2
Tuesday 27 Feb 2024 15:35

غزہ کیلئے جلتا امریکی سپاہی اور عالم اسلام کی خاموشی

غزہ کیلئے جلتا امریکی سپاہی اور عالم اسلام کی خاموشی
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

مظلوم سے محبت انسان کا فطری جذبہ ہے، یہ ممکن نہیں کہ کوئی نارمل انسان ہو اور وہ مظلوم سے محبت اور ظالم سے نفرت نہ کرے۔ ایرن بوشنیل امریکی فضائیہ کا عہدار تھا، وہ واشنگٹن میں اسرائیلی سفارتخانے کے سامنے گیا، خود پر جلانے والا مادہ ڈالا اور آگ لگا لی۔ جب وہ جل رہا تھا، تب بھی مظلوم فلسطینیوں کے لیے نعرے بلند کر رہا تھا۔ اس کی آگ بجھائی گئی، جلدی سے اسے ہسپتال منتقل کیا گیا، مگر وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے غزہ کے مظلوموں کے لیے دنیا کا ضمیر جھنجھوڑتے ہوا دنیا سے چلا گیا۔ میں یہ خبر پڑھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ امریکی ائیرفورس کا ایک ملازم بھی غزہ کے بارے میں سوچے تو اتنا پریشان ہوتا ہے کہ خودکشی کر لیتا ہے۔ عجیب بات ہے کہ دنیا میں ساٹھ کے قریب اسلامی ممالک ہیں اور بہت سے ممالک ایسے ہیں، جہاں مسلمان بڑی آبادی رکھتے ہیں، مگر کوئی غزہ کے لیے بات کرنے پر تیار نہیں ہے۔

ممالک اور افراد اپنے ذاتی مفادات کے لیے فلسطین اور غزہ پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ گویا ایک شکست خوردگی کا عالم ہے۔ کسی فلسطینی نے خوب کہا تھا کہ پہلے میں سمجھتا تھا کہ غزہ پر اسرائیل کا قبضہ ہے اور باقی عالم اسلام آزاد ہے، مگر اب سمجھتا ہوں کہ غزہ آزاد اور باقی عالم اسلام ان کے قبضے میں ہے۔ اب تو ہمارے میڈیا نے بھی فلسطین کی خبریں بس شہید ہوگئے اور حملے بڑھ گئے، تک محدود کر دی ہیں۔ جیسے تسلیم کر رہے ہوں کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے، بس یہی کرسکتے ہیں کہ اس مسئلہ پر توجہ ہی نہ دیں۔ سات اکتوبر 2023ء سے شروع ہونے والی جنگ میں غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق اب تک تقریباً 30,000 فلسطینی شہید  ہوچکے ہیں۔ یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے زیادہ شہادتیں ہیں، جو اتنے مختصر سے علاقے پر موجود و محصور لوگوں نے دی ہیں۔

غزہ سے آنے والی ویڈیوز دل دہلا دینے والی ہیں، انسان دیکھ نہیں سکتا۔ غزہ کے ریفریجریٹرز معصوم بچوں کی لاشوں سے بھر چکے ہیں۔ مائیں اپنے لخت جگروں کی لاشیں سینوں سے لگا کر نوحے پڑھ رہی ہیں۔ ایک ماں کہہ رہی تھی: محمد۔۔۔۔ اُٹھو۔۔۔ محمد۔۔۔۔ خدارا اُٹھو، میری روح۔۔۔۔ خدارا، اے جانِ عزیز۔۔۔۔ میں قسم کھاتی ہوں کہ مجھے تم سے محبت ہے۔۔۔۔ خدارا اُٹھو۔۔۔۔۔ تمھارے بچے یہاں ہیں۔۔۔۔ تمھارے بچے میرے ساتھ ہیں۔۔۔۔۔ اے جانِ حیات، تمھارے بچے یہاں ہیں۔۔۔۔ حسبی اللہ ونعم الوکیل۔۔۔۔۔ حسبی اللہ ونعم الوکیل۔۔۔۔۔ اے جان عزیز، نور اور عبود یہاں ہیں۔۔۔۔ محمد۔۔۔۔ محمد ۔۔۔ محمد!!!

ہم سو رہے ہیں، ہمارے جذبے استعماری پروپیگنڈے سے ماند پڑ رہے ہیں، مگر اہل فلسطین کے دشمن انسانیت سے نکل چکے ہیں۔ اسرائیلی سیاستدانوں کو تو چھوڑیں، امریکی رکنِ کانگرس اینڈی اوگلز نے کہا ہے کہ غزہ میں تمام فلسطینیوں کو ہلاک کر دینا چاہیئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ امریکی کانگریس کے رکن کی یہ رائے ہے تو آپ اسرائیلی فیصلہ سازوں کے بارے میں بہتر سوچ سکتے ہیں کہ ان کی رائے کیا ہوگی۔؟ ہر سو خاموشی ہے، ایک وحشت ناک  اور مجرمانہ خاموشی۔ گویا مسلمان ممالک نے طے کر لیا ہے کہ ہم نے اہل غزہ کے لیے کچھ نہیں کرنا۔ اہل یمن جن کے ایمان کی تعریفیں اللہ کے نبیﷺ نے فرمائی تھیں، پوری طاقت کے ساتھ اہل غزہ کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی بساط کے مطابق دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ قومی ریاستیں، کہ جن بارڈروں میں تم نے ہمیں قید کر رکھا ہے، ہم ان کی پرواہ نہیں کرتے، ہم غزہ کے مظلوموں کے ساتھ ہیں۔

اسی طرح حزب اللہ نے ان اسرائیلوں حملوں کا رخ اپنی طرف کر لیا ہے۔ دنیا کی طاقتور اور منظم افواج جن پر عالم اسلام کی دولت خرچ ہو رہی ہے، وہ اہل فلسطین کے لیے ایک بیان دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ آج اچھرہ بازار میں ایک خاتون کے عربی لباس پر بھڑک پڑنے والی غیرت جانے اہل فلسطین اور اہل غزہ کی حمایت و نصرت کے وقت کیوں نہیں جاگتی۔ پروفیسر جمیل اصغر جامی اہل غزہ کے لیے مسلسل لکھ رہے ہیں اور خوب لکھ رہے ہیں۔ انہوں نے  لکھا: "سچ پوچھیں تو اہل غزہ پر ٹوٹنے والی قیامت کے بعد پاکستانیوں کی مجموعی بے حسی اور لاتعلقی دیکھ کر میں اس قوم سے شدید مایوس ہوچکا ہوں۔ غزہ میں بہنے والی خون کے ندیوں پر تو ان کی غیرت نہ جاگی، مگر ایک خاتون کے لباس پر چند عربی الفاظ دیکھ کر یہ بھڑک اٹھے۔ اس دوغلے پن کی مذمت کے لیے میرے پاس الفاظ بھی نہیں ہیں۔"

یہاں پاکستانیوں کی جگہ مسلمان ممالک کے حکمران کر لیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔سچی بات ہے یہ سوچ کر دل پریشان ہو جاتا ہے کہ کل روز محشر اہل غزہ جب شافع محشر کی موجودگی اللہ سے ہماری شکایت کریں گے کہ پروردگار ہم پر آسمان سے آگ برس رہی تھی، ہمارے بچے اور جوان گاجر مولی کی طرح کاٹے جا رہے تھے اور یہ عیاشیوں میں ڈوبے ہوئے تھے تو ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ کر۔ سوائے شرمندگی اور ندامت کے اب بھی کچھ نہیں اور اس وقت بھی کچھ نہیں ہوگا۔ اقبال نے کہا تھا:
اقبالؔ کو شک اس کی شرافت میں نہیں ہے
ہر ملّتِ مظلوم کا یورپ ہے خریدار
یہ پِیرِ کلیسا کی کرامت ہے کہ اس نے
بجلی کے چراغوں سے منوّر کیے افکار
جلتا ہے مگر شام و فلسطیں پہ مرا دل
تدبیر سے کھُلتا نہیں یہ عُقدۂ دشوار

آج اگر اقبال دنیا میں موجود ہوتے تو ان پر یہ عقدہ کھل چکا ہوتا کہ اعلیٰ نعروں کے پیچھے ایک شیطانیت موجود ہے، جو مسکراہٹ کے ساتھ مظلوموں کو کچل رہی ہے۔
خبر کا کوڈ : 1118887
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش