0
Thursday 28 Aug 2014 23:18
عوامی فیصلے ایوانوں میں ہوتے ہیں سڑکوں پر نہیں

امریکہ کو کسی جماعت یا ملک کی جاسوسی کا حق نہیں، قمر زمان کائرہ

امریکہ کو کسی جماعت یا ملک کی جاسوسی کا حق نہیں، قمر زمان کائرہ
قمر زمان کائرہ 5 جنوری 1960ء میں لالہ موسٰی میں پیدا ہوئے۔ گجر فیملی سے تعلق رکھتے ہیں۔ سید یوسف رضا گیلانی کے دور وزارت عظمیٰ کے دوران آپ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات رہے۔ وزیر اطلاعات کی ذمہ داری سے قبل آپ کے پاس وزارت امور کشمیر و نوجوانان تھی۔ 2009ء میں قائم مقام گورنر گلگت بلتستان بھی رہے ہیں ۔ سیاسی سفر کا آغاز 2002ء میں کیا۔ جمہوریت کے لئے قمرزمان کائرہ کی خدمات نمایاں ہیں، شیری رحمٰن کے بعد انہیں وزارت اطلاعات کا قلمدان ملا جو انہوں نے 2011ء میں فردوس عاشق اعوان کے حوالے کیا۔ 2012ء میں دوبارہ وزارت اطلاعات میں لگا دیا گیا۔ تعلیمی میدان میں ڈبل ایم اے ہیں، ایم اے فلاسفی اور ایم اے پولیٹیکل سائنس کیا ہوا ہے۔ موجودہ سیاسی صورت حال کے حوالے سے ان کے ساتھ لاہور میں ایک مختصر نشست ہوئی جس کا احوال قارئین کے لئے پیش کر رہے ہیں۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز:ایک طرف انقلاب اور دوسری طرف آزادی مارچ ہے، آپ بھی اپوزیشن جماعت ہیں، آپ کی پارٹی کا کیا نقطئہ نظر ہے؟
قمرزمان کائرہ: ہم جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں، اس لئے کہ اس جمہوریت کو بچانے کے لئے ہمارے ہمارے قائدین نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے۔ اس لئے ہم کسی کے انقلاب کو نہیں مانتے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ انقلاب ایک خوبصورت نعرہ ہے جسے سب اپنے مقصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ جن لوگوں کے پاس اصلاحات کے لئے کچھ نہیں ہوتا وہ ایسے نعرے لگاتے ہیں۔ ہماری پارٹی کے پاس اپنا انقلابی منشور ہے۔ وہ غریبوں، مزدوروں، کسانوں، طالب علموں کی بات کرتی ہے۔ لوگوں کے حقوق کی بات کرتی ہے۔ اس لئے عوام کی طاقت سے ہمیشہ اقتدار میں آ جاتی ہے جبکہ اسٹیبلشمنٹ کئی دفعہ ہماری پارٹی کو اقتدار سے باہر کرچکی ہے اور بارہا ایسی کوشش کی گئی کہ پی پی پی برسراقتدار نہ آئے۔ یہ جمہوریت کے لئے ہمارے قائد شہید ذوالفقار علی بھٹو اور بےنظیر بھٹو کی قربانیوں کا صلہ ہے کہ ہم نے کبھی کمپرومائز نہیں کیا اور ہماری پارٹی عوام کی مقبول ترین پارٹی ہے اور آج بھی ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ کوئی جب چاہے آزما لے پی پی پی سخت مقابلے کے بعد پھر ابھرے گی اور برسراقتدار آئے گی۔

ہم محض کھوکھلے نعروں پر یقین نہیں رکھتے بلکہ ہم نے اپنے ادوار میں مزدوروں، کسانوں اور عام شہریوں کے لئے بہت کام کیا ہے۔ جو لوگ تبدیلی کا نعرہ لگاتے ہیں انہیں بھی بتانا چاہتے ہیں کہ تبدیلی انتخابات کے ذریعے ہی آ سکتی ہے۔ انقلاب بھی اسمبلی کے ذریعے ہی آ سکتا ہے۔ اس کے بغیر آپ کس طرح انقلاب یا تبدیلی لا سکتے ہیں۔ انتخابات کے علاوہ اگر کوئی راستہ ہے تو وہ انارکی اور خون خرابے کی طرف جاتا ہے۔ اور ہمارا ملک اس وقت کسی قسم کی انارکی اور پرتشدد کارروائیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ طاقت کے ذریعے اگرلوگوں کی باتیں مانی جانے لگیں تو پھر ہرکوئی بندوق اٹھا کر سامنے آ جائے گا۔ کسی کو اگر اپنی مقبولیت اورکامیابی کا یقین ہے تو وہ انتخابات کا انتظار کرے۔ اگر لوگ ان کے حق میں فیصلہ دے دیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں، ہم جمہوریت پسند لوگ ہیں، جمہوریت کی پیداوار ہیں۔ جو بھی ایوان اقتدار میں آ جائے اسے حق ہے کہ وہ بھاری اکثریت سے جو فیصلے کرے قوم انہیں قبول کرے گی۔ عوامی فیصلے ایوانوں میں ہوتے ہیں سڑکوں پر نہیں، سٹرکوں پر صرف انتشار ہوتا ہے۔

اسلام ٹائمز: اگر حکومت ڈاکٹر طاہرالقادری کی لاہور آمد کے موقع پر فری ہینڈ دے دیتی تو اسے اتنے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا، اور کیا ماڈل ٹاؤن آپریشن کے دوران گولی چلانے کا فیصلہ درست تھا؟
قمرزمان کائرہ: ہمارے دور میں بھی ڈاکٹر طاہرالقادری اسلام آباد آئے، دھرنا بھی دیا، مگر ہم نے بات چیت کے ذریعے اس معاملے کو حل کر لیا۔ ہم بھی اقتدار کے نشے میں طاقت کا استعمال کر سکتے تھے مگر اس سے خون خرابہ ہوتا مگر ہم نے سیاسی راستہ اختیار کیا۔ ارکان اسمبلی کے ذریعے ان کے احتجاج اور دھرنے کو ختم کرا دیا۔ اسلام آباد میں ایک پتہ تک نہ ٹوٹا جبکہ اس دفعہ ڈاکٹر طاہرالقادری کو اسلام آباد ایئرپورٹ پر اترنے بھی نہیں دیا گیا۔ وہ ایئرپورٹ پر پہنچے بھی نہیں تھے کہ لاٹھیوں اور آنسو گیس کا استعمال شروع کر دیا گیا۔ لوگوں کا راستہ روکا گیا۔ اگر ڈاکٹر طاہرالقادری اسلام آباد ایئرپورٹ پراتر آتے تو کیا ہو جاتا، وہ اپنے کارکنوں سے خطاب کرتے اور جی ٹی روڈ کے راستے ریلی کی صورت میں لاہور آ جاتے۔ زیادہ سے زیادہ ایک دن کے لئے ٹریفک کا مسئلہ ہوتا اس کے علاوہ کچھ اور نہ ہوتا مگر چونکہ اس سے پہلے لاہور میں پولیس ان کے کارکنوں کو نشانہ بنا چکی تھی انتظامیہ ان سے خائف تھی، وہ سمجھ رہے تھے کہ پتہ نہیں ڈاکٹر طاہرالقادری آتے ہیں حکمرانوں کو مینار پاکستان پر پھانسی پر لٹکا دیں گے۔

حکومت کے خوفزدہ ہونے سے ڈاکٹر طاہرالقادری کا ہوا کھڑا ہو گیا۔ پتہ نہیں حکمرانوں نے طاہرالقادری کو اپنے ذہن پر کیوں سوار کر لیا ہے، وہ کینیڈا سے لندن پہنچے تو ان کے مدرسے اور گھر کے باہر حملہ کرکے ان کے کارکن شہید کر دیئے گئے۔ اس طرح حکومت نے خود پہل کر کے ڈاکٹر طاہرالقادری کے بڑے استقبال کی راہ ہموار کر دی۔ اس کے برعکس پی پی پی نے سیاسی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے دور میں ان کی ریلی کا راستہ روکا نہ ہی اسلام آباد میں رکاؤٹیں کھڑی کیں۔ اس سیاسی معاملے کو سیاسی انداز میں حل کر لیا گیا جبکہ حکومت نے اس معاملے کو ابتدا میں ہی الجھا دیا۔ طاہرالقادری فوج کو پکارتے رہے مگر فوج خود اس وقت آپریشن میں مصروف ہے۔ اسے اس وقت سیاست میں گھسیٹنا کہاں کی دانشمندی ہے۔ پھر آج کے دور میں فوج خود ان معاملات سے دور ہٹ چکی ہے۔ ہم انہیں آواز دے کر قوم کی کون سی خدمت کر رہے ہیں۔ سیاست دانوں کو اپنے معاملات سیاسی انداز میں حل کرنے چاہیئیں۔ بچوں کی طرح چیخ و پکار کرنے سے معاملات حل نہیں ہوتے بلکہ بگڑتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: امریکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی جاسوسی کیوں کراتا رہا، آپ اس حوالے سے کیا کہیں گے، کیا امریکہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جس ملک یا جس جماعت کی چاہے جاسوسی کراتا پھرے؟؟

قمرزمان کائرہ: جس طرح انکشاف ہوا ہے کہ امریکہ نے پیپلز پارٹی کی جاسوسی کرائی وہ قابل مذمت ہے۔ پاکستان طویل عرصہ سے امریکہ کی جنگ کا حصہ رہا ہے۔ اس کے برعکس امریکہ نے پاکستان کی سب سے بڑی جماعت کی جاسوسی کر کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے۔ یہ اس کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا کہ وہ کہ دوست ممالک کی سیاسی جماعتوں یا حکومت کی جاسوسی کرتا پھرے۔ اس حوالے سے ہماری قیادت نے صدر اوباما کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم اوباما سے پوچھیں گے کہ وہ کس قانون کے تحت پاکستان سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کی جاسوسی کراتے ہیں۔ بتایا جائے اس کے مقاصد کیا تھے۔ پیپلز پارٹی چونکہ پاکستانی عوام کی حقیقی ترجمان پارٹی ہے جس نے ہمیشہ قوم کے وسیع تر مفاد میں ہی کام کیا ہے۔ امریکہ کے اس اقدام نے ثابت کر دیا ہے کہ پی پی پی امریکہ کے مفاد میں نہیں پاکستان عوام کے مفاد میں کام کرتی ہے اور امریکہ ہر اس ملک یا جماعت کی جاسوسی کراتا ہے جس پر اسے شک ہو کہ وہ جماعت یا ملک اس کے مفادات کے خلاف جا رہا ہے۔

ہمیں اس بات کا عمل نہیں کہ مسلم لیگ کی بھی جاسوسی ہو رہی ہے یا نہیں، یہ تو حکومت کا کام ہے کہ وہ باضابطہ طور پر احتجاج کرے کہ کیوں پاکستانی شخصیات اور پارٹیوں کی جاسوسی کی جا رہی ہے اور اس کے کیا مقاصد ہیں۔ یہ معاملہ سرکاری سطح پر اٹھایا جانا چاہیئے۔ ہمیں تو میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا ہے، اس لئے انکوائری کی اشد ضرورت ہے۔ یہ معاملہ اقوام متحدہ میں بھی اٹھایا جا سکتا ہے۔ امریکہ جو انسانی حقوق کا چیمپئن بنتا ہے وہ خود بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مرتکب ہو رہا ہے۔ امریکہ کا یہ اقدام ہماری خودمختاری کے خلاف ہے۔ اس پر احتجاج کیا جائے۔ ہم اسے پاکستانی جماعتوں پر ڈرون حملے تصور کرتے ہیں۔ امریکہ کا یہ اقدام بین الاقوامی قوانین اور بنیادی انسانی حقوق کے بھی سراسر منافی ہے۔ پیپلز پارٹی کی جاسوسی پاکستانی عوام کی جاسوسی ہے۔ جس پر پاکستانی قوم سراپا احتجاج ہے۔

اسلام ٹائمز:اگر طاہرالقادری اور عمران خان متحد ہو جاتے ہیں تو یہ ایک بڑا اتحاد ہو گا، ایم کیو ایم کا جھکاؤ بھی انہی کی طرف ہے تو آپ اس اتحاد کا حصہ بنیں گے؟
قمرزمان کائرہ: پاکستانی سیاست میں اتحاد بنتے ٹوٹتے رہتے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں، ہمارے خلاف بھی ماضی میں اتحاد بنے اور بعض اتحاد ایسے بنے جن کا ہم حصہ تھے، یہ سارا عمل سیاست کا حصہ ہے۔ ہمارے خلاف تو اسٹیبلشمنٹ بھی اتحاد بنواتی رہی۔ جس کا ثبوت اصغر خان کیس کے ذریعے سامنے آ چکا ہے کہ کس طرح آئی جے آئی بنوائی گئی اور کس کس نے فنڈز جاری کئے، یہ اب ماضی کا حصہ ہے، گڑے مردے اکھاڑنے کی اب ضرورت نہیں اور نہ ہی ہم سیاست میں مستقل دشمنیاں پالتے ہیں، اصل میں جمہوریت پسند اتحاد اور اسٹیبلشمنٹ کے بنائے ہوئے اتحاد میں فرق ہوتا ہے۔ ہم نے ہمیشہ جمہوریت کی بحالی کے لئے دوسری جماعتوں سے الائنس کیا جبکہ دوسروں نے جمہوریت کے خاتمہ کے لئے ہمارے خلاف اتحاد بنائے، میں تو ابھی کوئی نیا اتحاد بنتا نہیں دیکھ رہا۔ اگر چند لوگ جمہوریت ڈی ریل کرنے کی سازش کر رہے ہیں تو اسے الائنس نہیں کہا جا سکتا اور ہم ایسے کسی اتحاد کا حصہ نہیں بنیں گے جو جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کے لئے بنایا گیا ہو۔ ہم جمہوریت پسند لوگ ہیں اس جمہوریت کےلئے ہم نے بےپناہ قربانیاں دی ہیں۔ اس لئے اس کی بقا کےلئے جو کچھ ہو سکا وہ کریں گے۔

اسلام ٹائمز: تو کیا زرداری صاحب کا رائیونڈ آنا جمہوریت کے لئے تھا؟
قمرزمان کائرہ: جی بالکل، نواز شریف صاحب کی دعوت پر ہی زرداری صاحب رائیونڈ تشریف لائے اور انہوں نے نواز شریف کے مطالبے پر ہی جمہوریت کی بقاء کے لئے تجاویز بھی دیں، جنہیں نواز شریف نے قبول کیا۔ ہم نے جمہوریت کے لئے ہمیشہ نواز لیگ کا ساتھ دیا لیکن نواز لیگ نے ہمیشہ پیپلز پارٹی کو نقصان پہنچانے کی ہی کوشش کی ہے۔ آپ کو یاد ہو گا ہمارے دور حکومت میں شہباز شریف صاحب نے مینار پاکستان گراؤنڈ میں احتجاجی کیمپ لگا لیا تھا لیکن اب لوڈشیڈنگ کا مسئلہ جوں کا توں ہے لیکن ہم نے کوئی احتجاج اس لئے نہیں کیا کہ ہم نکل آئے تو یہ حکومت نہیں رہے گی اس لئے اس اقدام سے جمہوریت کو خطرہ ہے، تو ہم جمہوریت کی بقا کے لئے سڑکوں پر نہیں آئے۔ بجلی کا بحران ڈیڑھ سال بعد بھی ویسا ہے، گیس کی قلت بھی اسی طرح ہے، حتیٰ کہ رمضان میں بھی شہری گیس کے لئے ترستے رہے۔ بہرحال ہم جمہوریت کے حامی ہیں اور جمہوریت کے لئے ہی خاموش ہیں۔

اسلام ٹائمز: تو آپ حکومت کی پالیسیوں سے متفق ہیں؟؟
قمرزمان کائرہ: حکومت کی اپنی پالیسیاں ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ وہ خود اپنی مدت پوری کرنے کے حق میں نہیں۔ اس حکومت کے خلاف کوئی سازش نہیں کر رہا یہ خود اپنے خلاف سازشوں میں مصروف ہے۔ حکمران اقتدار کے ایوان میں بیٹھ کر تو غریبوں کی باتیں کرتے ہیں جلسے جلوسوں میں تو ان کے حقوق کی بات کرتے ہیں لیکن ان کی پالیسیاں غریبوں کو ختم کرنے والی ہیں۔ کبھی نجکاری کے نام پر لوگوں کو بے روزگار کیا جا رہا ہے تو کبھی یوٹیلٹی بلوں میں اضافہ کر کے انہیں خودکشی پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اب تو یہ حال ہے کہ حکومت مہنگائی پر بھی قابو پانے میں ناکام جا رہی ہے۔ گڈ گورننس کے دعویدار پنجاب کے حکمرانوں سے آلو کی قیمت تو کنٹرول نہیں ہوتی جبکہ مہنگائی نے شہریوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے تو وہ ڈاکے نہ ماریں تو کیا کریں۔ گذشتہ برس کی نسبت مہنگائی میں 12.5 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ہم نے پانچ سال میں جتنی بجلی کی قیمت بڑھائی تھی اس سے دوگنی موجودہ حکومت نے ایک سال میں کر دی ہے۔

اسلام ٹائمز:آپ کے نظرمیں موجودہ سیاسی بحران کا حل کیا ہے؟
قمرزمان کائرہ: میری نظر میں ان مسائل کا واحد حل مذاکرات ہیں۔ ہم نے بھی ڈاکٹر طاہرالقادری کو مذاکرات کے ذریعے ہی منایا تھا اور حکومت بھی اب ان دونوں کے ساتھ مذاکرات کرے، اس حوالے سے میں اپنی خدمات دینے کے لئے تیار ہوں آج مجھے سراج الحق صاحب کا فون آیا تھا انہوں نے کہا ہے کہ جمہوریت کی بقاء کے لئے ہم میدان میں اتریں اور حکومت اور ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان کے ساتھ مذاکرات میں ثالثی کا کردار کرتے ہوئے معاملہ حل کریں۔ تو اس حوالے سے ہماری کوشش ہے کہ معاملہ امن و امان سے ہی حل ہو جائے تو بہتر ہے اور اگر حکومت نے اس معاملے کو بہتر طور پر حل نہ کیا تو اس کا انجام انتہائی خطرناک ہو گا۔ خون خرابہ بھی ہو سکتا ہے۔ فوج ہماری مصروف ہے ورنہ ایسی صورت حال سے قبل ہی فوج ٹیک اوور کر لیتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی میں حکومت کو مشورہ دوں گا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر درج کر لی جائے۔ اس کے اندارج سے بھی کافی لچک پیدا ہو جائے گی۔ ضد نقصان دہ ہوتی ہے اور دونوں فریقوں کو ضد چھوڑنا ہو گی۔
خبر کا کوڈ : 407142
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش