0
Saturday 24 Feb 2024 17:23

حقیقی مضطر کون؟(1)

حقیقی مضطر کون؟(1)
تحریر: ارشاد حسین ناصر

اللہ کی پاک و بے عیب کتاب میں ارشاد پروردگار ہے۔۔ "أَمَّن یجُیبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَ یَکْشِفُ السُّوءَ وَ یَجْعَلُکُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ أَءِلَهٌ مَّعَ اللَّهِ قَلِیلًا مَّا تَذَکَّرُونَ"(سورة النمل62)، "کون ہے جو بے قرار کی دعا سنتا ہے جبکہ وہ اُسے پکارے اور کون اس کی تکلیف رفع کرتا ہے؟ اور (کون ہے جو) تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا بھی (یہ کام کرنے والا) ہے؟ تم لوگ کم ہی سوچتے ہو" (سورہ نمل 62) انسان اس فانی و عارضی دنیا میں مختلف کیفیات و حالات سے دوچار رہتا ہے، کبھی اسے خوشی ہوتی ہے، کبھی وہ غم کا شکار ہوتا ہے، کبھی وہ مطمئن ہوتا ہے، کبھی عدم اطمینان سے دوچار ہوتا ہے۔ کبھی وہ پریشان ہوتا ہے تو کبھی حالت اضطراب میں چلا جاتا ہے۔ کبھی اس کے لیے راستے کھل جاتے ہیں تو کبھی ہر دروازہ بند ہو جاتا ہے۔ اس کی بے بسی کا عالم یقیناً بہت سخت ہوتا ہے۔

فطری طور پر بے بسی میں وہ ہر صورت نکلنا چاہتا ہے، بے قراری میں وہ اطمینان حاصل کرنا چاہتا ہے، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جب انسان بے بس ہو جاتا ہے تو اس کے لیے جہانِ فانی کے تمام دروازے بند ہو جاتے ہیں، وہ اس طرف دیکھتا اور سوچتا ہے، جو بند دروازے کھول کر مایوسیوں سے نکال کر رکاوٹوں کو ہٹا کر اس شخص پر رحمت کے دروازے کھول سکے۔ اللہ کی پاک و بے عیب کتاب قرآن مجید نے بھی بے قراری، اضطراب کی کیفیت پر درج بالا آیت کا ذکر کیا ہے۔ ہم گداگران در اہلبیت ؑ پر جبین نیاز جھکاتے ہیں اور اس کی تفسیر جانتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے۔

امام محمد باقر علیہ السلام نے آیت؛ قرآنی مضطر؛ بارے حدیث ارشاد فرمائی۔ "هوَ وَ اللهِ المُضطَرُّ فی‌ کتابِ اللهِ وَ هُوَ قَولُ اللهِ «أَمَّن یُجیبُ المُضطَرَّ اذا دعاهُ وَ یَکَشِفُ السُّوءَ وَ یَحعَلُکُمْ خُلفاءَ الأَرض»، "میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ (مہدی علیہ السلام) (حقیقی) مضطر ہیں، جیسا کہ خدا کی کتاب میں بیان ہوا ہے۔" امام باقر علیہ السلام کا فرمان جو نقل ہوا ہے، اس سے ہم اس جانب متوجہ ہوئے ہیں کہ یہ آیہ کریمہ درحقیقت حقیقی مضطر امام مہدی حجۃ ابن الحسن (عج) کی طرف واضح نشاندہی کر رہی ہے۔ اس لیے کہ دنیا میں ہم جتنے بھی پریشان ہوں، کسی بھی مسئلہ کی وجہ سے بے چین و بے قرار ہوں، بالآخر ہماری بے قراری کا اختتام ہو جاتا ہے۔ ہماری بے چینی کا علاج ہو جاتا ہے۔ ہماری پریشانیاں ختم ہو جاتی ہیں، جبکہ قرآن مجید فرقان حمید نے جس مضطرب و بے قرار کا ذکر کیا ہے، وہ چودہ صدیاں آنے کو ہیں کہ بے قرار ہے، بے چین ہے، حالت اضطراب میں ہے۔

ان کی بے قراری یہ ہے کہ وہ دنیا کو عدل و انصاف سے بھرنے اور ظالمین کو نابود کرنے، مستضعفین کو طاقتور بنانے اور مسند اقتدار پر بٹھانے کیلئے حالت اضطراب میں ہیں۔ وہ حالت اضطراب میں ہیں کہ کب ان کو اذن خدا ملے اور وہ دنیا میں ظاہر ہو کر ستم رسیدہ، لاچار و بے چارے، مظلومین کو ان کا حق دلا سکیں اور انہیں ظالمین کے نجس پنجوں سے نجات دلوا سکیں۔ ان کی بےقراری اس لیے ہے کہ وہ بقیۃ اللہ ہیں، جنہیں خاص مقصد کیلئے باقی رکھا گیا۔ وہ مقصد، وہ ہدف پورا کرنے کیلئے ان کا اضطراب، ان کی بےقراری سب پر حاوی ہے، اسی وجہ سے انہیں حقیقی مضطر کہا گیا ہے۔ "اَمَّن یجیب‌ المضطر اذ ادعاه و یکشف السؤ…»

قرآن میں خدا نے حسن و زیبائی کو یوں تشبیہ دی ہے۔: "هُوَ الَّـذِىْ يُسَيِّـرُكُمْ فِى الْبَـرِّ وَالْبَحْرِ ۖ حَتّــٰٓى اِذَا كُنْتُـمْ فِى الْفُلْكِۚ وَجَرَيْنَ بِـهِـمْ بِـرِيْـحٍ طَيِّبَةٍ وَّفَرِحُوْا بِـهَا جَآءَتْـهَا رِيْحٌ عَاصِفٌ وَّجَآءَهُـمُ الْمَوْجُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ وَّظَنُّـوٓا اَنَّـهُـمْ اُحِيْطَ بِـهِـمْ ۙ دَعَوُا اللّـٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَـهُ الـدِّيْنَ لَئِنْ اَنْجَيْتَنَا مِنْ هٰذِهٖ لَنَكُـوْنَنَّ مِنَ الشَّاكِـرِيْنَ"(سوره یونس، آیه 22)، "وہ وہی ہے، جو تمہیں جنگل اور دریا میں سیر کرنے کی توفیق دیتا ہے، یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں بیٹھتے ہو، اور وہ کشتیاں لوگوں کو موافق ہوا کے ذریعے سے لے کر چلتی ہیں اور وہ لوگ ان سے خوش ہوتے ہیں تو ناگہاں تیز ہوا چلتی ہے اور ہر طرف سے ان پر لہریں چھانے لگتی ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ بے شک وہ لہروں میں گھر گئے ہیں، تو سب خالص اعتقاد سے اللہ ہی کو پکارنے لگتے ہیں کہ اگر تو ہمیں اس مصیبت سے بچا دے تو ہم ضرور شکر گزار رہیں گے۔"

اللہ تعالیٰ نے سورہ نمل کی آیت نمبر 62 میں "مضطر (بےقرار)" کا لفظ اس وجہ سے استعمال کیا ہے کہ مصیبت زدہ کی دعا اس وقت سچائی ہوتی ہے، جب وہ ہنگامی حالت میں ہوتا ہے، اس لیے ایک شخص دعا کرتا ہے، غریب اور لاچار نہ ہو، اس کی امید بیرونی وجوہات سے منقطع نہ ہو، جب وہ جانتا ہے کہ کوئی بھی چیز اس کے اضطراب کو دور نہیں کرسکتی اس کی مشکل کا حل فقط ایک ہی سمت دھیان لے جاتا ہے اور ذات خداوند کریم و مہربان ہوتی ہے، گویا اضطراب خدا کے قریب کرتا ہے۔ سوچیں کہ جو اتنے عرصہ سے اضطراب میں ہے، وہ خدا کے کتنا قریب ہونگے۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 1118409
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش