0
Friday 23 Feb 2024 12:25

ڈاکٹر شہید کی سابقین سے توقعات

ڈاکٹر شہید کی سابقین سے توقعات
تحریر: سید نثار علی ترمذی

یہ مبالغہ آرائی نہیں کہ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید اپنی ذات میں ایک تنظیم تھے۔ انہوں نے ناصرف مختلف تنظیموں کی بنیاد رکھی بلکہ کئی تنظیموں کو سہارا بھی دیا۔ ان کی پوری شعوری زندگی تنظیمی دائروں میں ہی گزر گئی۔ ایسے لگتا تھا کہ وہ جہاں سے گزرتے تنظیم کی آبیاری کرتے چلے جاتے، لیکن ان کو آئی ایس او سے جو عشق تھا، وہ دائمی اور بے انتہاء کا تھا۔ وہ سب سے زیادہ ترجیح آئی ایس او کو دیتے۔ جب انہیں کوئی اچھا خیال آتا تو وہ چاہتے کہ اس پر آئی ایس او عمل کرے۔ کوئی پروگرام ترتیب دینا ہوتا تو آئی ایس او کے برادران سے مشاورت و معاونت ضروری گردانتے۔ انہوں نے اپنے قیمتی وقت کی جو تقسیم کی ہوئی تھی، اس میں آئی ایس او کیلئے خصوصی وقت نکالتے۔ آئی ایس او کے بڑے پروگراموں سے لے کر یونٹ سطح کے معاملات پر ان کی گہری نظر ہوتی۔ وہ جہاں صائب سمجھتے اپنے مشورہ سے ضرور نوازتے۔

آئی ایس او کی مالی، تنظیمی، اخلاقی، تربیتی اور تعلیمی مشکلات کے حل کیلئے کوشاں رہتے۔ اسی طرح جب انہیں آئی ایس او میں کسی جگہ کمزوری یا غفلت نظر آتی تو وہ تڑپ اُٹھتے اور گھنٹوں آئی ایس او کے ذمہ داران کے ساتھ گفت و شنید کرکے اس کا ازالہ کرتے۔ جب وہ آئی ایس او کے دفتر میں آتے تو جہاں وہ تنظیمی امور کے بارے میں دریافت کرتے، وہاں دفتر کے ماحول، صفائی اور ضروریات کو بھی مدنظر رکھتے۔ اگر کسی چیز کی ضرورت ہوتی تو فوراً مہیا کرتے یا وعدہ کرتے کہ وہ جلد اسے مہیا کر دیں گے۔ گویا تمام تر جھمیلوں کے باوجود ڈاکٹر صاحب آئی ایس او کے اثر سے نہ نکل سکے۔ اسی طرح آئی ایس او کے برادران کا بھی ڈاکٹر صاحب سے عشق دیدنی تھا۔ وہ پہروں بیٹھے ڈاکٹر صاحب کی باتیں سنتے رہتے، ان کی زیارت کرتے رہتے تھے۔ ان کو اپنے مسائل سے آگاہ کرتے۔

ڈاکٹر صاحب کے فرمان پر عمل کرنا گویا ان کا شرعی وظیفہ تھا، جس کی انجام دہی میں کوتاہی نہ کرتے۔ قافلے میں تیز رو اور سست رو لوگ موجود ہوتے ہیں، مگر ڈاکٹر صاحب ان سب کو ساتھ لے چلنے پر آمادہ کرلیتے۔ اسی طرح جو لوگ تنظیم سے فراغت پاتے، وہ ڈاکٹر صاحب سے وابستہ ہو جاتے۔ ڈاکٹر صاحب کو قدرت نے انسان شناسی کا کمال کا ملکہ عطا کیا ہوا تھا۔ وہ ایک ملاقات میں ہی پرکھ لیتے کہ کون کس کام آسکتا ہے۔ اس سے وہی کام لیتے۔ میرے خیال میں ان کی کامیابی کی ایک وجہ ان میں اس وصف کا بدرجہ اتم ہونا ہے۔سابقین آگاہ ہیں کہ ڈاکٹر صاحب مختلف لوگوں کو مختلف کام تفویض کرتے تھے، کچھ کام عمومی نوعیت کے ہوتے تھے اور کچھ کام خاص صلاحیت کے لوگ ہی انجام دے سکتے تھے، لیکن یہ ممکن نہیں تھا کہ کوئی شخص ڈاکٹر صاحب سے ملا ہو اور ڈاکٹر صاحب نے اسے کوئی کام تفویض نہ کیا ہو۔ گویا ڈاکٹر صاحب کے پاس کاموں کا انبار تھا، جسے وہ بانٹ رہے تھے، یہ عمل ان کا زندگی کی آخری سانسوں تک جاری رہا۔

ڈاکٹر محمد علی نقویؒ کی ایک پہچان شہید علامہ عارف حسین الحسینیؒ کی قیادت میں ملک گیر تحریک کو فعال کرنا تھا۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب شہید عارف الحسینیؒ کی ذات میں اس طرح ضم ہوچکے تھے، جس طرح وہ امام خمینی ؒ کی ذات میں ضم تھے۔ ڈاکٹر صاحب کی فعالیت اور شہید عارف الحسینی کا ساتھ بہت سے لوگوں کو کھٹکتا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ اس تحریکی فعالیت کے پس منظر میں اگر کوئی ذات ہے تو ڈاکٹر محمد علی نقوی اور ان کی ٹیم کی ہے۔ جب بھی ان میں سے کچھ لوگ شہید حسینی سے ملتے تو انہیں ڈاکٹر صاحب کے بارے میں اپنے اشکالات سے آگاہ کرتے، مگر شہید عارف الحسینی ؒ سمجھتے تھے کہ یہ حب علی ؑ میں نہیں بلکہ بغض معاویہ کے تناظر میں بات کر رہے ہیں۔

یہی ہوا جیسے ہی شہید عارف الحسینیؒ کی ظاہری آنکھیں بند ہوئیں تو گویا ان کی مراد برَ آئی۔ انہوں نے نئی قیادت کی حمایت کے بدلے میں ڈاکٹر صاحب کو کوئی قابل ذکر کردار سپرد نہ کرنے کا وعدہ لیا اور ایسے ہی ہوا۔ ڈاکٹر صاحب شہید قائدؒ کی رحلت سے لے کر اپنی شہادت تک کسی بھی تنظیمی عہدے پر فائض نہ ہوئے۔ 1989ء، وہ سال جب رہبر کبیر امام خمینیؒ اپنا ولولہ انگیز دور گزار کر اور سرخرو ہوکر اپنے رب کے حضور پیش ہوگئے۔ ڈاکٹر صاحب نے محسوس کیا کہ ایک دور گزر گیا ہے، اب نیا دور ہے اور اس کے تقاضے مختلف ہیں تو انہوں نے اس لحاظ سے اپنی حکمت عملی کی ترتیبِ نو کی۔ انہوں نے اپنے چیدہ چیدہ دوستوں کو ملتان میں جمع کیا اور ان کے سامنے اپنا دردِ دل کھول کر رکھ دیا۔

انہوں نے کہا: "شہید عارف الحسینی ؒ اور امام خمینیؒ ہماری زندگیوں میں جلوہ گر ہوئے اور اپنی ذمہ داری نبھا کر چلے گئے، ہم ان کے دور کے چشم دید گواہ ہیں۔ اب آئندہ نسلوں کیلئے ہماری حیثیت ایک راوی کی ہے۔ اگر ہم نے ان بزرگوں کے افکار اور تعلیمات سے پوری طرح آگاہی حاصل نہ کی اور اپنے کردار کو ان کے اسلوب پر نہ ڈھالا تو ہم آئندہ لوگوں کو کوئی مثبت پیغام نہ دے سکیں گے۔"، "ملت تشیع نے ایک بڑی پیش رفت کی ہے وہ یہ کہ اس ملک کے نظام کی تبدیلی کیلئے منشور پیش کیا۔ اس سے قبل ایسا کبھی نہیں ہوا۔ ہمیں چاہیئے کہ اس تاریخی ارتقاء سے کسی صورت پیچھے نہ ہٹیں۔"، "انقلاب اسلامی ایران کی ہر صورت حمایت جاری رکھنی ہے اور ہم میں سے ہر شخص اپنی مسئولیت کا احساس کرتے ہوئے اپنے کردار کا تعین کرے۔"

مذکورہ نشست میں طے پایا کہ ان مقاصد کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک ماہانہ خط جاری کیا جائے گا، کیونکہ ہر خط پر "شمارہ نمبر" درج ہوتا تھا۔ اس لیے اسے شمارہ پکارا جانے لگا۔ اس پر پھبتی بھی کَسی گئی، لوگ شمارہ گروپ کے نام سے پکارے جانے لگے۔ یہ خط بظاہر دو مختلف ناموں سے جاری ہوئے۔ حقیقتاً یہ تمام خط ڈاکٹر صاحب کے افکار پر مشتمل اور ان کی منظوری اور تائید سے شائع ہوتے۔ ڈاکٹر صاحب کی خواہش ہوتی کہ یہ خط ہر ماہ جاری ہو، مگر بوجوہ ایسا نہ ہوسکا، لیکن ڈاکٹر صاحب ہر ماہ کے شروع میں اس عزم کا اظہار کرتے کہ خط جانا چاہیئے، اس کیلئے تیاری کرو، عندیہ دیتے۔ کسی دن فرصت کے لمحات میں ڈاکٹر صاحب اس خط کو لکھواتے یا اس خط کی آئوٹ لائن بنا دیتے۔

جب یہ خط تیار ہو جاتا تو اس کو توجہ سے پڑھتے، جہاں ضرورت ہوتی کمی یا اضافہ کرتے چلے جاتے۔ یوں تین چار صفحات پر مشتمل خط اپنی منزل کی طرف گامزن ہونے کو آمادہ ہوتا۔ اس خط کے ساتھ بعض اوقات کوئی شائع شدہ مضمون، آرٹیکل وغیرہ کی کاپی بھی ہوتی۔ ایک خط کی تیاری اور ترسیل میں پانچ سے دس روپے خرچ آتا۔ جس ماہ یہ وسائل میسر ہو جاتے تو خط چلا جاتا، ورنہ اگلے ماہ نیا شمارہ تیار ہوتا۔ اس خط میں تاکید کی جاتی کہ اس خط کی دس کاپیاں کروا کر دیگر دوستوں تک پہنچائیں، نیز ایک سٹڈی سرکل میں کم از کم اس خط کو پڑھا جائے اور جوابی خط میں تاثرات و آراء کو مرتب کرکے مرکز کو ارسال کریں۔ اہم تاثرات کو اگلے خط میں شامل کر دیا جاتا۔

ڈاکٹر صاحب جہاں دوستوں کو سٹڈی سرکل قائم کرنے کی تاکید کرتے، وہاں لاہور میں خود بھی سٹڈی سرکلز قائم کیے۔ ابتداء میں لاہور میں چار سٹڈی سرکل، سمن آباد، وسن پورہ، شاہدرہ اور گرین ٹائون میں قائم کیے گئے، مگر بعد میں اسے ایک سٹڈی سرکل میں ضم کر دیا گیا، جس کی رونق ڈاکٹر صاحب کے دم قدم سے تھی۔ اس سٹڈی سرکل میں استاد مرتضیٰ مطہریؒ سے معین اقتباسات "فقہ اور اُصول فقہ" اور "سخن" سے معین اقتباسات پڑھے گئے۔ امام خمینیؒ کا وصیت نامہ لفظ بہ لفظ پڑھا گیا، جن کی وضاحت اور تشریح کی جاتی۔ وہاں ملکی، بین الاقوامی اور ملی مسائل پر کھل کر بحث ہوتی، جہاں الجھن ہوتی، وہاں ڈاکٹر صاحب مداخلت کرتے، یہ سرکل کسی نہ کسی طرح ڈاکٹر صاحب کی آخری سانس تک جاری رہا۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر صاحب دوستوں کی ریجنل نشستیں بھی کرتے تھے۔ سرگودھا اور ڈیرہ غازی خان کی نشستوں میں اس ناچیز کو بھی شرکت کا موقع میسر آیا۔

قائد شہید کے مزار اقدس اور آئی ایس او کے مرکزی کنونشن پر مرکزی اجتماع ہوتے۔ عظمت اسلام کانفرنس منعقدہ مینار پاکستان کے موقع پر امام بارگاہ زینبیہ لٹن روڈ لاہور پر ایک مرکزی نشست ہوئی، جس میں ڈاکٹر صاحب، محترم احمد رضا خان کو اپنے ساتھ لے کر آئے اور انہیں اظہار کا موقع دیا۔ یہ ڈاکٹر صاحب کی صفت تھی کہ وہ رہنمائی ضرور کرتے، ہدف بتاتے، مگر انگلی پکڑ کر ساتھ لے کر چلنے والی بات قطعاً نہ تھی اور وہ اپنے دوستوں میں یہی صفت دیکھنا چاہتے تھے۔ لوگ اکثر سوال کرتے کہ ہم کیا کریں، ڈاکٹر صاحب انہیں کہتے کہ اپنے آپ کو مرکز قرار دیتے ہوئے اپنی مسئولیت کا احساس کیجئے اور اس پر عمل کیجئے۔

وہ پھر مثالیں دے کر توجہ دلاتے کہ اگر آپ کے علاقہ میں مسجد ہے، اسے آباد ہونا چاہیئے، اگر نہیں ہے تو آپ کی ذمہ داری ہے کہ تعمیر ہو، اگر مدرسہ ہے تو اس کو فعال ہونا چاہیئے۔ اگر آپ کے علاقہ میں آئی ایس او کا یونٹ نہیں ہے تو یونٹ بننا چاہیئے۔ اگر آئی ایس او کا یونٹ ہے تو اس کے ساتھ تعاون، حوصلہ افزائی اور سرپرستی کی جانی چاہیئے۔ امامینز سے رابطہ اپنے ذاتی مطالعہ میں اضافہ ہونا چاہیئے۔ عزاداری میں فعال کردار ادا کرنا چاہیئے، یعنی آپ کے علاقہ میں آپ کی موجودگی ایک فعال فردِ معاشرہ کی ہونی چاہیئے۔ جب ڈاکٹر جعفر مرحوم نے پاک پولی ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ کی موجودہ بلڈنگ کا افتتاح کیا تو لوگوں نے اس کاوش کو بہت سراہا۔ ایک شخص نے کہیں یہ بات کہہ دی کہ ڈاکٹر جعفر نے اتنا بڑا ادارہ قائم کیا ہے جبکہ ڈاکٹر محمد علی نقوی نے کیا کیا ہے۔

کسی نے یہی بات ڈاکٹر صاحب کے گوش گزار کر دی (میں وہیں موجود تھا اور جانتا تھا کہ ڈاکٹر صاحب نے اس ادارہ کے ساتھ کتنا تعاون کیا۔ ڈاکٹر جعفر مرحوم نے بھی شہید کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے اس ادارہ کے ایک ہال کا نام ڈاکٹر صاحب کے نام سے منسوب کیا)۔ ڈاکٹر صاحب نے اس پر کہا کہ ہم نے ہزاروں نوجوان تربیت کرکے معاشرے کو دیئے ہیں، جن میں ہر ایک اس جیسے کئی ادارے بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ تھا ڈاکٹر صاحب کا امامینز کی صلاحیتوں پر اعتماد۔ یہ محسوس کیا جا رہا تھا کہ ڈاکٹر صاحب تحریک کے کاموں میں کوئی نمایاں سرگرمی نہیں دکھا رہے، تحریک کا زوال کیونکہ شروع ہوچکا تھا، دوستوں نے ڈاکٹر صاحب سے اظہار کرنا شروع کر دیا کہ آپ کچھ کریں۔ ڈاکٹر صاحب مسکرا کر کہتے: میں تنہاء کچھ نہیں ہوں بلکہ آپ سب میری قوت اور پہچان ہو، اگر آپ کام کریں گے تو یہ سمجھا جائے گا کہ میں کام کر رہا ہوں، جب آپ کام نہیں کرتے تو مجھ پر حرف آتا ہے۔

اسی طرح ڈاکٹر صاحب بارہا شہید عباس موسوی سے ملاقات کا حوالہ دے کر دوستوں کو ترغیب دیتے۔ وہ فرماتے تھے کہ "عباس موسوی جب اسلام آباد آئے تو دوران ملاقات کسی نے ان سے پوچھا کہ ہم کیا کام کریں، تو انہوں نے تعجب سے فرمایا کہ جن کے پاس کربلا ہو، انہیں یہ سوال نہیں کرنا چاہیئے۔ اس کی بہت ذمہ داریاں ہیں، ہاں البتہ ایک فرد کو اپنی تمام تر صلاحیتوں کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کرنا چاہیئے۔ پھر اللہ تعالیٰ سے وعدہ کرنا چاہیئے کہ دین کے بے شمار کاموں میں سے ایک کام میں اپنے ذمے لیتا ہوں، اپنی پوری زندگی اور صلاحیتیں اس کیلئے بروئے کار لائوں گا اور پھر وہ شخص اپنے وعدہ کے مطابق عمل کرے، اُمید ہے کہ اس کا یہ کام نتیجہ خیز ثابت ہوگا۔" ڈاکٹر صاحب اس واقعہ کو دہرا کر دوستوں کو عمل کی طرف دعوت دیتے۔

بہت سے احباب ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتے اور مختلف لوگوں پر تنقید شروع کر دیتے۔ فلاں یہ کر رہا ہے تو فلاں وہ کر رہا ہے۔ ڈاکٹر اسے تلقین کرتے اور یہ بارہا وہ اپنے لیکچرز و دروس میں کہہ چکے تھے کہ "سب سے بہتر یہ ہے کہ انسان نیکی کے کام کا خود آغاز کرے، اگر وہ یہ نہیں کرسکتا تو جو نیکی کا کام کر رہے ہوں، ان کے ساتھ شامل ہو جائے اور ان کا معاون و مددگار بن جائے۔ اگر وہ یہ بھی نہیں کرسکتا تو اسے چاہیئے کہ وہ تنقید کے بجائے آرام سے اپنے گھر بیٹھ جائے۔" ڈاکٹر صاحب جہاں خود ہروقت مصروف رہتے تھے، وہاں اپنے دوستوں کو بھی کام، کام بس کام کی تاکید کرتے رہتے تھے۔ آج ڈاکٹر صاحب کے دوستوں کیلئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ کیا وہ اپنے حصہ کا کام انجام دے رہے ہیں۔؟ کیا وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لارہے ہیں۔؟ کیا انہوں نے کسی نیک کام کا آغاز کیا ہے۔؟ یا جو نیک کام انجام پا رہے ہیں، اس میں ان کی شرکت و معاونت ہے۔؟ یا وہ فقط تنقید کے ذریعہ سے اپنا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔؟

ڈاکٹر صاحب ایک تحریک کے بانی تھے، اس کا انہیں خود بھی احساس تھا، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے وصیت نامے میں دس دوستوں کی نشاندہی کی۔ جن کی شرعی و اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ پیش رفت کریں، متفقہ لائحہ عمل ترتیب دیں، دیگر دوست ان کے ساتھ تعاون و حمایت کا اعلان کریں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کا خلا پر نہیں ہوسکتا۔ لیکن یہ ایک طرح سے ممکن ہے، ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید نے "شہید رابع آیت اللہ باقر الصدر" کی برسی پر فلیٹیز ہوٹل میں سیمینار منعقد کروایا، جس سے آیت اللہ حسن طاہری خرم آبادی نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ "اگر آج آیت اللہ باقر الصدر اور آیت اللہ مرتضیٰ مطہریؒ" موجود ہوتے تو امام خمینیؒ کا خلا پُر ہوسکتا تھا۔

اسی طرح آج اگر ڈاکٹر صاحب کے دوست، ان کی فکر و عمل کے پیروکار ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اپنی پوری صلاحیتوں کے ساتھ اُٹھ کھڑے ہوں۔ ڈاکٹر شہید کے مشن پر گامزن ہوتے ہوئے ان کے چھوڑے ہوئے ورثہ کو آگے بڑھائیں، ان راہوں کو آباد کریں، جن کی نشاندہی انہوں نے اپنی زندگی میں کی تھی۔ ان جذبوں کو پروان چڑھائیں، جو وقت کے ساتھ ساتھ مانند پڑتے جا رہے ہیں تو میرے خیال میں ڈاکٹر محمد علی نقویؒ شہید کا خلا کسی حد تک پورا ہوسکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1118075
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش