0
Wednesday 30 Nov 2022 21:31

ایک قوم، ایک منزل کا خواب

ایک قوم، ایک منزل کا خواب
تحریر: ارشاد حسین ناصر

جب ہم خود کو قوم کہتے ہیں تو قوم کے تقاضے بھی پورے کرنا ہوتے ہیں، قوم افراد سے مل کر بنتی ہے تو افراد قوم کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ پاکستان کو بنے پچھتر سال ہوچکے ہیں، مگر ہم بحیثیت پاکستانی ایک قوم نہیں بن سکے۔ ہاں کئی ایسے مواقع و حادثات میں یہ ضرور ہوا کہ ہم نے قومی ذمہ داریاں ادا کیں اور ایک قوم کی صورت میں چمکے، جیسے کشمیر میں آنے والے زلزلہ کے بعد ہم نے قوم بن کر متاثرین کی امداد و بحالی کیلئے دن رات ایک کر دیئے اور کراچی سے لیکر کشمیر تک اور بولان کی وادیوں سے لیکر خیبر کے پہاڑوں، گلگت بلتستان کے بلند و بالا پہاڑوں تک ہم ایک نظر آئے۔ سب کا جذبہ ایک تھا، سب کا ہدف ایک تھا، سب کا راستہ ایک تھا، سب کا مقصد ایک تھا۔ سب ایک ہی راہ کے راہی بنے نظر آئے اور وہ راہ زلزلہ زدگان کی مدد تھی، ان کی بحا لی تھی، ان کے مسائل کا حل تھا۔ ان کے نقصان کا ممکنہ ازالہ کرنا تھا، ان کے زخموں پر مرہم رکھنا تھا، ان کے دکھوں کو بانٹنا تھا۔ ان کے دردوں کو کم کرنا تھا اور یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ ہم نے کر دکھایا۔

دنیا تسلیم کرنے پہ مجبور ہوئی کہ پاکستانی قوم کو سلام پیش کرے، اس جذبے کو سلام پیش کرے، جس کا اظہار کیا گیا تھا۔ اہل پاکستان کے جذبے کو دیکھتے ہوئے ہی یہ ممکن ہوا کہ ساری دنیا نے ان مصیبت کے ماروں کی کھل کر مدد کی اور اپنے اپنے ممالک کی طرف سے بھرپور امداد کی گئی۔ یہ امداد سرکاری سطوح پہ بھی دی گئی اور بہت سے دوست ممالک کی طرف سے ان کی اپنی فیلڈ ٹیموں نے بھی امداد تقسیم کی، جبکہ میڈیکل آپریشنز نے گرائونڈ پر فیلڈ اسپتال بنا کر بھرپور کردار ادا کیا اور کئی ممالک نے متاثرین کیلئے خیمہ بستیوں کے شہر آباد کئے، جہاں متاثرین فیملیز کیساتھ رہتے تھے۔ ان کے بچوں کیلئے اسکولز تھے، ان کے لئے تین وقت کا کھانا ہوتا تھا اور ان کی طبی ضروریات کا مکمل خیال رکھا جاتا تھا۔

ہم سے بڑے بتاتے ہیں کہ ایک بار پاکستان کے دشمن ہمسائے ملک ہندوستان نے پاکستان پر حملہ کیا تھا، تب بھی ہم نے بطور قوم ان کا مقابلہ کیا۔ یہ 1965ء کی بات ہے، جب پاکستان کی ہندوستان کے ساتھ جنگ لگی تھی۔ اس وقت بھی لوگوں نے تمام تر سیاسی اختلافات اور مسائل بھول کر پاکستان کی افواج کو مکمل سپورٹ کیا اور ان کے جذبے بڑھائے، ان کیساتھ محاذوں پر لڑنے پہنچے۔ اس زمانے میں بہت سے ملی و قومی ترانوں کی گونج آج بھی کانوں میں پڑتی ہے تو قومی جذبہ بیدار ہوتا ہے۔ یہ ترانے واقعی بیدار کرنے والے تھے، حالانکہ اس وقت پاکستان ٹیلی ویژن یا پھر ریڈیو پاکستان ہوا کرتا تھا۔ پاکستان ٹیلی ویژن تو نیا نیا آیا تھا، اس کی نشریات بھی شاید مکمل نہیں تھیں۔ لاہور سے آغاز ہوا تھا، البتہ ریڈیو سب سے موثر ذریعہ تھا، جس کا آغاز پاکستان بننے کیساتھ ہی ہوچکا تھا۔ اس دور میں کوئی پیغام پہنچانے کیلئے بہت وقت درکار ہوتا تھا، پیغام کی تصدیق بھی مشکل ہوتی تھی، شاید اس وجہ سے افواہیں زیادہ نہیں ہوتی تھیں۔ شاید کم افواہوں پر ہی کام چل جاتا تھا۔

ایک قوم بنانے کے یہ نادار مواقع تھے، پاکستان بنتے دیکھنے والی قوم، پاکستان کے قیام کیلئے قربانیاں پیش کرنے والی قوم، پاکستان کے قیام کیلئے اپنا سب کچھ قربان کرنے والی قوم۔ ہمارے اس دور کے سیاستدان و حکمران نیز طاقت کے مراکز اگر اس دھرتی کے باسیوں کو ایک لڑی میں پرو دیتے تو بہت اچھا ہوتا۔ اس زمانے کے لوگ نسبتاً سادہ بھی تھے، زمانہ بھی اتنا ایڈوانس نہیں تھا۔ ترجیحات اور اغراض بھی اس حد تک مادی نہیں تھیں، آبادی بھی کم تھی۔ دوسری دنیا کے اثرات اور حالات کا جو اثر آج کسی دوسری قوم یا مملکت پر ہوتا ہے، وہ بھی نہیں ہوتا تھا۔ اس لئے یہ خطہ ایک مضبوط قوم میں مضبوطی سے آگے بڑھ سکتا تھا اور قوم بن کر دوسروں کیلئے ایک روشن مثال بن سکتے تھے۔ پاکستان جیسا قدرتی نعمات اور خزانوں سے مالا مال مضبوط قوم کا ملک ہوتا، (ان خزانوں، ان موسوں، ان فصلوں، ان معدنیات کے ہوتے ہوئے آج ہمارے ملک کو ڈیفالٹ کا خطرہ لاحق ہے)۔

اب زمانہ یکسر مختلف ہے، اب تو دنیا کے کسی پانچویں ملک کے حالات خراب ہوتے ہیں تو اپنے ملک کے لوگوں کو بھی اسے کاپی کرنے کا سوچا جاتا ہے۔ سری لنکا کے حالات خراب ہوئے تو ہمارے ہاں اس کی مثالیں دی جانے لگیں۔ عرب ملک تیونس میں حالات خراب ہوئے تو دیگر تمام عرب ممالک میں بھی حالات نے کروٹ بدلی اور اسے عرب سپرنگ کا نام دیا گیا۔ پھر مصر بھی بدلا، لیبیا بدلا، بحرین میں بھی حالات خراب ہوئے، شام کو بھی گھسیٹا گیا۔ یمن کے حالات آج تک خراب چلے آرہے ہیں، اب دنیا ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔ اس لئے کہ مفادات مشترک ہوچکے ہیں، ہم بطور پاکستانی اگرچہ ایک قوم کہلاتے ہیں، مگر ہمارے دل امت مسلمہ کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ ہم اپنی شناخت کو قائم رکھتے ہوئے اپنے مسلمان بھائیوں کیلئے احساسات ہمدردی رکھتے ہیں۔

بسا اوقات ہم دنیا بھر کے ستم رسیدوں کیساتھ ہمدردی جتانا فرض سمجھتے ہیں۔ ان کے مسائل و مشکلات کو بھی اپنی مشکلات و مسائل سمجھتے ہیں، مگر بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ پہلے خود ایک قوم بن جائو، پھر دوسروں کے غموں میں شریک ہو جانا۔ ان کے دردوں کو بانٹ لینا۔ بقول شاعر
عجیب درد کا رشتہ ہے ساری دنیا میں
کہیں ہو جلتا مکاں اپنا گھر لگے ہے مجھے

ہاں یہ ضروری ہے کہ اگر اپنے گھر میں اگر آگ لگی ہو تو پہلے اسے بجھا لینا ضروری ہوتا ہے۔ ایک صحیح و سالم شخص ہی کسی دوسرے کی مدد کرسکتا ہے، جو خود زخمون سے چور ہو اور تڑپ رہا ہو، اس کے لئے اپنے زخموں کو مرہم لگا لینا لازم و واجب ہوتا ہے، اسی صورت میں میں اپنے جذبہ ایثار و ہمدردی کو بروئے کار لاسکتا ہے۔ شاعر کی ایک درد مند دل کے لئے کہی یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ
اہل ہنر کے دل میں دھڑکتے ہیں سب کے دل
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے


بہرحال بات ہوئی تھی ایک قوم بننے کی، پچھتر برس گزر جانے کے بعد بھی ایک قوم نہ بن سکنے کی اور ریڈیو جیسے ذریعہ ابلاگ سے ہوتی ہوئی آج کے سوشل میڈیا دور کی کہ جب ایک بات سیکنڈز میں کئی ذرائع سے تصدیق کر دیتے ہیں۔ اس ریڈیو کے دور سے لیکر آج ڈیجیٹل میڈیا کے دور تک ہم نے کیا کھویا کیا پایا۔ دنیا نے کیا کھویا کیا پایا۔ ہمارے ہمسایوں اور ہمارے ساتھ آزادی حاصل کرنے والوں نے کیا کھویا کیا پایا۔ اس پر غور و فکر کرتے رہنا چاہیئے کہ شاید ہم اپنی زندگیوں میں کچھ بہتر کردار ادا کرسکیں، کچھ ایسا جسے یادگار رکھا جا سکے، کچھ ایسا جو اس دھرتی اور پاک سرزمین اور اس پر مستقبل میں بسیرا کرنے والوں کے لئے مفید ہو۔
دلوں میں حب وطن ہے اگر تو ایک رہو
نکھارنا یہ چمن ہے اگر تو ایک رہو

جعفر ملیح آبادی
خبر کا کوڈ : 1027776
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش