1
Friday 27 Jan 2023 16:54
3 رجب المرجب یوم شہادت کی مناسبت سے

امام علی نقی ؑ، دور ظلمت میں نور الہیٰ کا چراغ

امام علی نقی ؑ، دور ظلمت میں نور الہیٰ کا چراغ
تحریر: سید ثاقب اکبر

ویسے تو ائمہ اہل بیتؑ میں سے ہر ایک کی زندگی اپنے اندر تجلیات الہیٰ اور سامان حیرت دونوں سے عبارت ہے لیکن زیادہ حیرت ان ائمہ کے بارے میں ہوتی ہے، جنہوں نے اپنی مختصر اور رکاوٹوں سے بھری ہوئی زندگی میں منصب ہدایت کو نبھایا۔ انہی میں سے حضرت امام علی نقی ؑ ہیں، جو امام محمد تقی ؑ کے فرزند گرامی قدر ہیں اور بارہ ائمہ میں سے دسویں پیشوا ہیں۔ زیادہ حیرت اس وقت ہوتی ہے، جب ہم دیکھتے ہیں کہ آپ دس برس متوکل جیسے ظالم و سفاک عباسی حاکم کی قید میں رہے اور بعد میں بھی انھیں ان کے گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بعض علماء نے جن میں صاحب تذکرہ الخواص سبط ابن جوزی بھی شامل ہیں، انہوں نے قید کا زمانہ بیس برس سے زیادہ لکھا ہے۔ راقم کی رائے ہے کہ انھوں نے نظر بندی کے دور کو بھی بجا طور پر قید و بند کے زمانے میں شامل کیا ہے۔

امام علی نقی ؑ ابھی چھے برس کے ہی تھے کہ آپ کے والد گرامی امام محمد تقی علیہ السلام کو جواں عمری میں شہید کر دیا گیا۔ آپ کا دور امامت 220ھ سے 254ھ تک رہا اور پھر معتزباللہ عباسی نے اپنے کارندوں کے ذریعے زہر دے کر آپ کو شہید کر دیا۔ یاد رہے کہ متوکل وہی آمر اور ظالم حکمران ہے، جس نے امام حسین ؑ اور امام علی ؑ کی قبور کو مسمار کر دیا۔ یہاں تک کہ سید الشھداء کی قبر مطہر کے اطراف کے تمام گھروں کو مسمار کرکے وہاں کھیتی باڑی کرنے کا حکم دیا۔ امام علی نقی ؑ کی ولادت مدینہ منورہ میں صریا نام کی ایک بستی میں ہوئی۔ اس بستی کی بنیاد آپ کے جد بزرگوار امام موسیٰ کاظم ؑ نے رکھی تھی اور پھر کئی برسوں تک یہ کاظمی سادات کا مسکن رہا۔

اگرچہ آپ کی جوانی کا زیادہ تر حصہ قید و بند میں گزرا، تاہم آپ کو جتنا موقع ملا علوم و معارف اسلامی کی ترویج کے لیے اور مسلمان معاشرے کو کلامی انحرافات سے بچانے کے لیے راہنمائی اور ہدایت کا سلسلہ جاری رکھا۔ شیخ طوسی نے آپ کے اہم شاگردوں کی تعداد ایک سو پچاسی لکھی ہے، جن میں فضل بن شاذان، حسین بن سعید اہوازی، ایوب بن نوح، ابو علی (حسن بن راشد) حسن بن علی ناصر کبیر، عبد العظیم حسنی اور عثمان بن سعید اہوازی قابل ذکر ہیں۔ سید عبد العظیم حسنی کا مزار قدیمی تہران رے میں مرجع خلائق ہے۔ آپ کے شاگرد نہ فقط بزرگ مرتبہ راوی اور محدث تھے بلکہ اسلامی علوم و معارف کی تعلیم بھی دیتے تھے۔ ان شاگردوں نے بہت سی کتب بھی تالیف کی ہیں اور قابل قدر علمی ورثہ چھوڑا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس دور میں نئے نئے کلامی مکاتب فکر پیدا ہوئے جنھوں نے معاشرے میں بہت سے شبہات کھڑے کر دیئے اور دین کے حقائق کے بارے میں طرح طرح کے سوالات کھڑے کر دیئے، انہی کو سامنے رکھتے ہوئے امام علی نقی ؑ نے اپنے شاگردوں کی تربیت کی۔ مناظرات اور مکاتبات کے ذریعے سے لوگوں کو اسلام کی صحیح فکر سے آشنا کیا اور شبہات سے نکالا۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ جو مواقع امام محمد باقر ؑ اور امام جعفر صادق ؑ کو تبلیغ کے لیے میسر آئے، وہ بعد میں کسی امام کو میسر نہ آسکے۔ پابندیاں اور رکاوٹیں بڑھتی چلی گئیں۔ ان دونوں ائمہ کو ایسا دور میسر آیا، جسے آج کی زبان میں رژیم چینج کا دور کہا جاسکتا ہے۔ ان ائمہ کے دور میں بنو امیہ اور بنو عباس کی باہم رسہ کشی اپنے عروج پر پہنچ گئی، جو بنو عباس کی کامیابی پر منتج ہوئی۔ اس دوران میں جو فرصت ائمہ اہل بیت ؑ کو میسر آئی، وہ ہمارے لیے ایک عظیم سرمایہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ امام علی نقی ؑ جن پابندیوں اور مشکلات سے گزرے، اس کی طرف کچھ اشارہ ہم نے سطور بالا میں کیا ہے۔ اس دور میں مسلمانوں کے نام نہاد مرکز خلافت کی ماہیت اور حقیقت کو سمجھنے کے لیے ہم ایک واقعہ اپنے قارئین کی خدمت میں نقل کرتے ہیں:

متوکل نے ایک روز امام علی نقی ؑ کو دربار شاہی میں طلب کیا۔ امام علی نقی ؑ پہنچے تو دربار میں شراب کے دور چل رہے تھے۔ طرب و نشاط کی محفل تھی، خدا سے بے خبر بادشاہ کی سرکشی اور بے غیرتی ہر طرح کی حدود سے ماوراء ہوچکی تھی۔ اس نے امام علی نقی کی خدمت میں جام بڑھا کر کہا کہ پیجیے! کیسے ممکن تھا کہ جس سلسلہ عصمت کی شان میں "یطھرکم تطھیرا" کی آیت نازل ہوئی ہے، اس کا کوئی نمائندہ اس دعوت کی جانب اعتناء کرتا۔ آپ کو بہت اذیت ہوئی، آپ نے فرمایا "مجھے اس سے معاف کیجیے۔ میرا اور میرے آباؤ اجداد کا خون اور گوشت اس سے کبھی مخلوط نہیں ہوا۔" وہ ظالم کہاں باز  آنے والا تھا، کہنے لگا: اچھا پھر کچھ گا کر ہی سنا دیں تو جواباً آپ نے فرمایا: "اس فن سے بھی میں واقف نہیں۔" آخر اس نے کہا کہ کوئی شعر ہی سنا دیں۔ آپ حلم کا کوہ گراں اور عزت و وقار کا مینار بلند بنے کھڑے تھے۔ آپ نے اس موقع کو غنیمت سمجھا اور مجلس نشاط کو مجلس ہدایت میں بدل دیا۔ آپ کے بیان کردہ اشعار اور ان کا مفہوم حسب ذیل ہے، جسے مسعودی نے مروج الذھب میں بھی نقل کیا ہے۔:

بَاتُوا عَلَى قُلَلِ الْأَجْبَالِ تَحْرُسُهُمْ *** غُلْبُ الرِّجَالِ فَلَمْ تَنْفَعْهُمُ الْقُلَلُ‏
وَ اسْتَنْزَلُوا بَعْدَ عِزٍّ مِنْ مَعَاقِلِهِمْ *** وَ اسْكِنُوا حُفَراً يَا بِئْسَمَا نَزَلُوا
نَادَاهُمْ صَارِخٌ مِنْ بَعْدِ دَفْنِهِمْ *** أَيْنَ الْأَسَاوِرُ وَ التِّيجَانُ وَ الْحُلَلُ‏
أَيْنَ الْوُجُوهُ الَّتِي كَانَتْ مُنْعِمَةً *** مِنْ دُونِهَا تُضْرَبُ الْأَسْتَارُ وَ الْكِلَلُ‏
فَأَفْصَحَ الْقَبْرُ عَنْهُمْ حِينَ سَاءَلَهُمْ *** تِلْكَ الْوُجُوهُ عَلَيْهَا الدُّودُ تَقْتَتِلُ‏
قَدْ طَالَ مَا أَكَلُوا دَهْراً وَ قَدْ شَرِبُوا *** وَ أَصْبَحُوا الْيَوْمَ بَعْدَ الْأَكْلِ قَدْ أُكِلُوا

ترجمہ: "رات انھوں نے پہاڑوں کی چوٹیوں پر پہرے دیتے گزاری، مردوں کو شکست ہوئی اور ان کی تعداد سے انھیں کوئی فائدہ نہ پہنچا اور وہ عزت کے بعد اپنے قلعوں سے نیچے اتر آئے۔ پس اس گڑھے میں بسو جنھوں نے پستی اختیار کی۔ ان کے دفن کے بعد ایک چنگھاڑ انھیں پکارتی ہے۔ تمھارے کڑے، تاج اور لباس کہاں ہیں۔ کہاں ہیں، وہ چہرے جو مہربان تھے۔ ان پر حجاب کبھی غبار نہ آنے دیتا تھا۔ ان سے سوال کیا گیا تو قبر نے اس کی وضاحت کی۔ یہ چہرے کیڑوں کا مسکن بن گئے۔ اس کے سبب جو یہ ایک زمانے تک کھاتے اور پیتے رہے اور آج یہ خود غذا بن رہے ہیں۔"
خبر کا کوڈ : 1038047
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش