0
Tuesday 27 Feb 2024 11:46

عمران خان کا سیاسی رویہ

عمران خان کا سیاسی رویہ
تحریر: سید منیر حسین گیلانی

انتخابات سے پہلے ہمارا خیال تھا کہ ملکی حالات سدھر جائیں گے۔ وہ جماعتیں جو الیکشن میں کامیابی حاصل کرکے اقتدار میں آئیں گی، ان کے پاس اختیار ہوگا اور عوامی مینڈیٹ کا طاقتور ہتھیار بھی۔ وہ چھوٹے طبقے کی فلاح و بہبود، پاکستان کی اقتصادی صورتحال اور دوست ممالک سے تعلقات بہتر کریں گی۔ انتخابات کے نتائج کو دیکھتے ہوئے میرے کچھ عرصہ پہلے انہیں صفحات میں لکھے گئے کالم میں پیشین گوئی ٹھیک ثابت ہوئی کہ سندھ میں پیپلز پارٹی مضبوط اور طاقتور ترین جماعت بن کر سامنے آئے گی۔ پنجاب میں مسلم لیگ نون بہتر نتائج حاصل کرے گی، جبکہ وفاق اور خیبر پختونخواہ کی سطح پر پاکستان تحریک انصاف بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئے گی۔ میں نے یہ بھی عرض کیا تھا کہ کسی بھی جماعت کو اتنی سادہ اکثریت ایوان میں نہیں مل سکے گی کہ وہ اکیلے پاکستان کے مسائل کے حل کیلئے تمام صوبوں اور مرکز میں حکومت بنا سکے۔ پھر تقریباً وہی کچھ ہوا، جو میرا اندازہ تھا۔

اب مریم نواز پنجاب کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ کا حلف اٹھا چکی ہیں۔ مراد علی شاہ سندھ کے تیسری بار وزیراعلیٰ بن چکے ہیں۔ قومی اسمبلی کا اجلاس بھی طلب کر لیا گیا۔ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں بھی حکومت سازی کے مراحل طے کئے جا رہے ہیں، جو کہ خوش آئند ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں عوام کی مشکلات کو حل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ دھاندلی کے الزامات تو پاکستان کے ہر الیکشن کے بعد لگائے جاتے رہے ہیں، لیکن آئی ایم ایف کو خط لکھنے کے حوالے سے جو راستہ بانی پی ٹی آئی عمران خان اختیار کر رہے ہیں، انہوں نے ثابت کیا ہے کہ اقتدار ہی ان کیلئے سب کچھ ہے، ملکی مفاد نہیں۔ ماضی میں جھانک کر دیکھیں تو نظر آتا ہے کہ انہیں پہلے بھی اقتدار دیا گیا، لیکن وہ عوام کیلئے کچھ ڈلیور نہ کر سکے بلکہ اپنی نااہلی، ہٹ دھرمی اور اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہوئے انہوں نے جو فیصلے کیے، وہ غیر سیاسی، غیر جمہوری اور غیر اخلاقی بھی تھے۔

2018ء میں جن قوتوں کے کندھوں کے سہارے سے انہوں نے اقتدار حاصل کیا، پھر انہیں کیساتھ عمران خان کا اختلاف ہوا، جو شدت اختیار کرتے کرتے تحریک عدم اعتماد کی شکل میں ظہور پذیر ہوا۔ خود عمران خان کہا کرتے تھے کہ خدا کا شکر ہے ”لٹیرا گروپ“ ان کے مقابلے میں اکٹھا ہوگیا ہے، جو مجھے اقتدار سے نکالنا چاہتا ہے۔ ان کی یہ باتیں آج بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ یہ ناکام اور عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوگئی۔ پھر وہ اپوزیشن میں بیٹھنا برداشت نہ کرسکے اور پہلے سے جذباتی فیصلوں کی عادت کی بنا پر قومی اسمبلی سے اپنی جماعت کے ارکان کے استعفوں کا اعلان کر دیا جبکہ اگر ان میں سیاسی سوچ ہوتی تو بے شک ان کی اکثریت اقلیت میں بدل گئی تھی، منتخب ایوان سے باہر نہ نکلتے اور اپوزیشن بینچوں پر بیٹھ کر ایوان میں پارلیمانی کردار ادا کرکے حکومت کو ٹف ٹائم دیتے، لیکن انہوں نے ایوان سے باہر سڑکوں پر احتجاج کا راستہ اختیار کیا، جس میں افواج پاکستان اور حساس اداروں کے سربراہوں کیخلاف نامناسب زبان استعمال کی گئی۔

جو ٹکراو کی شکل اختیار کرگئی۔ یہاں تک کہ انہوں نے بڑے بڑے جلسے اور لانگ مارچ کیے۔ جن میں چاہیئے تو یہ تھا کہ وہ حکومت کے خلاف بات کرتے، لیکن انہوں نے عوام کے اندر افواج پاکستان کیخلاف نفرت کا وہ الاو جلایا، جس کا نتیجہ 9 مئی 2023ء کے سانحہ کی شکل میں رونما ہوا۔ جس میں کور کمانڈر لاہور کی سرکاری رہائش گاہ جناح ہاوس پر سیاسی بلوائیوں نے حملہ کیا، اسے جلایا اور لوٹ مار کی۔ مختلف دیگر کنٹونمنٹس میں شہداء کے مجسموں کی توہین کے واقعات کے ساتھ فوجی تنصیبات پر حملے کیے گئے۔ نہ صرف یہ بلکہ بات یہاں تک پہنچی کہ انہوں نے سرگودھا ایئربیس کو بھی نقصان پہنچایا اور کچھ شہروں میں نجی و سرکاری املاک اور حساس اداروں کے دفاتر پر حملے کیے۔ عوام کے دلوں میں اتنی نفرت پیدا کر دی گئی کہ جس پر حکومت وقت نے مبینہ دہشت گرد افراد کیخلاف قانونی کارروائی کی تو تحریک انصاف کے پروپیگنڈا سیل نے سوشل میڈیا کے ذریعے ملک کی سب سے مضبوط دفاعی طاقت کیخلاف نفرت پیدا کرکے ہمدردی کا ووٹ لینے کا سلسلہ شروع کر دیا۔

ہمارے کچھ میڈیا ہاوسز نے بھی بلوائیوں کے ابتدائی اقدامات کو نظرانداز کرتے ہوئے عمران خان کی مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹا، جس کے پروپیگنڈا اثرات سے پاکستان کی بڑی جماعتوں کیخلاف نفرت پھیلائی گئی، جس کے نتیجے میں 8 فروری 2024ء کے عام انتخابات میں ہمدردی کا ووٹ عمران خان کے حمایت یافتہ امیدواروں کو ملا۔ ان حالات کے باوجود حکومت بنانے کیلئے سندھ میں پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کر لی، لیکن پنجاب میں کسی جماعت نے بھی نمایاں کامیابی حاصل نہ کی۔ البتہ خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف نے روایتی سیاستدانوں سے نفرت اور عمران خان سے محبت کا ملا جلا مینڈیٹ لیا اور صوبے کی اکثریتی جماعت بن کر سامنے آئی۔ گذشتہ انتخابات کی نسبت بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی کارکردگی بہت بہتر رہی، لیکن اکیلے حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں۔
 
میڈیا میں عام تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے آئندہ حکومتی نظام کا اس قسم کا نقشہ تیار کیا تھا کہ کوئی بھی سیاسی جماعت اکثریت حاصل نہ کرسکے، تاکہ بوقت ضرورت کمزور حکومت کو اپنے خطوط پر چلانے کے لیے کمزور اور منقسم پارلیمنٹ میسر آسکے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کھیل کا خاکہ ہی نہیں پورے جسم میں جو رنگ بھرے جا رہے ہیں، یہ ایک بین الاقوامی سازش ہے، جس میں تحریک انصاف اور اس کی قیادت نمایاں کردار ادا کر رہی ہے۔ گذشتہ پریس کانفرنسوں سے میرا یہ تاثر تھا کہ تحریک انصاف کے موجودہ چیئرمین بیرسٹر گوہر علی انتہائی سمجھدار اور ٹھنڈے مزاج کے فرد ہیں، لیکن ان کی اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے میرے مثبت تاثر کو مایوس کرکے اپنے ارادوں کو بے نقاب کر دیا ہے کہ عمران خان کا پیغام ہے کہ جو لوگ جماعت تبدیل کرکے حکومت بنانے والوں کا ساتھ دے رہے ہیں، ان کو گلی محلوں اور بازاروں میں نکلنے نہ دیا جائے۔

پھر انہوں نے عمران خان کے آئی ایم ایف کو خط کا تذکرہ بھی کیا کہ عالمی مالیاتی ادارہ نئی حکومت بننے کی صورت میں آئندہ معاشی پیکج کے لئے ان سے مذاکرات نہ کرے، جب تک کہ ہماری انتخابی عذرداریوں کا فیصلہ ہمارے حق میں نہیں ہو جاتا۔بڑے افسوس کی بات ہے کہ آئی ایم ایف کا معاہدہ کسی سیاسی جماعت یا لیڈر کیساتھ نہیں بلکہ پاکستان کیساتھ ہوگا، عمران خان اس کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں مدد دینے کا اعلان کرنے کی بجائے، اس کی مخالفت میں تحریک انصاف کے کارکنوں اور لیڈروں سے ملک میں انارکی کی فضا پیدا کرنے اور آئی ایم ایف کے فنڈز کو روکنے کی ہدایات دے رہے ہیں۔ یہ پہلی بار نہیں بلکہ ایسی ملک و عوام دشمنی عمران اس سے پہلے بھی کرچکے ہیں، جب انہوں نے پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی کی حکومتوں کو ہدایت کی تھی کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کی طرف سے فنڈز مہیا کرنے کی توثیق نہ کی جائے اور رکاوٹ پیدا کی گئی، جو کہ پاکستان دشمنی کا عمران خان کے دامن پر سیاہ دھبہ ہے۔

آج بھی عمران خان اور ان کے ساتھی اقتدار حاصل کرنے کیلئے اتنے ہی بے چین ہیں، جتنے وہ 2018ء میں تھے۔ لیکن اپنی حوس اقتدار کیلئے وہ پاکستان میں معاشی بہتری کے حوالے سے رکاوٹوں کو دور کرنے کی بجائے بڑھاتے جا رہے ہیں۔ میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ قوم یوتھ کے مرشد عمران خان اپنے پیروکاروں کو سمجھائیں اور خود بھی ملکی مفاد مدنظر رکھیں۔ اقتدار کل آپ کو دیا گیا، آج کسی اور کے سر سہرا سجایا جا رہا ہے۔ یہاں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح، شہید ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو اور دیگر کئی قومی کردار نہ رہے۔ کل آپ اور مجھ سمیت دیگر سیاستدان بھی اس دنیا میں نہیں ہوں گے، مگر ان شاءاللہ پاکستان رہے گا۔

اس لئے ایسا کردار ادا کریں، جو ملکی مفاد میں ہو۔ آج ملکی مفاد میں پارلیمنٹ کے اندر عوامی مسائل کو حل کرنے کی کوشش میں سر جوڑ کر فیصلے کریں اور بداعتمادی کو دور کر دیں، ورنہ تاریخ عمران خان کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔ ریاست کے کرتا دھرتا کرداروں سے بھی گزارش ہے کہ کسی ظالم شخص پر اتنے ظلم نہ کریں کہ وہ مظلوم نظر آنے لگے۔ عقلمندی کا تقاضا ہے کہ مل بیٹھ کر سیاسی بحران کا حل تلاش کیا جائے۔ پاکستان ہم سب کا ہے۔ اداروں میں بیٹھے افراد سے اختلاف ہوسکتا ہے، پاکستان کے اداروں سے نہیں۔ اس لیے اداروں میں بیٹھے افراد کو اگر تنقید کا نشانہ بنانا ہے تو ضرور بنائیں، لیکن ملکی مفادات سے نہ کھیلا جائے۔
خبر کا کوڈ : 1118828
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش