0
Thursday 30 Mar 2023 06:37

داعش کے خلاف فیصلہ کن معرکہ!!!!

داعش کے خلاف فیصلہ کن معرکہ!!!!
تحریر: مجید وقاری

افغانستان میں طالبان حکومت کی انٹیلی جنس سروس نے اس ملک کے شمال میں واقع صوبہ بلخ میں داعش دہشت گرد گروہ کے نمبر دو سرغنہ یعنی دوسرے اہم  سرغنہ کی ہلاکت کا اعلان کیا ہے۔ اس رپورٹ کنے مطابق، شمالی افغانستان کے صوبہ بلخ کے مرکز مزار شریف شہر کے پانچویں، آٹھویں اور دسویں سکیورٹی اضلاع میں طالبان کی سکیورٹی فورسز کی حالیہ کارروائیوں میں، تین اہم اور معروف داعشی سرغنے مارے گئے۔ رپورٹ کے مطابق اس دہشت گرد گروہ کے نمبر دو مولوی "ضیاء الدین" سمیت داعش دہشت گرد گروہ کے تین ارکان مارے گئے۔ ان میں"ابو عمر آفریدی" ایک جانا پہچانا رکن ہے جبکہ "سلمان تاجکستانی" داعش دہشت گرد گروپ کے تربیتی کیڈر کا بنیادی کمانڈر ہے۔ داعش دہشت گرد گروہ کے خلاف طالبان کی یہ کارروائی شمالی افغانستان میں ہوئی جبکہ یہاں کے بعض طالبان گروہوں پر اس دہشت گرد گروہ کے ارکان کو خوش کرنے کا الزام ہے۔

حال ہی میں مغربی حلقوں بالخصوص امریکہ کی طرف سے شائع ہونے والی رپورٹس میں افغانستان میں داعش دہشت گرد گروہ کے عناصر کی وسیع پیمانے پر موجودگی کا اشارہ دیا گیا تھا، جس پر طالبان کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا تھا۔ اس گروہ نے اعلان کیا کہ افغانستان میں داعش دہشت گرد گروہ کی طاقت اور ارکان اس قدر نہیں، جتنا کہ امریکہ دعویٰ کرتا ہے۔ طالبان نے امریکہ پر داعش کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا الزام لگایا ہے۔ افغانستان میں سیاسی امور کے ماہر مولوی مفلح کہتے ہیں: "گذشتہ ڈیڑھ سال میں جب سے افغانستان میں طالبان دوبارہ برسراقتدار آئے، داعش دہشت گرد گروہ نے ایک حریف طاقت کے طور پر اپنی طاقت دکھانے کی کوشش کی ہے۔ داعش دہشت گرد گروہ نے طالبان کو سکیورٹی کے معاملات میں نااہل ظاہر کرنے کی پوری کوشش کی۔ شاید اس لیے صوبہ بلخ میں داعش کے دہشت گردوں کے خلاف طالبان کا آپریشن حکمران گروہ کے لیے اہم ہے۔

اسکے علاوہ جوزجان صوبے کے شہر شبرغان میں ہونے والے اس گروپ کے ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان نے وسیع پیمانے پر انٹیلی جنس اور سکیورٹی کے حوالے سے آپریشن شروع کر دیا ہے۔ افغانستان کے مختلف علاقوں میں داعش دہشت گرد گروہ کے خلاف آپریشن اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ داعش گروہ اب طالبان کے لئے سنجیدہ خطرہ بن رہا ہے۔ داعش کی اصلیت اور افغانستان میں اس کے ارکان کی تعداد کے بارے میں کوئی درست معلومات نہیں ہیں۔ بعض حلقے داعش کو  وہ دہشت گرد گروہ سمجھتے ہیں، جنہیں شام اور عراق میں شکست کے بعد امریکا نے افغانستان منتقل کیا تھا۔ کچھ لوگ داعش دہشت گرد گروہ کو طالبان کے خلاف پچھلی افغان حکومت کی سکیورٹی پروڈکٹ سمجھتے ہیں، جو اب بھی افغانستان میں اپنی پوزیشن مضبوط کر رہا ہے۔

افغانستان میں سیاسی امور کے ماہر سید صالح صدر کہتے ہیں: "داعش دہشت گرد گروہ ایک غیر ملکی گروہ ہے، جس کی افغانستان میں کوئی جڑیں نہیں ہے۔ امریکہ اور اس کے سابق اور موجودہ ایجنٹ داعش کو اپنے مذموم مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امریکہ اس گروہ کو افغانستان اور یہاں تک کہ خطے کے ممالک میں بھی استعمال کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ افغانستان سے امریکیوں کے فرار کے بعد واشنگٹن کی یہ کوشش رہی ہے کہ وہ اس ملک کو افغانستان کے پڑوسی ممالک کے لیے دہشت گردی کے لیے ٹرانزٹ پلیٹ فارم میں تبدیل کریں۔"

بہرحال ایک سال سے زیادہ عرصے میں اور پچھلے نصف سال میں، جب سے افغانستان میں طالبان دوبارہ اقتدار میں آئے ہیں، داعش دہشت گرد گروہ نے خود کو طالبان کا سامنا کرنے والے اہم عنصر کے طور پر ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسی وجہ سے اس نے افغانستان میں اپنے دہشت گردانہ حملوں کو مختلف شکلوں اور طریقوں سے تیز کر دیا ہے، جن میں سے تازہ ترین کارروائی افغانستان کی وزارت خارجہ کے دفتر کے قریب ہونے والا دھماکہ ہے، جس میں چھ افراد مارے گئے۔ تاہم طالبان نے بارہا اعلان کیا ہے کہ وہ داعش کے پورے دہشت گرد گروہ کو سختی سے دبا دے گا۔ طالبان گروہ اب اپنے دعوے کو ثابت کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ اگر طالبان داعش دہشت گرد گروہ کے خلاف فیصلہ کن کامیابی حاصل کرتے ہیں تو وہ افغانستان میں ایک طاقتور حکمران کے طور پر اپنی پوزیشن مستحکم کرسکتے ہیں۔ کیونکہ اس سے داعش کے حوالے سے اندرونی اور علاقائی خدشات کا ایک اہم حصہ ختم ہو جاتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1049556
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش