2
0
Monday 19 May 2014 19:15
حامد میر پر حملے کے بعد

کراچی دہشتگردوں کے نرغے میں (1)

کراچی دہشتگردوں کے نرغے میں (1)
تحریر: عرفان علی

19 مئی 2014ء کو جب یہ سطور تحریر کی جا رہی ہیں، مزید 2شیعہ  مسلمان شہید کئے جاچکے ہیں۔ شیرازی امام بارگاہ میٹھادر کے متولی اور مجلس وحدت مسلمین سیاسی ونگ کے رہنما شوکت شیرازی میٹھادر کے علاقے میں ایک سنی دوست قیصر کے ہمراہ یزیدی، تکفیری، ناصبی دہشت گردوں کی گولیوں کا ہدف بن کر جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ آغا محسن رضا نامی شیعہ دکاندار لیاقت آباد (لالو کھیت) ڈاک خانہ بس اسٹاپ کے نزدیک شہید کر دیئے گئے۔ 2شیعہ جوان گذشتہ 2 روز میں یزیدی دہشت گرد حملوں میں زخمی ہوکر زندگی اور موت کی درمیانی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ ماہ مئی کی5، 6، 8، 13 اور 14 تاریخ کو 5 مختلف دہشت گردانہ حملوں میں 5 شیعہ شہید ہوئے۔ ماہ اپریل میں 15 شیعہ مسلمان بشمول ڈاکٹرز، وکلاء، تاجر، اسکاؤٹ شہید کئے گئے تھے۔

یہ کراچی وہی شہر ہے جہاں ڈرون حملوں کے خلاف سب سے بڑے احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں ہوئیں، جہاں لگنے والے امریکہ مردہ باد کے نعرے کی گونج وائٹ ہاؤس میں سنائی دیتی ہے۔ نائن الیون سے پہلے جب طالبان افغانستان پر حکمران تھے اور صدر بل کلنٹن پاکستان کے مختصر ترین دورے پر اسلام آباد آئے تھے، تب یہ کراچی کے شیعہ نوجوان اور ان کی طلبہ تنظیم امامیہ اسٹوڈنٹس کی طالبات ہی تھیں جنہوں نے کراچی پریس کلب کے باہر ان کے دورے کے خلاف احتجاج کیا تھا اور قید و بند کی سختیاں بھگتی تھیں۔ یہ پاکستان کے وہ غیرت مند بیٹے اور بیٹیاں تھیں، جنہوں نے مادر وطن کی عزت اور وقار کی لاج رکھی اور پوری قوم کی نمائندگی کی۔ اس شہر کراچی کے بے گناہ شہریوں کو اجرتی قاتل، گینگسٹرز اور انڈر ورلڈ کے افراد تو مارا ہی کرتے تھے، لیکن مذہب کا نام استعمال کرنے والے تکفیریوں نے بھی اس شہر کو جہنم بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑٖی۔ ثابت ہوا کہ یہ دہشت گرد خود امریکہ و اسرائیل کے ایجنٹ ہیں۔

دہشت گردی کے واقعات کے اعداد و شمار جمع کرنے والی ایک ویب سائٹ کے مطابق سال 2014ء میں 19 اپریل تک دہشت گردی اور ہدف بناکر قتل کرنے (یعنی ٹارگٹ کلنگ) کے 270 واقعات انہوں نے ریکارڈ کئے ہیں۔ کئی بم ناکارہ بنائے جاچکے ہیں اور کئی بم پھٹ کر تباہی پھیلا چکے ہیں۔ 28 اپریل کی صبح بھی ایک دیوبندی مدرسے کے اندر بم پھٹا۔ پولیس کہتی ہے کہ ایک زخمی طالب علم نے انہیں بتایا کہ ایک ساتھی طالب علم باہر سے بم اٹھاکر اندر لایا اور وہ اس سے کھیل رہے تھے کہ بم دھماکے سے پھٹ گیا اور چار طالب علم جاں بحق ہوگئے، لیکن بعض حلقوں نے یہ دعویٰ کیا کہ طلباء کو بم استعمال کرنے کا طریقہ سمجھایا جا رہا تھا۔ دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ بم لانے والے طالب علم کے ہاتھ میں بم گیٹ پر کھڑے چوکیدار کو نظر آتا تو وہ اسے وہیں روک لیتا۔

ماہ اپریل میں دہشت گردی کا اہم ترین واقعہ جیو نیوز چینل کے مشہور اینکر پرسن حامد میر پر حملہ تھا۔ 19 اپریل بروز ہفتہ وہ کراچی ایئرپورٹ سے براستہ شاہراہ فیصل اپنے دفتر جا رہے تھے، لیکن ایئرپورٹ روڈ سے جیسے ہی شاہراہ فیصل کی جانب ان کی کار مڑی تو کسی نے فائرنگ کر دی۔ ان کے کہنے پر ڈرائیور انہیں آغا خان ہسپتال لے گیا جہاں انہیں لگنے والی 6 گولیوں کے زخم مندمل کرنے کے لئے آپریشن اور علاج کیا گیا۔ اس افسوسناک اور قابل مذمت حملے کے بعد جیو انتظامیہ نے پاکستان کے سب سے بڑے اور اہم ترین انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی کا میڈیا ٹرائل شروع کر دیا۔ حامد میر کا کہنا تھا کہ انہیں ریاستی اور غیر ریاستی عناصر سے خطرہ لاحق تھا، لیکن جیو نیوز نے غیر ریاستی عناصر میں سے کسی کا نام لینا گوارہ نہیں کیا۔ آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹننٹ جنرل ظہیرالاسلام کی تصویر کے ساتھ حامد میر پر حملے کی خبر مسلسل نشر کی جاتی رہی، گویا وہی حملے کے ذمے دار تھے۔

حامد میر پر آئی ایس آئی کیوں حملہ کرے گی؟ میری نظر میں آج اگر حامد میر اس پائے کا صحافی ہے تو اس میں اس کی ذاتی صلاحیتوں سے زیادہ اسی اہم ادارے کا کردار ہے۔ عامر میر اور حامد میر کی بڑی بڑی خبروں کے ذرائع کون ہوتے ہیں؟ سکیورٹی سے متعلق امور کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کا ملکی سلامتی اداروں سے دوستانہ ایک فطری بات ہے، لیکن دیگر کی نسبت میر برادران کو اندر کی خبر پہلے مل جاتی ہے۔ جب ان کا نام ہٹ لسٹ میں آیا تو انہوں نے اپنے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں کہا تھا کہ انہیں معلوم ہے کہ اس ہٹ لسٹ پر کون عمل کرے گا۔ جو وجوہات حامد میر نے بیان کی ہیں، اگر انہیں درست مان لیا جائے تو مجھ سمیت کئی صحافی اب تک ملکی سلامتی اداروں کے ہاتھوں مارے جاچکے ہوتے۔ جی ہاں! حامد میر کو بہت دیر بعد بلوچستان یاد آیا، بہت سے صحافی شروع سے اس موضوع پر بلوچستان سے منتخب سینیٹرز ودیگر رہنماؤں کا موقف پیش کرتے رہے ہیں اور وہ خبریں علیحدگی پسند بلوچ ویب سائٹ پر بھی پائی جاتی ہیں۔ ماما قدیر بلوچ کے لانگ مارچ کا قافلہ جب اسلام آباد کی سڑک پر جمع تھا، تب اسلام آباد کے کئی صحافیوں نے ان کی کوریج کی تھی۔ حتیٰ کہ انہوں نے لائیو پروگرام بھی کیا تھا۔ حامد میر کو دو دن بعد یاد آیا تھا کہ ماما قدیر کے ساتھ پروگرام کرنا ہے۔

حامد میر کی دوسری بات جو عامر میر نے پڑھ کر سنائی وہ یہ تھی کہ سیاست میں خفیہ اداروں کے کردار پر تنقید کے حوالے سے بھی ان سے ناراض تھے۔ یہ بھی ایسی وجہ نہیں کہ جس پر کوئی ان پر حملہ آور ہوجائے، ہم سب کا صحافتی ریکارڈ ایسی خبروں اور تجزیوں سے بھرا پڑا ہے۔ جب ان کے بہت اچھے تعلقات تھے تو بہت سے صحاٖفیوں کو چائے پر طلب کیا جاتا تھا اور ناپسندیدگی کا اظہار کر دیا جاتا تھا، لیکن انہوں نے جو کہانی سنائی ہے وہ میجر وجاہت نامی آدمی کے ایس ایم ایس ہیں۔ حامد میر کو یاد رہے کہ جیسے صحافیوں کو ڈیل کرنے کے لئے کم سے کم کرنل رینک کا افسر ہوتا ہے۔ دی نیشن کے ایک صحافی نے سول اداروں میں فوجی افسران کی تعیناتی کے خلاف خبریں لگائیں، ان کی پٹائی ہوئی، غلطی ان سے یہ ہوئی کہ ایک خبر میں انہوں نے ایک سول ادارے کی انتظامیہ کے خلاف احتجاج کو ایک دوسرے ادارے کے خلاف احتجاج لکھ دیا تھا، جبکہ تصاویر میں بھی واضح تھا کہ کس کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے۔ ان کی اس غلطی کے باوجود ان کی پٹائی پر احتجاج کیا گیا اور یہ واضح کیا گیا کہ خبر کی تردید اس مسئلے کا حل تھی، اگر وہ ہتک عزت کا مقدمہ فائل کر دیتے تب بھی ان کا حق تھا، لیکن پٹائی کسی صورت جائز عمل نہیں تھا۔

اسی معاملے کو رفع دفع کرنے کے لئے آئی ایس پی آر کے کرنل اشفاق صاحب ان کے دفتر گئے، توجہ دلائی گئی کہ بعض اخبارات فوج کے خلاف فعال ہیں، عرض کی گئی حضور جس ادارے میں اس وقت آپ موجود ہیں، اس سے بڑھ کر پاکستان میں نظریہ پاکستان کا پرچار کوئی اور نہیں کرتا۔ اس لئے اس ادارے پر یہ الزام نہیں لگایا جاسکتا۔ کرنل اشفاق نے معاملہ حل کروا دیا اور پھر کبھی شکایت نہیں ہوئی۔ ایسی باتیں صحافتی زندگی کے روز کا معمول ہیں۔ جس ادارے پر حامد میر نے الزام لگایا، اس کو ایک خبر کا ذریعہ معلوم کرنا تھا، اسی لئے ایک صحافی کو طلب کیا گیا۔ جنوری یا فروری 2002ء کی بات ہے، چائے بسکٹ کھا کر وہ واپس ہوئے۔ روزنامہ جسارت کے مظفر اعجاز اور اے آر وائی کے شیخ محمود کو راستے سے اٹھایا گیا تھا، یقیناً یہ غلط عمل تھا، لیکن کیا کبھی حامد میر نے ان کی حمایت میں کوئی بات کی۔؟

اس کے باوجود مشکل کی اس گھڑی میں صحافی حامد میر کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اگر ہر ادارہ اپنے ادارے کے وقار کے تحفظ میں کوشاں ہے تو صحافی کیوں اپنے ادارے صحافت سے وابستہ رکن حامد میر کو تنہا کیوں چھوڑیں؟ ایک جمہوری ریاست میں صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہوتا ہے۔ لہٰذا س ریاست میں صحافی بھی ایک حیثیت رکھتے ہیں۔ حامد میر کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کی شکایات پر توجہ دی جائے۔ اس کے بچوں پر حملہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ جس افسر نے اس کو دھمکیاں دیں، اس کا کورٹ مارشل کیا جانا چاہیے۔ فوج ہماری دفاعی لائن ہے، لیکن فوج میں غلط کام کرنے والوں کی سزا کی روایت بھی ہے۔ جب ٹنڈوبہاول سندھ میں دیہاتیوں کو ڈاکو قرار دے کر مارا گیا، تب جنرل آصف نواز نے تحقیقات کا حکم دیا اور پھر مرتکب افسران کو پھانسی کی نہ صرف سزا سنائی گئی بلکہ اس پر عمل بھی کیا گیا۔ جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کرنے والے فوجی افسران کا بھی کورٹ مارشل ہوا۔ جی ہاں، یہ اسی فوج کی وہ روایت ہے جس پر ہمیں من حیث القوم فخر کرنا چاہیے۔

فوج اور انٹیلی جنس ادارے کے میڈیا ٹرائل کی ٹائمنگ بہت غلط ہے۔ جب فوج دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں مصروف ہے، اس وقت فوج کو ڈی مورالائز کرنا کسی طور صحافت کے مقدس پیشے سے انصاف نہیں ہے۔ جنگ گروپ کا یہ ادارہ آزادی صحافت کا علمبردار کبھی نہیں رہا۔ دی نیوز کے ایک کورٹ رپورٹر نے بلوچستان کے چیف جسٹس کے بارے میں ایک خبر دی تھی تو اسے تردید کرنے پر مجبور کیا گیا۔ میر شکیل الرحمان کے اس حکم کے انکار پر رپورٹر کو نوکری سے ہاتھ دھونے پڑے۔ آج کل یہ صحافی ڈان گروپ سے وابستہ ہے۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 384185
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

زبردست۔ حامد میر کے بارے میں اپنوں کا موقف تاحال نہیں پڑھا تھا۔ متوازن تحریر ہے۔
صحافت کے بدکرداروں کی تارِیخ بے نقاب کرنے پر شکریہ۔
ہماری پیشکش