2
0
Thursday 6 Jun 2013 21:09

ترکی میں کیا ہو رہا ہے؟

ترکی میں کیا ہو رہا ہے؟
تحریر: صابر کربلائی

میں یہ مقالہ اس لئے لکھ رہا ہوں تاکہ قارئین کو بتا سکوں کہ گذشتہ چند دنوں سے ترکی کے شہر استنبول میں کیا ہو رہا ہے۔ میری ذاتی طور پر یہ کوشش ہے کہ میں اس مقالہ میں ترکی میں ہونے والے گذشتہ دنوں کے واقعات پر روشنی ڈالوں کیونکہ ترکی میں ہونے والے مظاہروں کا مقامی میڈیا نے بلیک آؤٹ کردیا گیا ہے جبکہ بین الاقوامی خبر رساں ادارے بھی ترکی میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں پر زیادہ توجہ نہیں دے رہے یا وہ اس معاملے پر توجہ دینا نہیں چاہتے۔ مگر ایسے حالات میں انٹرنیٹ کی سہولت ایک ایسی انمول نعمت ہے جس سے میں نے ترکی میں موجود اپنے طالب علم دوستوں اور دیگر ساتھیوں سے معلومات حاصل کی ہیں کہ آخر ترکی میں ہو کیا رہا ہے؟ ان میں سے چند طالبعلم تو ایسے ہیں جو بذات خود ان احتجاجی مظاہروں میں شریک ہیں اور حکومت کی غلط اور منفی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔

چند روز قبل یعنی 31 مئی کو کچھ لوگوں کا ہجوم ترکی کے شہر استنبول میں موجود ’’Gezi Park‘‘ میں جمع ہوا، یہ تمام کے تمام وہ لوگ تھے کہ جن کا کسی تنظیم یا ادارے سے کسی قسم کا تعلق نہیں تھا، انہی لوگوں کے ہجوم میں کئی ایک ایسے طالب علم موجود تھے جو میرے دوستوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کے جمع ہونے کا مقصد بہت ہی سیدھا اور آسان تھا، یعنی ان کا مقصد یہ تھا کہ یہ آنے والے چند دنوں میں اس پارک کی جگہ پر حکومت کی جانب سے تعمیر کئے جانے والی بڑی عمارات کو روکنا اور اس پارک کا تحفظ کرنا۔ حالانہ استنبول میں کئی ایک مشہور شاپنگ سینٹر اور پلازا موجود ہیں لیکن حکومت یہ چاہتی ہے کہ اس پارک کو ختم کرکے اس کی جگہ پر ایک بڑا شاپنگ پلازا تعمیر کیا جائے، یہی وہ وجہ ہے کہ لوگوں کا ہجوم اس پارک کو بچانے اور حکومت کی غلط پالیسیوں کے خلاف جمع ہوگیا اور حکومت کے خلاف احتجاج شروع کردیا۔ احتجاج کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب حکومتی مشینری نے پارک میں موجود درختوں کو کاٹنا شروع کیا۔

یہ ماجرا دیکھتے ہی لوگوں کے جھنڈ کے جھنڈ اپنے بچوں اور گھریلو ضروری سامان اور کتابوں کے ساتھ پارک کی طرف نکل کھڑے ہوئے اور درختوں کے نیچے عارضی خیمے لگا کر بیٹھ گئے تاکہ درختوں کو کاٹے جانے سے بچایا جا سکے اور پارک کو ختم کرنے کے حکومتی منصوبے کی راہ میں رکاوٹ بنا جائے۔ شہریوں نے اپنے خیمے درختوں کے نیچے لگا کر رات یہاں بسر کی۔ اگلی صبح حکومت کے بلڈوزر آئے اور انہوں نے سینکڑوں سالہ پرانے درختوں کو کاٹنے اور گرانے کی کوشش کی تو انہی شہریوں نے اٹھ کر حکومتی مشینری کے آپریشن میں مزاحمت کی اور درختوں کی کٹائی کو روک دیا۔ ان احتجاجی شہریوں نے صرف اور صرف یہ کیا کہ وہ سب کے سب حکومتی مشینری کے سامنے کھڑے ہوگئے اور اعلان کیا کہ اگر درختوں کو کاٹنا چاہتے ہو تو پھر پہلے ہمارے جسموں کو روندنا ہوگا۔ حیرت کی بات تھی کہ اس موقع پر کوئی اخباری نمائندہ، کوئی ٹی وی رپورٹر موجود نہ تھا جو ان تمام حالات کے بارے میں عوام کو آگاہ کرتا۔ اس موقع پر میڈیا کی طرف سے مکمل بلیک آؤٹ کیا گیا تھا لیکن پولیس اس مقام پر واٹر کینن اور آنسو گیس کے ساتھ پہنچ گئی اور پارک کی حفاظت کے لئے موجود شہریوں پر واٹر کینن اور آنسو گیس کے گولوں کا استعمال کیا گیا تاکہ تمام احتجاجی مظاہرین پارک سے باہر نکل جائیں۔

پولیس کی جانب سے ہونے والے تشدد کے نتیجے میں شام کو مظاہرین کی تعداد کئی گنا بڑھ گئی تاہم استنبول کی لوکل حکومت نے پارک کی جانب آنے والے تمام راستوں کو بھاری رکاوٹوں کی مدد سے بند کرنا شروع کردیا، شہر میں چلنے والی میٹرو کو بند کردیا گیا، فراری کو بھی بند کر دیا گیا جبکہ تمام سڑکوں کو بلاک کر دیا گیا لیکن حکومتی تمام کوششوں کے باوجود لوگوں کے جھنڈ کے جھنڈ پیدل مارچ کرتے ہوئے Gezi Park کے قریب تقسیم اسکوائر پر پہنچنا شروع ہوگئے۔ وہ سب کے سب لوگ پورے استنبول سے پارک کی طرف پہنچ رہے تھے۔ پارک پہنچنے والے لوگوں میں ہر طرح کے نظریات، مذاہب اور ہر مختلف قسم کے بیک گراؤنڈ رکھنے والے لوگ تھے۔ وہ سب اس لئے جمع ہوئے تھے کہ پارک کو ختم کرنے کے منصوبے کے خلاف مزاحمت کریں اور ترک حکومت کی غلط پالیسیوں کے خلاف احتجاج کریں۔

ہر ترک شہری کو ترکی کے معزز شہری کے طور پر رہنے کا حق ہے، اس ہی لئے وہ سب جمع ہوئے تھے اور احتجاجی مارچ کر رہے تھے کہ پولیس نے ان پر بھاری ہتھیاروں سے حملہ کیا اور آنسو گیس سمیت ربڑ کی گولیوں کا استعمال بھی کیا، جس کے نتیجے میں متعدد شہری زخمی ہوگئے۔ اسی دوران پولیس کے تشدد کے نتیجے میں دو نوجوان شہید بھی ہوئے جبکہ ایک نوجوان لڑکی کے سر میں پولیس کی جانب سے پھینکا جانے والا آنسو گیس کا شیل لگا جس کے باعث وہ شدید زخمی ہوگئی۔ پولیس ہجوم پر سیدھے فائر کر رہی تھی، پولیس کے شیل لگنے سے شدید زخمی ہونے والی نوجوان لڑکی تین گھنٹوں تک ایمرجنسی وارڈ میں رہنے کے بعد انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں منتقل کر دی گئی۔ میں یہ مقالہ اس لئے کھ رہا ہوں کہ شاید میری آواز کسی تک پہنچ جائے اور میں اس مقالے کو ان تمام لوگوں کے نام کرتا ہوں جو اس روز ترک پولیس کی وحشیانہ پولیس گردی کا نشانہ بنے ہیں۔

اس مظاہرے میں شریک لوگوں کا کوئی خفیہ ایجنڈا نہیں تھا جو تھا سب کے سامنے تھا۔ ان کا ایجنڈا کیا تھا یہ انتہائی واضح ہے۔ پورے کا پورا ترکی حکومت کی جانب سے کارپوریشن کو فروخت کیا جا چکا ہے، صرف اس لئے کہ یہاں شاپنگ مال تعمیر کئے جائیں، عیش و عشرت کدہ بنائے جائیں اور اسی طرح کے کئی ایک ایسے منصوبے جو عوام کی خواہشوں کے مخالف ہیں۔ اسی طرح ترکی حکومت نے اپنے ملک کی عوام کی امنگوں اور خواہشات کے بر خلاف شام پر حملے اور وہاں دہشت گردوں کی حمایت اور مدد کی جس کے باعث ترک عوام میں شدید بے چینی اور اضطراب پایا جاتا ہے۔ سب سے بڑھ کر تو یہ ہے کہ حکومت لوگوں کی ذاتی زندگیوں کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے جو ناقابل برداشت ہے۔ اس حکومت نے کئی ایک ایسے قوانین بنائے ہیں جو عوام پسند نہیں کرتے۔ مثال کے طور پر شراب کی کھلی خرید و فروخت، اسقاط حمل، cesarean birth اور اسی طرح کے کئی ایک غیر اخلاقی قوانین منظور کئے جا چکے ہیں۔

عوام جو Gezi Park کی طرف مارچ کر رہے ہیں اور احتجاجی مظاہروں میں شامل ہیں۔ ان کے مطالبات میں آزادانہ زندگی جس میں کسی بھی شہری کی ذاتی زندگی میں حکومتی عمل دخل نہ ہو، انصاف کی فراہمی، ناموس کا تحفظ شامل ہیں۔ وہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ جس شہر میں وہ رہتے ہیں وہاں پر ہونے والے فیصلوں میں ان کی رائے بھی شامل کی جائے نہ کہ حکومت اپنی من مانی کرتی پھرے۔ البتہ ان مطالبات کے بدلے میں ان کو حکومت کی جانب سے گولیاں اور آنسو گیس کے نہ ختم ہونیوالے شیل ملے ہیں جس کے نتیجے میں اب تک تین افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ مگر وہ اب بھی مارچ کر رہے ہیں اور احتجاج کر رہے ہیں، سینکڑوں بلکہ ہزاروں افراد ان کے احتجاج میں شامل ہو رہے ہیں، کئی کوسوں میل کا سفر پیدل طے کرکے ہزاروں لوگ تقسیم اسکوائر پر پہنچ رہے ہیں تاکہ یہاں پر احتجاج کرنے والے اور جائز مطالبات کی منظوری کے لئے جدوجہد کرنے والے پرامن مظاہرین کی مدد کریں۔ یہاں ترکی کا مقامی کوئی اخباری نمائندہ نہیں پہنچا ہے اور نہ ہی کوئی ٹی وی چینل پہنچا ہے کیونکہ وہ سب کے سب تو ’’ مس ترکی ‘‘ کی کوریج کر رہے ہیں یا پھر اپنے ٹی وی چینلز اور اخبارات میں ’’ کیٹ واک ‘‘ کی خبروں سے دل بہلانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ دوسری طرف پولیس ان پر امن احتجاجی مظاہرین پر کالی مرچوں کا اسپرے کر رہے ہیں اور زہریلی گیس کا استعمال کرکے ان کو بھگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

تقسیم اسکوائر کے گرد و اطراف میں موجود اسکولوں، فائیو اسٹار ہوٹلوں اور اسپتالوں کے دروازے زخمی مظاہرین کے لئے کھلے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹرز ہوٹل کے کمروں اور اسکول کے کلاس رومز میں زخمی ہونیوالے مظاہرین کو ابتدائی طبی امداد دینے میں مصروف عمل ہیں، کچھ پولیس افسران ایسے بھی ہیں کہ جنہوں نے معصوم اور نہتے پر امن احتجاجی مظاہرین پر اسپرے اور آنسو گیس کے گولے پھینکنے سے انکار کردیا ہے جس کے نتیجے میں ان کو نوکریوں سے نکال دیا گیا ہے۔ تقسیم اسکوائر کے گرد و نواح میں جامرز لگا دئیے گئے ہیں تاکہ موبائل سروس سمیت انٹرنیٹ سہولت بھی کام نہ کرے۔ علاقے میں موجود رہائشی آبادی اور تاجروں نے مظاہرین کو فری وائر لیس سروس فراہم کر رکھی ہے۔ دوسری جانب ہوٹلوں سے مظاہرین کے لئے مفت غذا کی فراہمی کی جا رہی ہے۔ دوسری طرف عوام ترکی کے دارالحکومت انقرہ اور Izmir میں بھی استنبول میں احتجاج کرنے والوں کے حق میں مظاہرے کر رہے ہیں۔ افسوس کہ ترکی کا میڈیا بلیک آؤٹ کررہا ہے اور مس ترکی اور کیٹ واک کی خبریں شائع کرنے کو ترجیح دے رہا ہے۔

مظاہرین کی حمایت اور حکومت کی غلط پالیسیوں کے خلاف ترکی کی مرکزی یونین Confederation of Public Workers' Unions (KESK) نے بھی دو روزہ ہڑتال کا اعلان کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ تقسیم اسکوائر پر پولیس کے تشدد کو فی الفور بند کروایا جائے اور حکومت مخالف مظاہرین کے جائز مطالبات کو تسلیم کیا جائے۔ یونین نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ حکومت پر امن احتجاجی مظاہرین کے خلاف ریاستی دہشت گردی کے جرم کی مرتکب ہو رہی ہے جو کہ نا قابل معافی ہے۔ 31 مئی سے ترکی میں شروع ہونیوالے اس عوامی انقلاب میں اب تک تین افراد شہید ہو چکے ہیں جبکہ ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہیں، جبکہ حکومتی ذرائع کے مطابق دو ہزار سے زائد افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔ موجودہ صورتحال کے مطابق استنبول اور انقرہ میں ہونیوالے حکومت مخالف مظاہروں میں عوام ترکی کے وزیراعظم رجن طیب اردگان سے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

حالیہ موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ترکی کے ڈپٹی وزیراعظم Bulent Arinc نے عوام سے پولیس کی جانب سے کئے جانے والے تشدد ہر معافی مانگی ہے، تاہم ترکی کی عوام نے اس معافی کو سیاسی چال قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے۔ ترکی کے ڈپٹی وزیراعظم نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ احتجاج کا سلسلہ ختم کر دیں البتہ احتجاجی مظاہرے بڑھتے جا رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق منگل چار جون کو ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں عوام نے حکومتی معافی کو مسترد کرتے ہوئے رجب طیب اردگان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے کہ جنہوں نے مظاہرین کو دہشت گرد قرار دے کر پولیس کو احکامات جاری کئے تھے کہ ان پر تشدد کیا جائے۔ حکومت کی معافی اور درخواست کے بعد سڑکوں پر نعرے گونج رہے ہیں کہ ہم یہاں ہیں، طیب کہاں ہے؟ جس نے ہمیں دہشت گرد قرار دیا تھا۔

ایک چوبیس سالہ طالب علم Didem Kul جو احتجاجی مظاہروں میں شریک ہے کا کہنا ہے کہ اگر حکومت جائز مطالبات مان لے اور اپنی منفی اور غلط پالیسیوں کو ختم کردے تو شاید ہم لوگ گھروں کو چلے جائیں لیکن ہم احتجاج کئے بغیر گھروں کو نہیں جائیں گے اگر ہم گھروں کو چلے گئے تو احساسات نہیں بدلیں گے پھر ہماری عوام کی قربانیاں رائیگاں چلی جائیں گی۔ اس طالب علم کا کہنا ہے کہ بس رجب طیب اردگان کی حکومت مستعفی ہو جائے اور عوام کی من پسند حکومت تشکیل پانی چاہئیے جو سابقہ حکومت کی غلط اور منفی اور عوام دشمن پالیسیوں کے بر خلاف کام کرے۔ واضح رہے کہ جمعہ کے روز سے ترکی کے شہر استنبول سمیت دارالحکومت انقرہ اور Izmir, Mugla, Antalya سمیت کئی شہروں میں دسیوں ہزار لوگ حکومت کے خلاف سخت احتجاج کر رہے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ کسی دوسرے کی لئے برا سوچو تو اپنے سامنے آتا ضرور ہے۔ خواہ دیر سے سہی لیکن ضرور آتا ہے، مثال مشہور ہے کہ کسی اور کے لئے گڑھا کھودنے والا خود اسی گڑھے میں ہی جا گرتا ہے، خطے میں ترک حکومت کی مثال یہی ہے۔
خبر کا کوڈ : 271134
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
بہت زبردست کالم ہے، معلومات کے حصول میں کافی مدد ملی ہے۔
Pakistan
very nice article Mr Karbalai
ہماری پیشکش