0
Thursday 22 Feb 2024 17:21

صحافی بھی غیر محفوظ

صحافی بھی غیر محفوظ
تحریر: سید رضا عمادی

قطر کے بین الاقوامی تعاون کے وزیر لولو الخطر نے غزہ پٹی میں جنگ کے جاری رہنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل نے صحافیوں کو نشانہ بنانے اور انہیں قتل کرنے میں تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ غزہ پٹی کے خلاف صیہونی حکومت کی جنگ کا پانچواں مہینہ اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ یہ جنگ جہاں غزہ کے عوام کے خلاف صیہونی حکومت کی نسل کشی کا باعث بنی ہے، وہاں اس جارحیت میں مختلف صحافی بھی شامل ہیں، جو صیہونی حکومت کے ٹارگٹ تشدد کا نشانہ بنے ہیں۔ القدس پر قابض صیہونی حکومت نے گذشتہ پانچ ماہ کے دوران غزہ پر کئے گئے حملوں میں 127 صحافیوں کو قتل کیا گیا ہے۔

غزہ پر قابض حکومت کے حملے کے آغاز سے اب تک روزانہ ایک صحافی شہید ہوا ہے
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ صیہونی حکومت نے تقریباً ہر روز ایک فلسطینی صحافی کو شہید کیا ہے۔ غزہ پر اسرائیلی فوج کے حملے کے پہلے ہی دنوں سے اسرائیل کی جانب سے صحافیوں اور نیوز میڈیا کے نمائندوں کو نشانہ بنایا جانا اس بات کو واضح کرتا ہے کہ صیہونی فوجی کسی رپورٹر کو دیکھنا تک گوارا نہیں کرتے تھے۔ بین الاقوامی اداروں کی رپورٹ کے مطابق غزہ پر صہیونی حملے کے پہلے مہینے میں کم از کم 39 صحافی مارے گئے، جو کہ روس اور یوکرین کے درمیان ڈیڑھ سال سے جاری جنگ میں ہونے والی ہلاکتوں سے دو گنا زیادہ ہے۔ اسی وجہ سے اس مہینہ کو 2023ء میں "صحافیوں کے لیے مہلک ترین مہینہ" قرار دیا گیا۔

صحافیوں کے تحفظ کی کمیٹی نے یہ بھی رپورٹ کیا ہے کہ اسرائیل-غزہ جنگ کے پہلے مہینے میں مارے گئے صحافیوں کی تعداد 1992ء میں کمیٹی کا کام شروع ہونے کے بعد سے جنگ کے پہلے مہینے میں ہونے والے کسی بھی دوسرے تنازع سے بہت زیادہ تھی۔ انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس کے سیکرٹری جنرل "انتھونی بیلینجر" نے اس حوالے سے ایک بین الاقوامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا "میں کہہ سکتا ہوں کہ شام، عراق اور سابق یوگوسلاویہ جیسی کلاسک جنگ میں ہم نے اس قسم کی ہلاکتیں نہیں دیکھی ہیں۔ غزہ میں کیا ہوا تاریخ اسے یاد رکھے گی۔"

غزہ کی پٹی میں جنگی جرائم کے واقعات کیخلاف مغرب کا دوہرا معیار
بین الاقوامی انسانی قانون کے مطابق صحافیوں کے خلاف جرم کو جنگی جرم تصور کیا جاتا ہے اور صحافیوں اور شہریوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنانا جنگی جرم قرار دیا جاتا ہے۔ صحافیوں کو آزادی اور تحفظ اس لئے فراہم کیا جاتا ہے، تاکہ وہ کسی بھی تنازعے میں کسی خوف اور ڈر کے بغیر اپنا کام کرسکیں۔ ایک اور اہم مسئلہ اور نکتہ یہ ہے کہ عالمی برادری نہ صرف غزہ میں صیہونی حکومت کے غاصبانہ قبضے اور اس کی طرف سے جاری قتل عام پر خاموش ہے، جس کی وجہ سے یہ جارح حکومت عام لوگوں کے اجتماعی قتل عام حتی صحافیوں کے قتل سے بھی دریغ نہیں کر رہی ہے۔ جنگ کی کوریج کرنے والے صحافیوں کے قتل کے باوجود غزہ کے بارے میں خبروں اور تصاویر کا سلسلہ جاری ہے، جو صحافیوں کی پیشہ وارانہ خدمات کو عملی ثبوت ہے۔

اس سلسلے میں قطر کے بین الاقوامی تعاون کے وزیر لولو الخطر نے غزہ پر اسرائیل کے حملے کو "بچوں کا قتل عام" قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ کی جنگ نے پوری دنیا کے سامنے مغرب کے دوہرے معیار کو عیاں کر دیا ہے۔ قطر کے بین الاقوامی تعاون کے وزیر نے مزید کہا ہے کہ آج یہ سب پر عیاں ہوگیا ہے کہ اسرائیلی فوج نے انسانی حقوق کے تمام قوانین، کنونشنز اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی کی ہے۔" صحافیوں کے خلاف صیہونی حکومت کے جرائم کی شدت کی بنیادی وجہ غزہ میں صیہونی حکومت کی نسل کشی کی کوریج کو روکنا ہے۔ صیہونی حکومت نے دہشت گردی کے ذریعے صحافیوں کو جنگ کے واقعات کی کوریج سے روکنے کی کوشش کی ہے، لیکن وہ اس سلسلے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ صحافی تمام تر مشکلات کے باوجود جنگ کے اکثر واقعات کی کوریج کر رہے ہیں۔ بلا شبہ صحافیوں کا یہ اقدام عالمی رائے عامہ میں صیہونی حکومت کو بدنام کرنے کا باعث بنا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1117906
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش