0
Thursday 22 Feb 2024 11:29

افکارِ ثاقب اکبر نقوی مکتب شہید قائد اور فکر امام خمینی کا تسلسل

افکارِ ثاقب اکبر نقوی مکتب شہید قائد اور فکر امام خمینی کا تسلسل
تحریر: توقیر کھرل

سید ثاقب اکبر ہر دلعزیز شخصیت تھے، وہ پاکستان کے عاشق، قانون کی بالادستی کے نقیب تھے۔ حرص و طمع ان کی فکر، قلم، آواز اور الفاظ کو آلودہ نہ کرسکتے تھے۔ پاکستان کو ہر لحاظ سے آزاد دیکھنا چاہتے تھے۔ آزاد خارجہ پالیسی کے حامی تھے۔ ایک ترقی کرتا ہوا خوشحال پاکستان دیکھنے کے آرزو مند تھے۔ سید ثاقب اکبر ؒ شائستگی سے بات کرتے، اختلاف رائے برداشت کرتے۔ کئی نشستوں میں انہیں خاموش بھی پایا، تاریخ اور سماج کا مطالعہ اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے، آپ بولتے تھے تو سچائی کے پھول جھڑتے تھے۔ ان کا بیان ہی ان کے دل کا ترجمان ہوتا تھا،
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
ایک برس بیت گیا، ان کی ویڈیوز سے آواز سنتا ہوں، متعدد بار خواب میں دیکھ چکا ہوں، وہ لاہور آتے تھے تو ضرور ملاقات کا شرف بخشتے تھے، ان کی یاد دل میں ہمیشہ رہے گی۔
فرقت کے گیت اس کے غنیم بھی گنگنائیں گے
آپ کے افکار نظریات تاریخ میں زندہ رہیں گے


ان کی عاجزی کا یہ عالم تھا کہ عالم دین ہونے کے باوجود خود کو ہمیشہ بھائی کہلوانا پسند کرتے تھے۔ ان سے آخری سالوں میں ایک قلبی تعلق رہا، کئی مواقع پر ان سے کال یا ملاقات کے دوران مشورہ کرنے کا موقع میسر آجاتا تھا۔ ان سے محبت کی اصل وجہ ان کا خلوص، للہیت اور ان کا اعلیٰ اخلاق تھا۔ انہوں نے قوم و ملت کیلئے بے پناہ خدمات انجام دی ہیں، بظاہر یہ ایک مختصر سی زندگی ہے، لیکن ان کے کاموں کو دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ ایک شخص کو جوانی کے دو سو سال ملے ہیں اور اس نے ان میں خوب کام کیا ہے، نوجوانوں کو پدرانہ نصیحیتں کرتے۔ نیکی اور شرافت تو ان کے چہرے سے ٹپکتی تھی۔ ان کی باتیں دل میں اتر جاتی تھیں، اس لیے کہ دل سے نکلی ہوئی ہوتی تھیں۔ وہ سادگی کا مرقع تھے، سادہ انداز سے بات کرتے تھے اور سچائی سے اپنی نوجوان نسل کی اچھی تربیت کرنا چاہتے تھے۔ وہ کال پر نصیحت کرتے ہوئے کہتے تھے کہ آپ ہمارے ہیں، مجھے بہت عزیز ہیں، یہ سب باتیں یاد کرتا ہوں، دل خون کے آنسو روتا ہے۔ وہ آواز، وہ سہارا، وہ مسکراہٹ ایک برس ہوا ہم محروم ہیں اور محرومی اور یہ خلا زندگی بھر محسوس ہوگا۔

 چیئرمین البصیرہ ٹرسٹ سید ثاقب اکبر، علمی حلقوں میں جانی پہچانی شخصیت تھے۔ علم و تحقیق کا میدان ہو، محافل شعر و سخن ہو یا اہم عالمی معاملات پر مذاکرے، ملکی مسائل پر رائے کا اظہار ہو یا سماجی خدمات، مذہبی علوم پر ریسرچ ہو یا اسکالرز اور طلبہ کی راہنمائی کسی بھی شعبہ زندگی میں ان کی خدمات اور کوششیں ناقابلِ فراموش ہیں۔ انہوں نے تحصیل علم کے دوران ہی اپنے آپ کو ایک سماجی کارکن اور رہنماء کے طور پر منوایا۔ امام راحل روح اللہ موسوی الخمینیؒ نے فرمایا تھا کہ پاکستان کے عوام شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی کے افکار کو زندہ رکھیں۔ میں نے مرحوم سید ثاقب اکبر نقوی ؒ کی شخصیت اور ان کے افکار کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا نظریہ و افکار وہی ہیں، جو شہید قائد کے تھے۔ وہ ہمیشہ شہید قائد کے 6 جولائی کو پیش کردہ منشور کا ذکر کرتے تھے اور اسی کے تحت پاکستان میں انقلاب اور حقیقی اسلامی حکومت کے خواہاں تھے، جس کیلئے وہ پرعزم بھی تھے۔ یقیناً ان کے افکار کو زندہ رکھنے کی ضرورت ہے۔

مئی 2022ء میں لاہور میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وقت تیزی سے ہمارے ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے۔ شہید قائد کے منشور ہمارا راستہ پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔مسجدیں فرقوں میں تقسیم ہیں، مدارس فرقوں میں تقسیم ہیں، مولوی صاحبان فرقوں کے عنوان سے پہچانے جاتے ہیں۔ اگر ایسے میں ہم اسلامی حکومت چاہتے ہیں تو ہمیں نئے سرے سے غور و فکر کرنی ہوگی۔ افکارِ ثاقب اکبر نقوی دراصل مکتب شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی اور فکر امام خمینی کا تسلسل ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سید ثاقب اکبر کے خود مختار پاکستان کیلئے کاوشوں، اتحاد امت کے فروغ، تکفریت کے خلاف جدوجہد اور عالمی مسائل پر افکار و نظریات کو محفوظ کیا جائے اور آئندہ نسل تک منتقل کیا جائے۔ ان کے رد تکفیریت، وحدت و امت اور خود مختار پاکستان کے تناظر میں بیانات کو یہاں قلمبند کرتا ہوں، جو مجھ سمیت تمام پاکستانیوں اور طلبہ کیلئے راہنماء اصول ثابت ہوسکتے ہیں۔

اتحاد امت، کشمیر، فلسطین اور غاصب صہیونی ریاست اسرائیل
عشق مصطفیٰ کا تقاضہ ہے کہ امت مصطفیٰ کے مسائل کی ہم فکر کریں۔ اتحاد کیا صرف نعرہ ہے کہ مسلمان متحد ہیں؟ دنیا میں جہاں بھی مسلمانوں کیلئے جدوجہد کرنی ہے، ان کیلئے ہم متحد ہیں۔ ہم ان کے مسائل کو اپنا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ فلسطین کا مسئلہ ہو یا کشمیر کا مسئلہ ہو، کشمیر اس لئے مسئلہ ہے، کیونکہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، کشمیری قربانی دیکر ثابت کرسکتے ہیں کہ انکی منزل پاکستان ہے۔ اسرائیل کے بارے میں یہ یاد رکھیں کہ دو ریاستی حل کو ہم کسی صورت قبول نہیں کرتے، ایک ہی ریاست ہے اور اس کا نام ہے فلسطین۔ اسرائیل تو امریکہ اور برطانیہ کی ناجائز اولاد ہے، اس مسئلہ کا ایک ہی حل ہے، باہر سے آباد کئے جانے والے چلے جائیں اور جو اصل فلسطینی ہیں، وہ یہاں رہ جائیں۔

خود مختار پاکستان
پاکستان میں آپ حقیقی آزادی کی تحریک کو سپورٹ کریں یا نہ کریں، مگر قوم کا بچہ بچہ یہ جان چکا ہے کہ پاکستان پر امریکہ کا غلبہ ہے اور فلاں فلاں عناصر ترکیبی اس کی گرفت میں ہیں۔ پاکستان ترقی نہیں کرسکتا، جب تک یہ ہاتھ نہ ٹوٹ جائے۔ قطع نظر کوئی اس نعرہ سے مخلص ہے یا نہیں، مگر یہ سب مانتے ہیں کہ یہ شعور پیدا ہوگیا ہے کہ پاکستان کو حقیقی طور پر آزاد ہے، تب ہی ترقی کرے گا۔ یہ شعور کے عوام اور اس کے رگ و ریشاں میں آگیا ہے، کیا اسے پاکستان کے روشن مستقبل کی دلیل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ امام راحل روح اللہ موسوی الخمینی نے فرمایا تھا کہ قوموں کو اپنی تقدیر اپنے ہاتھ میں لینی چاہیئے، اپنی قسمت کے فیصلے خود کرنے چاہیئں۔ شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی نے بھی یہی نظریہ اختیار کیا اور ہمارا راستہ جو 6 جولائی کو دستور پیش کیا گیا، اس میں بھی یہ لکھا ہوا کہ ہم پاکستان میں امریکی مداخلت کو قبول نہیں کرتے، پاکستان کی قسمت کے فیصلے پاکستان میں کئے جانے چاہیئں۔

پاکستان فوج نے نہیں بنایا تھا، پاکستان عوام نے بنایا تھا، پاکستان کو عوام بچائیں گے، فوج ان عوام کا ساتھ دے گی۔ پاکستان ایک حقیقی فلاحی سماج میں ڈھل جائے گا۔ جب ادھر سے آواز اٹھے گی، خانہ کعبہ کے ساتھ ٹیک لگا کر فاطمہ زہراء کا فرزند عدل و انصاف کیلئے پکارے گا، جب ظلم کے خلاف آواز دے گا تو پاکستان کے لوگ والہانہ اس پہ لبیک کہیں گے۔ پاکستان عالم اسلام کا سب سے بڑا ملک ہے، اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا ہے اور عالم اسلام میں اس کا ایک خاص مقام اور ساکھ ہے۔ عالم اسلام میں پاکستان واحد ایٹمی طاقت ہے، جس کے پاس بہت بڑی فوج ہے اور جو موثر طور پر اپنی صلاحیتیوں کا لوہا منوا چکی ہے۔ ابھی پاکستان نے عالم اسلام کی آویزیشوں میں کھل کر کسی ایک گروہ کا ساتھ نہیں دیا، اگرچہ اس سلسلے میں چند امور ضرور قابل اعتراض ہیں، لیکن اگر آئندہ کچھ احتیاط کی جائے تو پاکستان ثالثی کے لئے مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔

پاکستان جغرافیائی اور آبادی کے لحاظ سے بھی عالم اسلام کے تقریباً وسط میں موجود ہے اور اپنے مشرق و مغرب میں بسنے والے مسلمانوں کے مابین ایک قدرتی درمیانی مقام رکھتا ہے۔ تربیت یافتہ مین پاور کے اعتبار سے بھی پاکستان عالم اسلام میں قابل لحاظ حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان کے لوگوں کی بھاری اکثریت مزاج کے اعتبار سے منہج اعتدال پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے انتہاء پسند اور دہشت گرد گروہ ضرور اس ملک میں سرگرم عمل رہے ہیں اور آج بھی ہیں، لیکن عوام کی بھاری تعداد اعتدال و توازن کے ساتھ زندگی بسر کرتی ہے۔ پاکستان کے مختلف مسالک کے لوگوں کے مابین رواداری، دوستی، بھائی چارہ اور اجتماعی تعلقات دوسرے ملکوں کی نسبت زیادہ ہیں۔

مجھے یقین ہے کہ ڈاکٹر علی عباس نقوی کی سربراہی میں ادارہ البصیرہ سید ثاقب اکبر نقویؒ کے افکار و نظریات کی روشنی میں اپنا مشن جاری رکھے گا۔ علامہ اقبالؒ نے کہا تھا کہ ؎
مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جُدا ہوتے نہیں

اِس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ ”جب تک پاکستان ہے زندہ، زندہ رہیں گے، ثاقب اکبر نقوی۔
خبر کا کوڈ : 1117862
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش