدعت کے خلاف جنگ، شرک کی بیخ کنی کا دعویٰ ہو یا روس کے خلاف جہاد، شام میں عوامی انقلاب کی حمایت ہو یا مصر، بحرین، یمن کے عوامی انقلابات کی مخالت، سمجھ نہیں آتی کہ ان شہزادوں کا ہمدردیاں ہمیشہ مغرب کے ساتھ ہی کیوں ہوتی ہیں۔؟
آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لی لیں۔۔۔ ترک سلطنت کا خاتمہ شہزادے مغرب کی جھولی میں، افغان جہاد شہزادے مغرب کی خدمت میں، صدام کا قلع قمع شہزادے مغرب کے لشکر میں، ایران کے خلاف جنگ شہزادے مغرب کے ہمنوا، شام پر چڑھائی شہزادے مغرب کی فوج کا ہراول دستہ۔ اسرائیل کے خلاف قیام، شہزادے چپ۔۔۔۔ آخر کیوں۔؟

امت کب یہ سوال اٹھائے گی؟ وہ وقت کب آئے گا، جب ان شہزادوں کی ظاہری وضع قطع کے بجائے ان کی تاریخ اور عمل کو مدنظر رکھ کر ان سے برتاؤ کیا جائے گا۔ امت کب تک ان خائنوں کے ہاتھوں برباد ہوتی رہے گی؟ کب تک ان شہزادوں کی منہج کو اسلام کہا جاتا رہے گا؟ کب تک مسلمان اسلام کے نام پر ایک دوسرے کے گلے کاٹتے رہیں گے؟ کب تک تکفیریت، شدت پسندی اور بربریت اسلام کا عنوان بنی رہے گی۔ وہ وقت کب آئے گا جب اسامہ بن لادن، ایمن الظواہری کے بجائے جمال الدین اسد آبادی، علامہ اقبال، امام خمینی، مہاتیر محمد، عبدالستار ایدھی اور ان جیسے انسان و علم دوست افراد امت مسلمہ کے نوجوانوں کے ہیرو بنیں گے؟ وہ دن کب آئیں گے جب اسلام رواداری، برداشت، صلح جوئی اور حق پرستی کے مذہب کے طور پر جانا جائے گا۔؟
خبر کا کوڈ : 343260
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
بہت بہت شکریہ، مزیدار اور معلوماتی تحریری ہے۔
ہماری پیشکش