1
Tuesday 23 May 2023 22:25
عالمی سطح پر بحران آفرین سات ممالک پر ایک نظر

مستکبرین کی انجمن

مستکبرین کی انجمن
تحریر: محمد علی زادہ
 
ان دنوں جاپان میں جی سیون گروپ کا اجلاس منعقد ہو رہا ہے۔ یہ اجلاس بین الاقوامی تعلقات عامہ کے شعبے میں مختلف مسائل سے متاثر ہوا ہے جن میں یوکرین جنگ سے لے کر ماحولیاتی بحران اور تائیوان اور مشرقی ایشیا میں رونما ہونے والے حالات شامل ہیں۔ لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ کیوں دنیا کے سات صنعتی لحاظ سے ترقی یافتہ ممالک کی مشترکہ کاوشوں کا نتیجہ کبھی بھی انسانیت کے فائدے میں ظاہر نہیں ہوا اور اس سے عالمی سطح پر امن اور سلامتی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا ہے؟ جی سیون گروپ میں شامل ممالک جیسے جرمنی، فرانس، اٹلی، جاپان، برطانیہ، امریکہ اور کینیڈا کے سربراہان مملکت اس بار جاپان کے شہر ہیروشیما میں اکٹھے ہوئے ہیں تاکہ مشترکہ اجلاس میں روس اور چین کے خلاف مشترکہ موقف اختیار کر سکیں۔
 
قابل غور بات یہ ہے کہ دنیا کے یہ ساتوں صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک یوکرین جنگ کے آغاز، شدت پانے اور تسلسل میں بھرپور اور موثر کردار ادا کرتے آئے ہیں۔ ان میں سے برطانیہ، اٹلی، فرانس، جرمنی، امریکہ اور کینیڈا مغربی فوجی اتحاد نیٹو کے رکن ہیں جبکہ جاپان بھی مشرقی ایشیا میں امریکہ کا اہم اتحادی ملک تصور کیا جاتا ہے۔ ایسا اتحادی جو خطے میں امریکہ کے مہم جوئی پر مبنی اقدامات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے۔ ایسے حالات میں جی سیون ممالک کے اجلاس کا نتیجہ یقیناً دنیا میں سکیورٹی بحرانوں کی شدت میں اضافے کے سوا کچھ نہیں نکل سکتا۔ واضح ہے کہ عالمی نظام میں مختلف قسم کے بحران پیدا کرنے والے عناصر عالمی برادری کو درپیش مشکلات اور بحرانوں میں نجات دہندہ کا روپ نہیں دھار سکتے اور کوئی انہیں اس روپ میں قبول کرنے کو بھی تیار نہیں ہو سکتا۔
 
لہذا جی 7 گروپ کے رکن ممالک ہر گز یوکرین جنگ اور دیگر بحرانوں میں دنیا کا نجات دہندہ نہیں بن سکتے بلکہ برعکس وہ خود دنیا میں موجودہ تناو اور بدامنی کا اصل سبب ہیں۔ جی 7 گروپ کا حالیہ اجلاس یوکرین جنگ شروع ہونے کے تقریباً 15 ماہ بعد منعقد ہوا ہے اور اس کا ایک اہم ترین ایجنڈہ روس کے خلاف ایک متحدہ محاذ تشکیل دینا اور میدان جنگ کی تازہ ترین صورتحال کا جائزہ لینا ہے۔ امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر جک سلیوان کے بقول یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی بھی اس اجلاس میں ویڈیو رابطے کے ذریعے شرکت کریں گے۔ اسی طرح جی 7 گروپ کے سات رکن ممالک کے علاوہ جاپان کے وزیراعظم فومیو کیشیدا نے دنیا میں ابھرتی ہوئی 8 نئی اقتصادی طاقتوں کو بھی اس اجلاس میں شرکت کی دعوت دی ہے جن میں بھارت اور برازیل بھی شامل ہیں۔
 
ان آٹھ ممالک کو دعوت دینے کا مقصد ان کے تعاون سے روس کے خلاف اقتصادی پابندیوں میں اضافہ کر کے ماسکو کیلئے پابندیوں سے عبور کرنے کے تمام چور راستے بند کرنا ہے۔ دوسری طرف بھارت اور برازیل، جو دونوں بریکس اقتصادی معاہدے کے رکن بھی ہیں، اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ یوکرین جنگ سے متعلق مغرب کی سیاسی سرگرمیاں اور ماسکو کے مقابلے میں نیٹو کی مداخلت موجودہ بحران کی شدت میں اضافہ کا اصل سبب ہیں اور جب تک نیٹو اپنی اس پالیسی پر نظرثانی نہیں کرتا یوکرین جنگ کے خاتمے کیلئے پائیدار راہ حل حاصل ہونا ناممکن ہے۔ جی 7 گروپ کا یہ اجلاس ایسے وقت منعقد ہو رہا ہے جب بین الاقوامی پانیوں میں چین کی فوجی سرگرمیاں تیز ہو چکی ہیں جبکہ مشرقی ایشیا میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے اشتعال آمیز اقدامات کے نتیجے میں شمالی کوریا نے بھی بیلسٹک میزائلوں کے تجربے بڑھا دیے ہیں۔
 
دوسری طرف اس گروپ کے سات رکن ممالک نے خود کو امن اور جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کا حامی ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ دنیا والوں کو یہ تاثر دے رہے ہیں کہ روس، چین اور ایران اپنی فوجی طاقت بڑھا کر عالمی سلامتی کیلئے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ یہ حقائق کی برعکس منظر کشی ایسے وقت انجام پا رہی ہے جب جی 7 گروپ کے اجلاس کی جگہ ہیروشیما ہے۔ یعنی وہ شہر جو دوسری عالمی جنگ میں امریکہ کی جانب سے ایٹم بم کے استعمال کی بھینٹ چڑھا تھا اور وہاں کے شہری اس عظیم مجرمانہ اقدامات کے اثرات آج تک بھگت رہے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ امریکہ نے اس بھیانک اقدام پر آج تک جاپانی قوم سے معافی مانگنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی ہے۔ اس اجلاس میں بعض دکھاوے کی حد تک اقدامات بھی انجام پائیں گے جن میں سے ایک جاپانی وزیراعظم کی جانب سے برطانیہ، فرانس اور امریکہ سے جوہری ہتھیاروں کے ذخائر میں کمی کی درخواست شامل ہے۔
 
اگرچہ اس سے پہلے بھی جاپان کے سابق سیاسی اور فوجی رہنما جوہری طاقتوں سے یہ درخواست کرتے آئے ہیں کہ وہ جوہری ہتھیاروں کی روک تھام کیلئے سنجیدہ مذاکرات کا آغاز کریں لیکن ان کا کوئی فائدہ نہیں ہوا اور جی 7 کے حالیہ اجلاس میں بھی اس حوالے سے پیشرفت کی امید نہیں رکھی جا سکتی۔ جی 7 گروپ کے رکن ممالک میں چین سے تعلقات کی نوعیت کے بارے میں بھی شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ایک طرف امریکہ تمام رکن ممالک کو چین کے مقابلے میں واحد موقف اپنانے پر راضی کرنے کی کوشش میں مصروف ہے جبکہ دوسری طرف بعض رکن ممالک جیسے فرانس اور جرمنی اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ اس بارے میں کوئی بھی فیصلہ سازی چین سے تعلقات منقطع کرنے کے معنی میں نہیں ہونی چاہئے۔ لہذا الیزہ نے ہیروشیما میں اس اجلاس کے انعقاد سے پہلے اپنے بیان میں کہا تھا کہ "یہ اجلاس چین مخالف جی 7 کا نہیں ہے۔"
خبر کا کوڈ : 1059710
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش