0
Saturday 5 Nov 2011 11:34

حج اور اُسکا آفاقی پیغام

حج اور اُسکا آفاقی پیغام
تحریر:ثاقب اکبر 

موسم حج روح کے مہک اٹھنے کی بہار ہے۔ جنھیں پہلی مرتبہ اذن حضوری ملا ہے، اگر واقعاً ملا ہے، تو آج اُن کے دل ایک خاص رفتار سے دھڑکتے ہوں گے۔ آج وہ ابراہیمی حج کی آخری منزلیں طے کر رہے ہوں گے۔ ادھر ہم ہیں کہ آنکھیں عالم اشتیاق میں چھلک رہی ہیں۔ اللہ کی طرف سے بلاوے کی امید لگائے بیٹھے ہیں، جس کا نام دلوں کو قرار دیتا ہے اور جس کا کہنا ہے کہ مجھے پکارو میں سنتا ہوں اور جواب دیتا ہوں۔ 
علامہ اقبال کہتے ہیں:
افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
جن آنکھوں کو بیت اللہ کی زیارت نصیب ہوئی ہے اور انھیں ایمان کی بینائی بھی بخشی گئی ہے، اُس خوش نصیبوں کی آنکھیں اللہ کے گھر کو دیکھ کر ہر گھر سے بے گانہ ہو جائیں گی، کیونکہ یہ اُس کا گھر ہے کہ جس کی عظمت کے سامنے ہر بڑائی ہیچ ہے۔ حاجی احرام باندھے حرم الٰہی کی حرمت کا پاس کیے جب اُس گھر کا طواف کررہے ہوں گے، جس کا طواف انبیائے الٰہی اور اولیائے الٰہی کو نصیب ہوا، تو انھوں نے ضرور اس طواف کا یہ مطلب سمجھا ہو گا کہ اب مجھے کسی اور گھر کا طواف نہیں کرنا۔
 
بیت اللہ، اللہ کا گھر اور ہائوس آف اللہ سے بڑھ کا کس کا بیت، گھر اور ہائوس ہو سکتا ہے۔ اس گھر کے ساتھ ساتھ کسی اور گھر کا بھی طواف؟ الامان، یہی تو شرک ہے۔ پھر ہر حاجی کو صفا و مروہ کے مابین سعی بھی کرنا ہوتی ہے، اس آگاہی کے ساتھ کہ ضروریاتِ حیات کی دستیابی کے لیے مجھے پوری طرح سعی کرنا چاہیے۔ سعی کرتے ہوئے ہر حاجی ضرور سوچے گا کہ جب زوجہ ابراہیم ع اور مادر اسماعیل ع یعنی ایک خاتون لق و دق صحرا میں بیٹے کی پیاس بجھانے کے لیے سعی کرتی ہے اور مایوس نہیں ہوتی، تو مجھے سعی کرنا ہے اور مایوس نہیں ہونا اور یقین رکھنا ہے کہ لیس للانسان الّا ما سعی، یعنی ملنا تو سعی کے نتیجے میں ہی ہے۔ البتہ صفا و مروا کے درمیان سعی کا پیغام یہ ہے کہ انسان کو ہر سعی اللہ کے بھروسے پر کرنا ہے۔ اللہ کے بھروسے پر کی گئی سعی کا نتیجہ بڑا عظیم اور بڑا پائیدار ہوتا ہے۔ سعی تو کافر کی بھی ضائع نہیں ہوتی، لیکن مومن کی سعی اُس کے ایمان کی طرح پائیدار ہوتی ہے۔ ابلتا ہوا زمزم اسی حقیقت کی شہادت پیش کر رہا ہے ۔ ہاجرہ س کی سعی یہ پیغام دیتی ہے کہ جدوجہد مرد و زن کو کرنا ہے، بے تکان کرنا ہے اور مایوس ہوئے بغیر کرنا ہے۔
 
حرم امن الٰہی اور مومن کا کیسا نہ ٹوٹنے والا رشتہ ہے۔ ایمان امن اور مومن ساتھ ساتھ ہیں، یہ حقیقت کیسے خانہ خدا میں منسجم ہو جاتی ہے اور ایک عملی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ یہاں تو انسان کے ہاتھوں سے کیڑے مکوڑے بھی محفوظ ہیں اور درختوں کے پتے بھی اس کی دستبرد سے مامون ہیں، انسان کی جان تو بہت دور کی بات ہے ۔ یہاں سب انسان مامون ہیں، سب محفوظ ہیں، سب کو امان حاصل ہے۔ یہاں عزت و حرمت اور ناموس بھی محفوظ ہے۔ گویا اللہ اور اللہ کا گھر انسانیت کو امن و سلامتی کا پیغام دیتا ہے۔ اللہ انسان کی جان کو گراں بہا جانتا ہے، اُس خالق نے جانِ انسانی کو تکریم عطا ہے، اس نے اسے احسنِ تقویم میں پیدا کیا ہے، اُسے گوارا نہیں کہ اس کا خون بہایا جائے۔ اُس کے رسول ص نے بہت عظیم بات کہی کہ میرے لیے ساری زمین کو مسجد بنایا گیا ہے۔ رحمة للعالمین کا پیغام ساری زمین کے لیے رحمت ہے اور ساری زمین کا احترام مسجد کی طرح قائم ہونا چاہیے۔ سارے انسانی معاشرے کو امن و سلامتی کا گہوارا ہونا چاہیے۔
 
مرد و زن اکٹھے طواف کرتے ہیں، اکٹھے سعی کرتے ہیں اور سب کی توجہ اپنے اللہ کی طرف ہوتی ہے۔ جب سب کی توجہ اللہ کی طرف ہو تو عزتیں محفوظ ہوتی ہیں، جانیں امان میں ہوتی ہیں اور اموال کا کھٹکا نہیں ہوتا۔ یہاں سے مومن یہ قانون اخذ کرتا ہے کہ دنیا کے لیے امان توجہ الی اللہ میں ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ پوری دنیا میں ظلم و بے اعتدالی توجہ ہی کے بھٹک جانے کا نتیجہ ہے اور جونہی توجہ یکسو ہو جائے، ایک اللہ کی طرف ہو جائے، تو امن و سکون اور اطمینان کی فضا قائم ہو جاتی ہے۔
مومن کی نگاہ بصیرت لباس احرام سے بھی دانائیاں کسب کرتی ہے۔ وہ لباس کی یکسانیت پر غور کرتا ہے اور دیکھتا ہے کہ ایک سے لباس نے امیر و غریب، حاکم و محکوم اور آقا و غلام کی تمیز مٹا  دی ہے۔ سب بندے بن گئے ہیں، ایک خدا کے بندے بن گئے ہیں، بس وہی ہے جس کی بندگی میں افتخار ہے، اس کے سوا ہر کسی کی غلامی انسان کے لیے کسرشان ہے، بادشاہوں کا بادشاہ ہے، اُس کی ازلی و ابدی بادشاہت کے سامنے ہر بادشاہت سرنگوں ہے۔ لباس کی سادگی نے شاہوں میں انکساری اور فقیروں میں اعتماد کی روح پھونک دی ہے۔
 
اس لباس نے قوم و ملت کا امتیاز ہی ختم نہیں کر دیا بلکہ رسم و رواج کے فرق کو بھی مٹا دیا ہے اور سارے انسانوں کو ایک جیسا بنا دیا ہے۔ یہاں انسان نے اپنے ہاتھوں سے کفن پہن لیا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ ایک روز اسی بدن پر ایسا ہی ان سلا لباس دوسرے ہاتھوں نے پہنانا ہے، آج میں نے خود اپنے ہاتھوں سے یہ لباس پہن لیا ہے۔ اُس روز دوسرے میرا بدن اُٹھائے توحید الٰہی کی شہادت دے رہے ہوں گے، آج میں خود اس مالک کبریا کے حضور حاضر ہوں اور اُسے پکار کر کہ رہا ہوں کہ اے میرے مالک! میں تیرے حضور حاضر ہوں۔ یہاں اللھمّ لبّیک کی صدائوں نے زبانوں کا فرق بھی مٹا دیا ہے۔ اصل تو زبان روح ہے جو روح کائنات سے اتصال کے لیے بے قراری کا اظہار کر رہی ہے۔ اللھّم لبّیک، اللھمّ لبّیک کی تکرار تو اسی بے قرار ی کا اظہار ہے۔ یہ تو غم ہجراں سے گزرنے والے عاشق کی فریاد ہے۔ یہاں لفظ تو بس علامت کی حیثیت رکھتے ہیں، وہ مقدس علامت جو جذبہ اطاعت کی ترجمان ہے۔
 
حج جس کا معنی قصد ہے اور قصد کرنے والے کو حاجی کہتے ہیں، اگر اس قصد کی صداقت دلوں کے بھید جاننے والے کے ہاں قبول ہو جائے تو یہ واقعاً حاجی ہے ورنہ نامراد مسافر، بھٹکا ہوا راہی، آوارہ پنکھ اور بس۔ قصد کا تعلق زبان و بیان سے نہیں دل و دماغ ہے اور واقفِ راز دروں، جو رگ جاں سے بھی زیادہ قریب ہے اُس سے انسان کا قصد چھپا ہوا نہیں رہ سکتا۔ یہ قصد جتنا خالص اور پاک ہو گا مہمان کی پذیرائی کا امکان بھی اتنا ہی زیادہ ہو گا۔
 
اللہ کے گھر میں مومن کی نظر ایک کالے سے، گھسے ہوئے پتھر کی زیارت کے لے بھی بے قرار ہوتی ہے۔ یہ ”حجر اسود“ ہے۔ اس کا معنی ہے ”کالا پتھر“۔ یہ دیوارِ کعبہ میں نگینے کی طرح جڑا ہے۔ ابراہیم ع نے اس پر کھڑے ہو کر خانہ کعبہ کو تعمیر کیا تھا۔ خوبصورتی کے ہمارے تمام دنیاوی معیارات یہاں ختم ہو گئے ہیں۔ مومن کے ہاتھ اسے چھونے کو بے چین ہیں۔ وہ بے قرار ہے کہ کاش لبوں کو اس کا بوسہ نصیب ہو سکتا۔ آنکھوں سے اسے دیکھ لینا بھی اسے کتنا لذت بخش معلوم ہو رہا ہے۔ بڑے بڑے خوبصورت محل بنانے والا انسان، طرح طرح کے محراب اور طاق بنانے والا انسان، رنگارنگ پتھر تراشتے والا انسان، اس سادگی اور سیاہی میں دلآویزی تلاش کر لیتا ہے۔ دنیا کے ہر وجود مادی سے زیادہ مقدس اور انمول پتھر، سیاہ پتھر، مومن کو طرح طرح کے جانفزا پیغامات دے رہا ہے، اسے عظمتوں کے نئے معیارات سے آشنا کر رہا ہے۔
یہ تو مومن کی روح کے حج یعنی اللہ کی طرف قصد کا آغاز ہے اور یہ تو روح کی بہار کی ابتدا ہے۔
خبر کا کوڈ : 111802
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش