0
Saturday 24 Feb 2024 13:17

سیاست میں اخلاقی اقدار کی اہمیت

سیاست میں اخلاقی اقدار کی اہمیت
تحریر: نصرت شہانی

سیاست کا دائرہ کار زندگی کے امور ہیں جو کہ خدمت خلق کا بہترین ذریعہ اور عبادت ہے۔ حکیم مشرق نے دین کے تابع سیاست کی تاکید فرمائی ہے۔ ’’ہو دین کے تابع تو ہر زھر کا تریاق‘‘۔ بدقسمتی سے یہ شعبہ ایک عرصے سے ناجائز مادی مفادات کے حصول، اقربا پروری، برتری اور مخالفین کو نیچا دکھانے اور انتقام کا نشانہ بنانے سے عبارت ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ دنیا کی محبت تمام غلطیوں خرابیوں کی جڑ ہے۔ اس سے مراد یہ نہیں کہ جائز دنیاوی نعمتوں سے استفادہ نہ کیا جائے، یا مال و دولت نہ کمایا جائے بلکہ دنیا پرستی سے منع کیا گیا ہے اور فقط دنیا ہی کو اپنا ہدف بنانے کی مذمت ہے۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک اچھے مسلمان کی صفت یہ ہے کہ نہ دنیا کیلئے آخرت کو بھول جائے اور نہ ہی آخرت کی فکر میں دنیا سے لاتعلق ہوجائے۔ یہ تاکید بھی کی گئی کہ دنیا کیلئے یوں کام کرو جیسے ہمیشہ رہنا ہے اور آخرت کی اس طرح تیاری کرو جیسے کل چلے جانا ہے۔ بدقسمتی سے وطن عزیز کی سیاست میں مجموعی طور پر اسلامی اصولوں کی پاسداری تو درکنار، غیر مسلم معاشروں کی جمہوری اقدار اور خوبیاں بھی ناپید ہیں۔ عام طور پر انتخابی سیاست میں فقط زر اور زور والے ہی میدان میں وارد ہوتے ہیں، جن کا دین و اخلاقیات سے کم ہی رابطہ ہوتا ہے۔
 
یہ ایک معاشرتی المیہ ہے کہ ایک بڑی تعداد دین کو "اختیاری مضمون" خیال کرتی ہے۔ ان کے خیال میں علماء اور ان سے وابستہ لوگوں کیلئے یہ "لازمی مضمون" ہے، حالانکہ قرآن مجید میں واضح حکم ہے کہ پوری طرح اسلام میں داخل ہو جائیں نیز ایک مسلمان کی زندگی کا ہر کام، بات چیت، رویہ اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق اور اس کی رضا کیلئے ہو۔ خداوند متعال کے احکام نافذ کرنے اور اس کی مخلوق کی خدمت کے قصد سے عہدہ و منصب کا حصول اور حکومت میں شامل ہونا عبادت ہے لیکن غلبہ، ظلم اور زیادتی کیلئے مذموم ہے۔ حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ہے کہ ’’خدا کی قسم! اگر ہفت اقلیم ان چیزوں سمیت جو آسمانوں کے نیچے ہیں، صرف اتنے ظلم کیلئے مجھے دے دیئے جائیں کہ میں چیونٹی کے منہ سے جو کا ایک چھلکا چھین لوں تو کبھی بھی ایسا نہیں کروں گا (نہج البلاغہ خطبہ 222)‘‘۔ ہمارے اراکین اسمبلی اور حکومت میں شامل عوامی نمائندگان کے کردار کا اس اسلامی معیار کے تحت جائزہ لینے سے نہایت بھیانک تصویر سامنے آتی ہے۔
 
پارلیمنٹ میں سیاست دانوں کا اہم کام قانون سازی ہوتا ہے، جو علم و دانش رکھنے والے ہی کر سکتے ہیں۔ جنرل مشرف کے دور تک اراکین اسمبلی کی کافی تعداد ان پڑھ یا نیم خواندہ ہوتی تھی۔ مشرف نے بی اے ہونا لازم قرار دے دیا، جس پر سیاسی اجارہ داروں نے کسی پڑھے لکھے دوست یا حامی کی بجائے اپنی بیویوں، بیٹیوں کو امیدوار بنایا اور بڑی بڑی حویلیوں کی پردہ نشینوں کی تصویریں کوچہ و بازار میں آویزاں کرنے میں نہ خفت محسوس کی، نہ ہی عزتِ سادات کا پاس۔ کچھ افراد نے جعلی ڈگریاں بھی حاصل کیں، جن میں سے بعض اسمبلی کی بجائے جیل جا پہنچے۔ ایک مرتبہ اسمبلی جانیوالے یہ اعزاز زندگی بھر اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں اور معذوری، بیماری یا موت کے بعد بھی کسی اہل اور لائق فرد کو یہ موقع دینے کی بجائے اس کے جملہ حقوق اپنے ورثاء کیلئے محفوظ  رکھتے ہیں۔ اگر سیاستدان قرآن مجید کے اس فیصلے کو ذہن میں رکھیں کہ ذرہ برابر اچھائی اور برائی کا حساب دینا ہوگا اور ایک ایک غلط لفظ پر گرفت ہوگی تو بد زبانی، دھمکی، انتقام کے سیاسی کلچر کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ افسوس کہ انتخابی مہم میں کئی امیدوار اپنی سابقہ خدمات یا آئندہ کے منصوبے پیش کرنے کی بجائے فقط مخالف کی کردار کشی یا عبرتناک انجام کی دھمکیاں دینے پر زور لگاتے ہیں۔ بقول افتخار عارف

خود کو بکھرتے دیکھتے ہیں کچھ کر نہیں پاتے ہیں
پھر بھی لوگ خداؤں جیسی باتیں کرتے ہیں


ہمارے یہاں سیاسی سرگرمیوں اور وابستگی کو دشمنی میں تبدیل کردیا جاتا ہے، جس سے عام ووٹر بہت متاثر ہوتا ہے۔ خاندانی اختلافات بڑھتے ہیں۔ کاغذات نامزدگی جمع کرانے سے لے کر جیتنے تک اس طرح جلوس نکلتے ہیں، جیسے کسی ملک کو فتح کیا اور اب حکومت کرنا ہے۔ سلجھے ہوئے معاشروں میں الیکشن جیتنے والے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہارنے والے کے پاس جاتے ہیں اور تعاون کی درخواست کرتے ہیں۔ ایک اور المیہ رکن اسمبلی کو ملنے والی گرانٹ کا استعمال ہے۔ یہ رقم اس کے ووٹرز کیلئے نہیں بلکہ پورے حلقے کیلئے ہوتی ہے۔ یہ اراکین قومی خزانے سے ملنے والی عوام کی اس امانت کا کس قدر منصفانہ استعمال کرتے ہیں؟ عیاں را چہ بیاں؟ ماضی کو بھول کر اب اسمبلی جانیوالے اپنی کامیابی پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں اور اس کی مخلوق کی بلا امتیاز خدمت اور مدد کر کے مثالی سیاسی کلچر کو فروغ دیں۔
خبر کا کوڈ : 1118226
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش