0
Friday 3 Apr 2009 11:23

انقرہ اجلاس کو خطے کی طویل المیعاد ترقی کی بنیاد بنا دیں

انقرہ اجلاس کو خطے کی طویل المیعاد ترقی کی بنیاد بنا دیں
انقرہ میں ترکی کی میزبانی میں بدھ کے روز منعقدہ تیسرے پاک افغانستان سربراہی مذاکرات سے خطے میں امن و استحکام قائم کرنے کی کوششوں کے ایک کثیر المقاصد تعاون کی طرف بڑھنے کا تاثر اجاگر ہوتا ہے۔ ترکی کی میزبانی میں 2007ء سے پاکستان ،افغانستان اور ترکی کے صدور کے درمیان مشاورت کے سلسلے کا یہ تیسرا اجلاس کئی اعتبار سے خاص اہمیت کا حامل ہے۔اول یہ کہ اس میں پہلی بار تینوں ممالک کے فوجی سربراہوں اور اعلیٰ انٹیلی جینس حکام نے شرکت کی جس سے باہم مل جل کر کام کرنے کی سنجیدہ کوششوں کا اظہار ہوتا ہے۔ دویم یہ کہ مذکورہ ملاقات پچھلے سال دسمبر میں استنبول میں منعقدہ دوسرے سربراہی اجلاس کے صرف چار ماہ بعد ہوئی ہے۔ استنبو ل کانفرنس میں خطے کی سلامتی اور انٹیلی جینس سے تعلق رکھنے والے امور پر بطور خاص توجہ دی گئی تھی اور تینوں ممالک نے عسکریت پسندی اور انتہا پسندی سے زیادہ موثر طور پر نمٹنے کے لئے باہمی تعاون بڑھانے کے طریقوں کا جائزہ لیا تھا۔ انقرہ اجلاس کے انعقاد کا وقت بھی اس اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے کہ 26ارکان پر مشتمل معاہدہ شمالی اوقیانوس کی تنظیم (نیٹو) کا سربراہی اجلاس 3اور 4اپریل کو پیرس میں منعقد ہو رہا ہے۔ اس طرح اس تنظیم کے کلیدی ممبر کی حیثیت سے ترکی کیلئے بہتر طور پر ممکن ہو گا کہ وہ پاکستان اور افغانستان کے خیالات اور ان کی سیکورٹی کی ضروریات کی نیٹو سربراہوں کے سامنے ترجمانی کر سکے۔ جبکہ 6 اپریل سے امریکہ کے صدر اوباما ترکی کا دو روزہ دورہ شروع کر رہے ہیں۔بدھ کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں علاقے کے امن،سلامتی اور خوشحالی کے موضوعات زیر غور رہے۔ پاکستان کے صدر آصف علی زرداری ،افغان صدر حامد کرزئی اور ترکی کے صدر عبد اللہ گل نے عسکریت پسندی و دہشت گردی سے مشترکہ طور پر نمٹنے اور وسیع تر اقتصادی تعاون کو فروغ دینے کے لئے سیاسی ،فوجی اور انٹیلی جینس شعبہ جات کے مابین تعاون بڑھانے کے پختہ عزم کا اظہار کیا ۔ دن بھر کے مذاکرات میں باہمی دلچسپی کے علاقائی امور پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے تناظر میں غور و غوض کیا گیا ۔مذاکرات کے دوران اور اس سے قبل غیر رسمی ملاقات میں اسلامی انتہا پسندی کے خلاف فوجی تعاون پر تینوں ممالک نے اتفاق کا اظہار کیا۔ اس موقع پر صدر زرداری نے عسکریت پسندی کے سدباب کے لئے مشترکہ کوششوں کے فروغ کی ضرورت اجاگر کی جبکہ افغان صدر حامد کرزئی نے پاکستان کی طرف سے کئے گئے اقدامات کو سراہتے ہوئے یقین دلایا کہ افغانستان میں امن و استحکام کے لئے نئے جذبے سے کوششیں شروع کی گئی ہیں۔ ترکی کے صدر عبداللہ گل نے درست طور پر اس بات کی نشان دہی کی کہ خطے کے ملکوں کو اپنی سلامتی کے لئے غیر ملکی قوتوں پر بھروسہ کرنے کی بجائے خود ٹھوس اقدامات کرنے ہو نگے۔ اجلاس کے دوران ان معاہدوں پر عملدرآمد کی ابتدائی پیش رفت کا جائزہ لیا گیا جنہیں دسمبر کے مہینے میں استنبول میں منعقدہ سربراہی اجلاس میں حتمی شکل دی گئی تھی۔ مذکورہ سمجھوتوں کے تحت انقرہ اور اسلام آباد مل کر پاک افغان بارڈر کے پاکستانی حصے میں مشترکہ منصوبے شروع کریں گے جبکہ سرحد کے دوسری طرف افغانستان میں بھی اسی نوع کے منصوبے بروئے کار لائے جائیں گے۔ ان فیصلوں کا مقصد اسلام آباد اور کابل کو ایک دوسرے کے زیادہ قریب لانا ہے۔
یہ سب باتیں حوصلہ افزا ہیں۔ تینوں ملکوں کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون کے راستے کھلتے نظر آ رہے ہیں۔ ماضی میں پاکستان ،ترکی اور ایران کے درمیان باہمی تعاون و اشتراک آر سی ڈی کی تنظیم کی صورت میں تینوں ممالک کے لئے خاصا مفید ثابت ہوا تھا۔ اس وقت افغانستان کو بھی اس ادارہ جاتی ڈھانچے میں لانے کی ضرورت محسوس کی گئی تھی مگر وہ سوویت بلاک میں شامل ہونے کی بناء پر اس اتحاد کے سلسلے میں بعض تحفظات رکھتا تھا۔اب پاکستان اور ترکی کے روایتی سماجی ،اقتصادی اور دفاعی تعاون میں افغانستان شامل ہو چکا ہے۔ تینوں ممالک مشترکہ مذہب، روایات، ثقافت، اور قدیم تاریخی روابط کے حامل ہیں۔ ان کا تعاون علاقے کے لوگوں کے درمیان باہمی میل جول بڑھانے اور مشترکہ مفادات کے بہتر طور پر حصول کا ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔ جنوبی ایشیائی ملکوں کی علاقائی تنظیم(سارک) سے بھی ایسی ہی توقعات وابستہ کی گئی تھیں جو علاقے کے بڑے ممالک پاکستان اور بھارت کے دیرینہ تنازعات طے نہ پانے کے باعث مطلوب نتائج نہیں دے سکی۔ البتہ علاقائی تعاون کی تنظیم (ای سی او) جسے جو وسطی ایشیائی ریاستوں کی شمولیت کے باعث آر سی ڈی کی توسیع شدہ شکل سمجھا جاتا ہے ،علاقے کے ملکوں میں قریبی تعاون کی وسیع بنیادیں فراہم کر سکتی ہے۔ خطے کے ممالک کو قدرت نے جن بے بہا وسائل سے مالا مال کیا ہے، انہیں ایک دوسرے کے تعاون ،اشتراک، فنی مہارت، خام مال اور افرادی قوت کے ذریعے بروئے کار لایا جائے تو غربت، افلاس اور بیروزگاری سمیت بہت سے مصائب سے چھٹکارا پا کر علاقے کے محروم اور پسماندہ طبقات کو وہ سہولتیں فراہم کی جا سکتی ہیں جو ترقی یافتہ ممالک میں زندگی کی بنیادی ضرورتوں کا حصہ ہیں۔
اس طرح ترکی، پاکستان اور افغانستان اپنے تعاون کو وقتی ضرورتوں سے آگے بڑھا کر ایک تنظیم اور ادارہ کی صورت دیں تو ان کے لئے علاقے میں موجود چھپے ہوئے معدنی و قدرتی وسائل کو بہتر طور پر بروئے کار لانا ممکن ہو گا ۔تعلیم ،ٹیکنالوجی ، فنی مہارت جیسے انسانی وسائل کو قدرتی وسائل کے ساتھ یکجا کر کے حیرت انگیز نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنی توجہ درست سمت میں رکھتے ہوئے مختلف میدانوں میں مشترکہ منصوبے بروئے کار لائے جائیں ۔ نئی یونیورسٹیاں قائم کی جائیں۔ایک دوسرے کے طلبہ کو وظائف دیئے جائیں۔ ٹیکنالوجی کا انتقال ہو۔ مہارت میں تعاون ہو۔ ریلوے،ٹرانسپورٹ ، تیل اور گیس کی تلاش ،ماہی گیری ،ماہی پروری، لائیو اسٹاک ، زراعت، پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کی تدابیر، صنعت ،تجارت، کانکنی ،دھاتوں اور جواہرات کی تلاش سمیت مختلف شعبوں میں اشتراک کے ذریعے خطے کو غربت کے اندھیروں سے نکال کر خوشحالی کے اجالوں سے روشناس کرایا جا سکتا ہے۔ اقتصادی ترقی ہی آج کی دنیا کا وہ ہتھیار ہے جو قوموں کو عالمی برادری میں ممتاز مقام دلاتا اور ان کی آواز کو وقعت دیتا ہے۔ اس لئے انقرہ میں منعقدہ سہ فریقی سربراہی اجلاس کو وقتی ضروریات تک محدود نہیں رہنا چاہئے،اسے وسیع تر اور طویل المیعاد تعاون کی بنیاد ثابت ہونا چاہئے۔ ہمارے رہنماؤں کے اہداف و مقاصد واضح اور متعین ہونے چاہئیں۔ ہم پاکستان، ترکی اور افغانستان سمیت مسلم ممالک کے سربراہوں سے دردمندانہ گزارش کرتے ہیں کہ اپنے مسائل خود مل جل کر حل کرنے کے لئے باہمی رابطوں کو فروغ دیجئے۔ غیر ملکی طاقتوں کے کہنے پر ہونے والی ملاقاتیں ان کا ایجنڈا پورا کرنے کا ذریعہ بنیں گی۔اپنے عوام کے لئے کچھ نہ کیا جا سکے گا۔ بہتر صورت یہی ہے کہ اپنے ایجنڈے پر کام کریں ۔ علاقے کے لوگوں کو بھوک، غربت ، پسماندگی ،دہشت گردی، عسکریت پسندی کے بڑھتے ہوئے آسیب سے نکالنے کی ٹھوس تدابیر کریں۔
خبر کا کوڈ : 2365
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش