1
0
Wednesday 21 Feb 2024 13:46

قصہ ایک کتاب کا

قصہ ایک کتاب کا
تحریر: سید نثار علی ترمذی

ثاقب بھائی کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ ان صلاحیتوں کی بدولت آپ نئے نئے کام کرتے رہتے تھے۔ یہی وجہ ہے آپ کے ہم عصر آپ کے ناقد رہے۔ آپ جتنا بھی عمدہ کام کرتے، مخالفین اس میں سے کیڑے ضرور نکالنے میں اپنی مثال آپ تھے۔ ایک تو جتنی بڑی کوئی شخصیت ہوتی ہے، اتنی ہی زیادہ اسے مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ثاقب بھائی اس لحاظ سے منفرد ہیں کہ انہیں ابتدا سے لے آخر تک مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا، مگر بقول احمد ندیم قاسمی مرحوم کے:
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ

اور بقول حفیظ جالندھری رح کے:
دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی


گو آپ کی زندگی کے ایک پہلو پر روشنی ڈالنے کے لیے یہی دو اشعار کافی ہیں، ورنہ بہت سے شہ نشینوں کے نام اور تذکرے زبان زد عام ہیں۔ ثاقب بھائی نے ایک مشہور و معروف محاورے "گذشتہ را صلواۃ اور آئندہ را احتیاط" کو بدل کر رکھ دیا۔ وہ کہتے تھے کہ اس محاورہ پر اگر یوں عمل کیا جائے تو یہ محاورہ بہترین رزلٹ دیتا ہے۔ "گذشتہ را صلواۃ اور آئندہ را بھی صلواۃ۔" ثاقب بھائی خود اس پر عمل پیرا رہے۔ یہ وصف بہت سی ریاضت کے بعد پیدا ہوتا ہے۔ اس وصف کے لوگ ہمارے معاشرے میں موجود ہیں، جن کی شناخت کی ضرورت ہے، لیکن ہمارے ہاں یہ شناخت کسی شخص کے اس دنیا سے گزر جانے کے بعد پیدا ہوتی ہے۔ اب پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔

بات ثاقب بھائی کی ہو تو کہیں سے کہیں چلی جاتی ہے۔ ثاقب بھائی کے ساتھی، ہم کار، معاون اور آپ کی صلاحیتوں کے معترف ڈاکٹر محمد علی نقوی اخوت اکادمی کے آغاز میں ہی شہید کر دیئے گئے۔ ان کی رحلت نے مصائب و مشکلات کے کئی باب کھول دیئے۔ ساتھی ساتھ چھوڑ گئے، مگر آپ نے جس عزم کا اظہار کیا تھا، اسے ہر حال میں جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ انہی مشکلات میں سے ایک ہجرت کا مرحلہ بھی تھا۔ آپ اسلام آباد میں مقیم تھے کہ خبر ملی کہ ملتان جا بسے ہیں۔ کچھ عرصہ بعد اطلاع ملتی کہ لاہور آبسے ہیں۔ کبھی اطلاع ملتی کہ کراچی چلے گئے ہیں۔ میں نے ایک ملاقات میں پوچھ ہی لیا کہ ثاقب بھائی! آپ درحقیقت کس شہر میں ہوتے ہیں۔ آپ نے معصومانہ قہقہ لگایا اور کہا نثار بھائی یہ سوال ایک اور دوست نے بھی پوچھا تھا، اس کے جواب میں کہا کہ میرا زیادہ وقت انہی شہروں کے درمیان گزر جاتا ہے۔

جن دنوں آپ کراچی میں فروکش تھے، نئے ہجری سال کا آغاز ہوگیا۔ ہندوستان سے معروف عالم دین علامہ ڈاکٹر کلب صادق مرحوم، محرم الحرام کی مجالس عزاء سے خطاب کرنے کے لیے تشریف لائے ہوئے تھے۔ ان کے عشرہ مجالس کا موضوع تھا "قرآن و سائنس۔" ثاقب بھائی نے پہلی مجلس سنی تو طے کر لیا کہ اسے مرتب کرکے شائع کیا جانا چاہیئے۔ آپ نے پہلی مجلس کی آڈیو کیسٹ لی اور اسے سن کر لکھنا شروع کر دیا۔ مجلس کاغذ پر منتقل ہوچکی تھی۔ یہ سلسلہ دس مجلسوں تک جاری رہا۔ عشرہ محرم الحرام اختتام کو پہنچا تو علامہ ڈاکٹر کلب صادق مرحوم کی مجالس کی کتاب تیار ہوچکی تھی۔ ثاقب بھائی نے موصوف علامہ کلب صادق مرحوم کو یہ کتاب دکھائی اور ان سے تائید و توثیق بھی حاصل کی۔

کراچی کے بعد جب آپ لاہور تشریف لائے تو حسب عادت بندہ ناچیز کو اپنی کارگزاری سے آگاہ گیا۔ میں نے مسودہ کو سرسری دیکھا تو فرمانے لگے کہ یہ اچھوتا موضوع ہے۔ اس پر علماء نے کم کام کیا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اسے کسی ایسے ادارے سے شائع کیا جائے، جس کی شناخت عمومی ہو، تاکہ یہ پیغام سب تک پہنچ جائے، اگر کسی مسلکی نشریاتی ادارے کو دیا تو یہ کتاب دب جائے گی۔ کئی ادارے زیر بحث آئے، جن میں کلاسیک دی مال، لاہور کا انتخاب کیا گیا۔ بذریعہ ویگن ریگل چوک میں اترے۔ ریگل چوک میں مسجد شہداء سے وابستہ کئی یادیں تازہ کیں۔ مذکورہ شو روم میں جا کر کلاسیک کے مالک آغا امیر حسین کا پوچھا تو بتایا کہ وہ اپنے دفتر میں میں دوسری منزل پر تشریف فرما ہیں۔ ہم سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے دفتر پہنچے۔ ان سے گذشتہ تعارف کروایا تو بہت خوش ہوئے۔

ثاقب بھائی نے خوب تمہید باندھ کر کتاب کا مسودہ پیش کر دیا۔ آغا امیر حسین نے مسودہ کا کافی دیر تک جائزہ لیا۔ اس دوران چائے سے تواضع کی گئی۔ چائے کے بعد ہم منتظر تھے کہ ابھی کچھ ارشاد ہوگا کہ سوال ہؤا کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔؟ ثاقب بھائی نے کہا ایک تو یہ کتاب شائع کر دیں اور جو شرائط دیگر مصنفین کے لیے کرتے ہیں، وہ ہمارے ساتھ طے کر لیں۔ آغا صاحب نے ہمیں آنکھ بھر کر دیکھا اور کہا کہ یہ کتاب بہت اچھی ہے اور اسے شائع بھی ہونا چاہیئے، مگر ایک تو میرے پاس ایک عرصہ تک کے لیے گنجائش نہیں ہے، اس لیے میں تو اسے چھاپنے سے قاصر ہوں۔ ہاں اگر پسند کریں تو میں اسے اپنے مجلہ "سپوتنک" میں شائع کرسکتا ہوں، اس سے یہ کتاب عام قاری تک پہنچ جائے گی۔ سپوتنک میں شائع ہونے والے مواد کا کوئی معاوضہ نہیں دیا جاتا۔

ہم نے ایک دوسرے سے آنکھوں ہی آنکھوں میں بات کی اور شکریہ ادا کرتے ہوئے اٹھ کر نیچے آگئے۔ ثاقب بھائی جس عزم و ارادے سے آئے تھے، بات اس کے برعکس ہوگئی۔ راستے میں ان مسائل پر بات کرتے رہے کہ اہل قلم کی یہ لوگ قدر نہیں کرتے، پھر گلہ کرتے ہیں کہ اچھی کتابیں کیوں نہیں لکھی جا رہی ہیں۔ اس کتاب کے مطالب کو عام افراد تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ بعد ازاں یہ کتاب مصباح القرآن ٹرسٹ کی طرف سے شائع ہوئی۔ یہ کتاب اب ناپید ہے۔ ضرورت ہے کہ البصیرہ اس کتاب کو اپنی طرف سے شائع کرے۔
خبر کا کوڈ : 1117684
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Hong Kong
تازہ خواہی داشتن گر داغ ہائے سینہ را
گاہے گاہے باز خواں ایں قصہء پارینہ را
ہماری پیشکش