0
Saturday 10 Jun 2023 12:00

سوڈان اختلافات کی لپیٹ میں

سوڈان اختلافات کی لپیٹ میں
تحریر: اتوسا دیناریان

تمام بین الاقوامی اور علاقائی کوششوں کے باوجود سوڈان میں سیاسی بحران اور اقتدار کی کشمکش بدستور جاری ہے۔ تازہ ترین کارروائی میں سوڈان کی وزارت خارجہ نے اس ملک میں اقوام متحدہ کے نمائندے واکر پیریٹز کو ناپسندیدہ عنصر قرار دے کر اس ملک سے بے دخل کر دیا۔ اقوام متحدہ کو بھیجے گئے ایک پیغام میں، سوڈانی فوج کے کمانڈر انچیف عبدالفتاح البرہان نے دعویٰ کیا ہے کہ سوڈان کے لیے اقوام متحدہ کے ایلچی پرٹس نے سوڈان کی ریپڈ فورس کے کمانڈر محمد حمدان دقلو کو بغاوت پر اکسایا ہے۔ البرہان نے کہا کہ اقوام متحدہ کے سفارتی مشن کے سربراہ کے طور پر پیریز کی موجودگی سوڈان میں عبوری مرحلے کی حمایت اور بحران کے خاتمے کے مشن کے حوالے سے کوئی کردار ادا نہیں کر پائے گی۔

سوڈان میں جنگ جاری ہے اور شہریوں کی مدد کے لیے جنگ بندی کی کوششیں اب تک ناکام رہی ہیں۔ سوڈان میں جنگ کے دونوں فریقوں کا خیال ہے کہ وہ ایک دوسرے پر غالب آسکتے ہیں۔ اس لیے ان میں سے کوئی بھی جنگ روکنے کے لیے مجوزہ حل کو قبول نہیں کرتا۔ "محمد حمدان دقلو" جسے "حمیداتی" کے نام سے جانا جاتا ہے، انہوں نے اس تناظر میں اس بات پر زور دیا ہے کہ جب فوج کی بغاوت ختم ہو جائے گی تو ان کی افواج میدان جنگ سے پیچھے ہٹ جائیں گی۔ حمیدتی، البرہان کے اقدامات کو بغاوت سمجھتا ہے اور اس پر غداری اور عمر البشیر کے حامیوں سمیت سابق حکومتی عہدیداروں کو واپس لانے کی کوشش کا الزام لگاتا ہے۔

اس صورتحال میں بیرونی ممالک نے بھی سوڈان میں اپنی مداخلتیں بڑھا دی ہیں اور ان میں سے ہر ایک امن قائم کرنے کی کوشش کے نام پر سوڈان کی دولت اور وسائل حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس بحران میں خطے کے کچھ ممالک البرہان کی حمایت کرتے ہیں اور کچھ حمیدتی کی حمایت کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ سوڈان میں اقوام متحدہ کے ایلچی پر البرہان نے حمیدتی کی حمایت کا الزام لگایا ہے۔ جس کے جواب میں اقوام متحدہ کے ترجمان "اسٹیفن دوجارک" کو  باقاعدہ بیان دینا پڑا ہے۔ دوجارک نے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کے حوالے سے کہا: "ناپسندیدہ عنصر کا اطلاق اقوام متحدہ کے عملے پر نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی ان کو ملک سے نکالا جاسکتا ہے، اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت یہ عالمی قانون کی خلاف ورزی ہے۔"

سوڈان میں تنازع کے فریقوں نے عملی طور پر حقیقی جنگ بندی کے قیام اور امن مذاکرات شروع کرنے کا راستہ روک دیا ہے۔ تاہم، مذاکرات جاری ہیں اور تازہ ترین فیصلوں کی بنیاد پر سوڈان میں ایک روزہ جنگ بندی قائم کی جانی ہے۔ امریکہ اور سعودی عرب، جنہوں نے ثالث کا کردار ادا کیا ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ نئے معاہدے کا مقصد اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے، جب فریقین انسانی امداد کی سپلائی میں رکاوٹ نہ بنیں، تشدد کا خاتمہ ہو اور جدہ مذاکرات کی بحالی کے لیے دونوں فریقوں کے درمیان اعتماد سازی کے لئیے راستہ ہموار ہو۔ حالیہ دنوں میں اس ملک میں بحران مزید پھیل گیا ہے۔ سعودی سفارت خانے سمیت کچھ غیر ملکی سفارت خانوں پر ایک بار پھر حملہ کیا گیا ہے اور تنازع کے فریق ایک دوسرے پر اس کا الزام لگاتے ہیں۔

دوسری جانب سوڈان میں انسانی بحران، خوراک اور طبی امداد کی ضرورت اور زخمیوں کی عدم دیکھ بھال نے اس ملک کے حالات کو بہت پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اقوام متحدہ سے وابستہ تنظیم "ورلڈ فوڈ پروگرام" نے ایک بیان میں اعلان کیا: "حملوں نے جنگ سے متاثرہ تقریباً ساڑھے چار ملین افراد کے لیے مختص خوراک کی امداد کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔" اس کے علاوہ خوراک کی چوری اور انسانی امداد کی لوٹ مار نے سوڈان میں امداد کی ترسیل کے عمل کو مکمل طور پر کمزور کر دیا ہے۔

سوڈان میں جنگ اور تنازعات نے سوڈان کے اندر ایک ملین دو لاکھ سے زیادہ افراد کو بے گھر اور تقریباً چار لاکھ افراد کو پڑوسی ممالک میں نقل مکانی پر مجبور کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ گذشتہ سات ہفتوں کے دوران سوڈان کے دارالحکومت کو شدید نقصان پہنچا ہے اور اس شہر میں اہم انفراسٹرکچر تباہ ہوگیا ہیں۔ ایسے حالات میں سوڈان کے امور کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی کو ناپسندیدہ قرار دیکر ملک بدر کرنے کا فیصلہ تنازع میں اضافے اور حالات کی خرابی میں مزید اضافہ کا باعث بن سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1063114
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش