2
0
Monday 19 Feb 2024 20:00

الیکشن24ء، نتائج اور مستقبل کا منظر نامہ(2)

الیکشن24ء، نتائج اور مستقبل کا منظر نامہ(2)
تحریر: ارشاد حسین ناصر

الیکشن کے بعد ہر لمحہ بدلتے حالات اور صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے ہم اس نتیجہ پر پہنچے تھے کہ خواتین و اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے حصول کیلئے پی ٹی آئی کے آزاد اراکین کو کسی نہ کسی پارلیمانی پارٹی میں شامل ہونا لازمی ہے، لہذا مجلس وحدت مسلمین جو اس کی اتحادی پارلیمانی جماعت کے طور پر موجود ہے، اس نے اپنی غیر مشروط حمایت کے ذریعے یہ آفر کی تھی کہ اگر عمران خان اور اس کی جماعت مناسب سمجھیں تو ان کا پلیٹ فارم حاضر ہے۔ اس پر ہم نے دیکھا کہ سوشل میڈیا اور میڈیا پر ایک طوفان برپا کیا گیا کہ ایک شیعہ جماعت کے طور پر پی ٹی آئی کے ممبران اسمبلی حلف اٹھائیں گے تو یہ صورتحال بہت سے حلقوں کیلئے قابل ہضم و قابل برداشت نہیں ہوسکتی تھی، اس عنوان سے بذات خود پی ٹی آئی میں بھی مخالفت کا اندیشہ موجود تھا، جس کا اظہار سامنے آیا۔ نتیجہ کے طور پر حکمت عملی میں تبدیلی کا سوچا گیا اور متبادل راستہ اختیار کرنے کے آپشن پر مشاورتی اجلاس ہوئے، جس میں مجلس،سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی کی قیادت شامل رہی۔

بالآخر ہر لمحہ بدلتی صورتحال اور تقاضوں کا ادراک کرتے ہوئے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کا اعلان کیا گیا، جس کو سب نے سراہا۔ سب سے بڑی یہ بات تھی کہ سنی اتحاد کونسل، مجلس وحدت مسلمین اور پی ٹی آئی کا یہ اتحاد غیر مشروط ہے، جس میں کوئی شرط نہیں۔ ہاں بیانیہ کی بات ہے کہ ملک کی داخلی و خارجہ خود مختاری اور عالمی قوتوں کے ساتھ معاملات کو ایک خاص پیرائے میں نبھایا جائے گا۔ یاد رہے کہ سنی اتحاد کونسل اور مجلس وحدت مسلمین کا باہمی اتحاد و قربتیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، یہ بہت طویل جدوجہد رکھتا ہے، شاید اتنا ہی جتنا مجلس وحدت مسلمین اپنی تاریخ رکھتی ہے۔ لہذا مجلس یا سنی اتحاد کونسل سے ان دونوں جماعتوں پر کوئی خاص فرق نہیں پڑنے والا۔ بعض عاقبت نااندیش اس پر سوکنوں کی طرح مجلس اور اس کی قیادت کو طعنے دیتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ اگرچہ ان کی تعداد محدود ہے، مگر یہ بونے لوگ دشمن کی صفوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس لیے کہ اس ایشو پر دشمنان تشیع نے مجلس کے خلاف کمپین شروع کی تھی، جس میں بعض اپنے بھی شامل ہوگئے۔

ایک اور ایشو جس کی جانب ہم نے اشارہ کیا کہ مولانا فضل الرحمان کو کے پی کے میں اپنے امیدواران بشمول ان کی ذات و دو فرزندان کے ہارنے پر بہت زیادہ اعتراض ہوا ہے، جس طرح بلوچستان میں انہیں کچھ سیٹس ملی ہیں، یہ لوگ کے پی کے میں بھی الیکشن سے قبل حکومت بنانے کے ارادے اور امیدیں رکھتے تھے۔ انہیں یقین تھا کہ مقتدر حلقے پی ٹی آئی کو کسی بھی صورت نہیں آنے دینگے، متبادل وہی ہونگے، مگر حقیقت اس کے برعکس ہوئی۔ پی ٹی آئی نے کے پی کے صوبہ میں کلین سویپ کیا، اس کے باوجود کچھ حلقوں میں ان کے جیتے ہوئے لوگوں کو ہرا دیا گیا۔ اب مولانا کے موقف کو دیکھا جائے تو انہیں جہاں ہرایا گیا ہے، جس کی ذمہ داری وہ خفیہ اداروں یعنی اسٹیبلشمنٹ عائد کرتے ہیں، ان کی پریس کانفرنسز، انٹرویوز کا نچوڑ یہی ہے۔

انہوں نے ایوان نہیں میدان کا نعرہ بلند کرتے ہوئے احتجاج کا اعلان کر دیا، یہ احتجاج یقیناً جیتی ہوئی پارٹی کے خلاف ہونا ہے تو جیتے تو پی ٹی آئی والے ہیں، جبکہ پی ٹی آئی کے وفد کیساتھ ملنے پر ان کے دیرینہ موقف کو شدید زک پہنچی ہے کہ یہ یہودی ایجنٹس کی جماعت ہے۔ کیا چند سیٹس کی خاطر کسی ایسے گروہ یا جماعت سے ملا جا سکتا ہے، جسے آپ یہودی ایجنٹ سمجھتے ہوں، آپ نے ہزاروں تقاریر و انٹرویوز میں ان پر ایسے الزامات عائد کیے ہوں اور اپنے کارکنان و فالورز نیز ہزاروں وابستہ علماء سے اسی موقف پہ بیانات دلوائے ہوں تو یہ کیسے کیا جا سکتا ہے۔؟ نتیجتاً ہم کہہ سکتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان کیساتھ ہوئی ملاقات کو ایک ملاقات ہی سمجھا جائے، اسے اتحاد بنانے کی کوشش نہ کی جائے، ویسے بھی مولانا فضل الرحمان کا ریکارڈ ہے کہ وہ اقتدار سے باہر زیادہ دیر نہیں رہتے، حکومت جس کی بھی ہو، مفادات اٹھانے ہوتے ہیں۔

پاکستان کے سیاسی حالات پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ یہاں الیکشن میں جس قدر بھی ایک دوسرے کے مخالف ہوں، حکومت سازی کے مرحلہ پر ساری مخالفتیں اور رنجشیں بھلا کر باہمی میل، ملاقاتیں، نئے اتحاد، نئے معاہدوں کی جانب بڑھنے کی روش ہے۔ ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگانے والے بھی حکومت سازی کے مرحلہ میں باہم شیر و شکر ہوسکتے ہیں۔ اگر کسی کو یاد ہو تو عدم اعتماد کے وقت پاکستان مسلم لیگ قاف کے قائدین کی پاکستان پیپلز پارٹی سے بات چیت مکمل ہوچکی تھی اور مٹھائی بھی کھا لی گئی تھی، مگر عین وقت پر پرویز الہیٰ پی ٹی آئی کیساتھ مل گئے اور زرداری دیکھتے رہ گئے۔ یہی پاکستانی سیاست ہے، اب بھی کسی بھی بات کو حرف آخر نہیں سمجھنا چاہیئے۔ ہر لمحہ بدلتی صورتحال، مخالفین کے وار اور امکانات کو دیکھتے ہوئے کسی بھی فیصلہ کو بدلا جا سکتا ہے۔ مولانا فضل الرحمان کی جماعت ایک طویل تاریخ رکھتی ہے، جس کے مزاج سے سب آشنا ہیں، ان کے پاس سب سے بڑا مذہبی کارڈ ہے، لہذا ہر ایک سیاسی جماعت انہیں ساتھ ملا کر رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔

زیادہ چانسز یہی ہیں کہ اگر نواز لیگ حکومت بناتی ہے تو مسلم لیگ نون کیساتھ جمعیت علماء اسلام و پاکستان پیپلز پارٹی نیز متحدہ قومی موومنٹ شامل ہو جائے گی، چونکہ زرداری کو ایک بار پھر صدر پاکستان بننا ہے، زرداری بطور صدر پاکستان اسٹیبلشمنٹ کو بہت سپورٹ کرسکتا ہے۔ ایک بات جو پہلی بار اس الیکشن میں دیکھی گئی، وہ اپنی ہار کو تسلیم کرنا اور مخالف امیدوار کو مبارکباد دینا ہے۔ ایسا پہلے خال خال دکھتا تھا، اس بار اس کے بہت سے نظارے دیکھنے کو ملے، جس پر ان سیاست دانوں کو ستائش ملنی چاہیئے، جنہوں نے اس روش کو اپنایا، اس سے ان کا قد بڑھا ہے اور سیاسی ماحول میں صحت مند ماحول نے جنم لیا ہے۔ ہار کو تسلیم کرنا اور مخالف کو مبارکباد دینا دوسری دنیا میں روا ہے، مگر پاکستان میں اس کی روش اس بار دیکھنے کو ملی ہے۔

اس وقت دیکھا جائے تو حکومت سازی کا مرحلہ واضح نہیں ہوسکا ہے، مختلف سکینڈلز، الزامات اور دھاندلی کے ثبوت بڑھتے جا رہے ہیں۔ جمعیت علماء اسلام نے بلوچستان میں نواب رئیسانی، خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی نے علی امین گنڈا پور، پنجاب میں نون لیگ نے محترمہ مریم نواز کو وزیراعلیٰ کے امیدوار کے طور نامزد کر رکھا ہے۔ نون لیگ نے آٹھ فروری کے قومی اخبارات میں ایک مکمل صفحے کا اشتہار خبر کے انداز میں شائع کروایا تھا، جس میں"وزیراعظم نواز شریف" لکھا تھا، مگر موجودہ صورتحال میں ایسا لگ رہا ہے کہ میاں نواز شریف نتائج سے مایوس ہوچکے ہیں اور شاید حکومت ملنے پر وزارت عظمیٰ کا تاج نہ پہنیں، اس لیے کہ یہ حکومت بالکل مفلوج ہوگی، جو پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کی بیساکھیوں پر کھڑی ہوگی۔

اس محتاجی کے جو اثرات ہونگے، ان کو دیکھتے ہوئے ماہرین کی رائے ہے کہ نون لیگ یہ کانٹوں کی سیج نہ ہی لے تو بہتر ہوگا، ویسا بھی اگر فارم 45 کے تحت نتایج مرتب ہوتے ہیں اور الیکشن کمیشن و عدلیہ قانون کو اپناتی ہے تو دھاندلی سے حاصل کردہ نون لیگ کی سیٹس بہت کم ہوسکتی ہیں جبکہ کراچی و حیدر آباد سے متحدہ قومی موومنٹ کو دی جانے والی سترہ سیٹس بھی ان سے واپس ہوسکتی ہیں، یہ متنازعہ اکثریت لٹکتی ہوئی تلوار ثابت ہوگی، جس کے اثرات حکومت و مملکت پر اچھے نہیں ہونگے۔ اس وقت پاکستان کو ایک مضبوط، مستحکم اور متحد حکومت کی ضرورت ہے۔ معاشی بدحالی، آئی ایم ایف سے ہونے والا معاہدہ، مہنگائی کا طوفان اور آنے والا بجٹ بڑے چیلنجز ہونگے، جو کمزور حکومت کے بس کی بات نہیں ہونگے، دیکھتے ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔؟
خبر کا کوڈ : 1117290
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
پائن غط بات، سوکنوں کی طرح دشمنوں کی صف میں کھڑے ہونے کی روایت بھی تہاڈے مجلسی برزگان کی قائم کردہ ہے۔ بانیان این روایت مجلس وحدت مسلمین خود ہی ہیں۔ یہ جملہ بابا جی چونگی والے سے متعلق بھی کہا جاسکتا ہے، اس روایت کے مشترکہ بانیان میں سے وہ بھی ہیں۔ آپ سارے چلے اسی راہ پر ہیں، جو پہلے کوئی اور چلا تھا تو چونگی والے بابا جی اور آپ کے پسندیدہ بزرگان سارے ایک پیج پر تھے، انکی مخالفت میں. میرا اعتراض آپ کے ان پسندیدہ بزرگان سے متعلق فقط یہ ہے کہ جب راہ یہی تھی تو فیر اعتراض بنتا نہ تھا۔ غلط آپ سارے ہی ثابت ہوتے چلے گئے ہیں، چلے جا رپے ہیں۔ میری نظر میں حکومت بننے اور اعتماد کا ووٹ لینے تک خاموشی بہتر ہے اور ہاں یہ کہ آپ کی تحریر کا مرکزی آئیڈیا دوسروں کی نسبت بہتر ضرور ہے لیکن اس میں فیکٹس کی غلطیاں ہیں۔ ہارنے کے باوحود مبارکباد بے نظیر نے بھی دی تھی۔
irshad h nasir
Pakistan
سلام۔۔ شکریہ آپ کا تبصرہ بہت بہتر ہے، مبارکباد دینا جمہوریت پسندی ہے، بے نظیر ایک جمہوری لیڈر تھیں، اس الیکشن میں یہ مطاہر بدرجہ اوتم نظر آتے ہیں کہ ہارے ہوئے کھلے دل سے ہار تسلیم کرتے ہیں، ادارے انہیں آفرز کر رہے ہیں کہ سیٹس لے لو، وہ انکار کرتے ہیں، یہ بات بھی بہتر ہے کہ حکومت سازی کے مراحل مکمل ہونے تک خاموشی بہتر راستہ تھی۔
ہماری پیشکش