1
Wednesday 13 Mar 2024 15:24

مستقبل فلسطینی قوم کا ہے

مستقبل فلسطینی قوم کا ہے
تحریر: ناصر کنعانی (ترجمان وزارت خارجہ ایران)
 
دنیا والوں کی کمال حیرت اور بے یقینی کے عالم میں، غزہ کی پٹی میں مظلوم فلسطینی بچوں، خواتین اور عام شہریوں کی مسلسل نسل کشی جاری ہوئے پانچ ماہ سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ گویا بین الاقوامی ادارے اور عالمی امن اور انسانی حقوق کے ذمہ داران، پیسہ، طاقت اور فریب کاری کے خداوں کے سامنے اس قدر بے بس ہو چکے ہیں کہ ان میں انسانیت کے حق میں آواز اٹھانے کی سکت ہی باقی نہیں رہی۔ دوسری طرف غزہ کی پٹی میں شہید ہو جانے والے، زخمی ہو جانے والے اور تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے نیچے دب جانے والے فلسطینی شہریوں کی حیثیت محض اعداد و شمار کی حد تک رہ گئی ہے جن کا روزانہ خبروں میں اعلان کیا جاتا ہے۔ گذشتہ پانچ ماہ اور کچھ دنوں میں غزہ میں جو کچھ بھی ہوا وہ دو محاذوں، "پستی اور شقاوت" اور "شرافت اور حق طلبی" کے درمیان غیر مساوی جنگ کی واضح لیکن دردناک تصویر ہے۔
 
انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ گذشتہ 155 دنوں میں یہ تلخ اور انسان سوز مظالم ایسے وقت انجام پائے ہیں جب عالمی امن اور سلامتی کے محافظ بین الاقوامی ادارے اور تنظیمیں نیز لمبے چوڑے انسانی حقوق کے ادارے، سب کے سب اس بے رحمی اور ظلم و ستم کے نظارہ گر رہے لیکن قانون کی حکمرانی اور بین الاقوامی قانون کے نعرے والے زمانے میں اس قدر شدید مظالم کی روک تھام کیلئے حقیقی معنی میں کچھ بھی نہیں کر پائے اور محض خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی ایسی دعویدار حکومتوں نے بھی، جن کی جانب سے انسانی حقوق کے حق میں لگائے جانے والے نعروں نے دنیا بھر کے انسانوں کے کان کھا رکھے ہیں، غاصب صیہونی رژیم کی اس درندگی اور شدید بے رحمی کا نہ صرف مقابلہ نہیں کیا بلکہ اس کی بھرپور سیاسی اور فوجی امداد بھی جاری رکھی ہے۔
 
تیسرے ہزارے کی دنیا، جس پر انسان محوری اور انسانی حقوق نے سایہ ڈال رکھا ہے، حد درجہ بے رحمی سے گذشتہ 155 دنوں سے بغیر چھت کے دنیا کی سب سے بڑی جیل یعنی غزہ کی پٹی میں خواتین، بچوں اور عام شہریوں کے وحشیانہ قتل عام کا مشاہدہ کر رہی ہے۔ عالمی رائے عامہ، بین الاقوامی سطح پر ایسی سفاک اور خونریز رژیم کا مقابلہ کرنے کیلئے عزم راسخ نہ پائے جانے پر شدید غم و غصے کا شکار ہے جسے جنگ سے متعلق بین الاقوامی قوانین اور ضوابط کی ذرہ برابر پرواہ نہیں ہے اور وہ خود کو ان کا پابند بھی نہیں سمجھتی۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کب تک ایسے صیہونی قاتلوں کی جانب سے انسانیت پامال ہونے پر خاموش تماشائی بنی رہے گی جو کھلم کھلا بین الاقوامی قوانین اور اداروں نیز انسانی اور عالمی اقدار کا مذاق اڑا رہے ہیں؟
 
غزہ کی پٹی میں جاری فلسطینیوں کی نسل کشی کے گذشتہ 155 دنوں کے دوران، صدی کے سب سے بڑے انسانی سانحے کے مقابلے میں اسلامی ممالک کی سیاسی، اقتصادی اور فوجی طاقت سے حاصل ہونے والی صلاحیتیں کم ترین سطح پر رہی ہیں۔ اسلامی ممالک، اسلامی اور انسانی اقدار کی پابند عظیم آبادی، دنیا میں انرجی کے عظیم اور اسٹریٹجک ذخائر جیسی خداداد نعمت سے مالا مال ہونے، عالمی سطح پر حمل و نقل کے فضائی، سمندری اور زمینی راستوں پر وسیع جغرافیائی تسلط اور دسیوں دیگر ایسی ہی عظیم توانائیوں اور صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ وہ اپنی ان عظیم توانائیوں کو بروئے کار لا کر اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کے خلاف موثر اقدامات انجام دے سکتے تھے اور یوں اس سرکش گھوڑے کو لگام دینے کی طاقت رکھتے تھے۔ تمام دنیا والے ایک انسان ہونے کی حیثیت سے گذشتہ پانچ ماہ میں غزہ میں جو کچھ ہوا ہے اس کے ذمہ دار ہیں۔
 
اسی طرح وہ مستقبل میں جو کچھ ہونے جا رہا ہے اس کے بارے میں سب سے پہلے اپنے ضمیر اور اس کے بعد عالمی رائے عامہ، تاریخ اور خداوند متعال کے حضور جوابدہ ہوں گے۔ ہر بات، ہر موقف، ہر سیاسی فیصلہ، ہر حمایت، ہر اقتصادی تعاون وغیرہ جس کے نتیجے میں اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کی غزہ کے خلاف جنگ جاری رکھنے اور بیگناہ فلسطینیوں کی نسل کشی آگے بڑھانے میں حوصلہ افزائی ہو گی، صیہونی رژیم کے مجرمانہ اقدامات میں شریک ہونے کے مترادف ہو گا۔ اور ہر ایسا قدم، چاہے بہت چھوٹا ہی کیوں نہ ہو، جو ایک طرف فضائی بمباری اور دوسری طرف شدید ناکہ بندی اور غذائی اشیاء کی قلت کا شکار دکھ بھرے فلسطینیوں کی تسلی اور تسکین کا سبب بنتا ہے وہ انسانی اقدار کی پاسداری اور پابندی نیز عالمی امن اور سلامتی میں حصہ دار ہونے اور ظلم اور بے انصافی سے مقابلے کے زمرے میں قرار پائے گا۔
 
سب، چاہے وہ جو غزہ میں اسلامی مزاحمت کے حامی ہیں چاہے وہ جنہوں نے انسانیت کے احترام پر خاموشی اور مصلحت اندیشی کو ترجیح دی ہے اور وہ جو سفاک صیہونی رژیم کے حامی ہیں، جان لیں کہ غزہ اگرچہ مظلوم ہے، اگرچہ زخمی ہے اور اگرچہ اس کے بچے بھوک کی شدت سے موت کا انتظار کر رہے ہیں، لیکن مقتدر اور سربلند کھڑا ہے اور اس نے اپنے صبر و استقامت کے نتیجے میں آنے والے روشن کل سے امید لگا رکھی ہے۔ فلسطین ہیرو ہے جس کی خواتین سوگوار ہیں لیکن ان کے دل دشمن کے کینے سے بھرے ہوئے ہیں، جس کے مرد اپنے بچوں کو کھانا نہ دینے کے باعث شرمندہ ہیں لیکن وہ دشمن کے مقابلے میں ڈٹے ہوئے ہیں تاکہ وہ تمام فلسطینی بچوں کیلئے بہتر مستقبل فراہم کر سکیں۔ 31 ہزار شہداء کا سوگوار فلسطین خدا کے سچے وعدے، فتح، کی جانب اپنا سفر جاری رکھتے گا۔ بے شک مستقبل مظلوم لیکن مقتدر فلسطینی قوم کا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1122269
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش